امریکہ نے پاکستان سے کہا,آپ طالبان سے بات چیت کریں۔ ان پر اپنا اثر استعمال کریں اور ہمیں محفوظ راستہ لے کر دیں۔ اس کے بدلے آپ افغانستان میں ایک پولیس مین کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان سمجھا۔۔ اور یہ جانا کہ روس کے بعد امریکہ کو بھی افغانستان میں شکست ہونے جا رہی ہے۔ اور یہ کہ پاکستان کو افغانستان پر اپنا اثراور کنٹرول قائم کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ یار لوگوں نے اس کامیابی پر خوشی کے شادیانے بجائے اور کالم لکھ مارے۔ ابھی یہ طے کرنا باقی ہے کہ مقتدر حلقے اس گیم پلان میں کب شامل ہوئے۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے اندرون ملک جو سیاسی تبدیلیاں ہوئیں،امکان یہی ہے،اس پر گفتگو بھی چند سالوں سے جاری تھی، یہ بھی امکان تھا کہ افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہونے جا رہا تھا اور بھارت نے یہ کہہ بھی دیا تھا کہ ہم بھی افغانستان میں اسٹیک ہولڈرز ہیں اور ہماری مرضی کے بغیر افغانستان میں کوئی میجر شفٹ نہیں ہو سکتی۔
دوسری جانب امریکہ افغانستان سے فوری طور پر نکلنے کے لیے بے تاب تھا۔ جونہی پاکستان میں سیاسی تبدیلی مکمل ہوئی اور چین کے ساتھ تعلقات خراب کیے گئے۔ امریکہ نے پاکستان کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے اس کا مالی اور معاشی بازو مروڑ دیا۔ وجہ سی پیک اور افغانستان تھے۔ اگر پاکستان سے کوئی وعدے کیے گئے تھے۔ ان پر عمل نہ ہوا،آئی ایم ایف اور امریکہ کے زیر اثر ممالک نے نام کی خیرات کی۔ اس دھوکے کے باوجود پاکستان نئی افغان پالیسی کے انتظار میں رہا۔ اور دوسری جانب بھارت کے ساتھ کسی بھی قیمت پر دوستی کے لیے مذاکرات کرتا رہا۔ اور جہاں تک جا سکتا تھا، گیا۔ لیکن بھارت کا کوئی اور ہی پلان تھا۔ جسے ہماری قیادت سمجھنے سے قاصر رہی۔ امریکہ کی افغانستان سے نکلنے کی جلدی ، پاکستان کی افغانستان میں اپنا نیا کردار نبھانے کی جلدی ، کشمیر کو اگنور کرنے کی پالیسی، اور اس کی بجاۓ افغانستان پر فوکس، پاکستان کا اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی بد حالی ، سفارتی تنہائی اور چین سے لڑائی۔ بھارت نے ان تمام محرکات کو دیکھتے ہوئے کشمیر کے ساتھ الحاق ختم کیا اور اسے اپنا حصہ بنا لیا اور ہم ہکے بکے منہ دیکھتے رہ گئے۔ پہلے تو جیسے کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی۔ دنیا میں ہم اکیلے تھے۔ جس کا اعتراف شاہ محمود قریشی نے کیا اور جنگ کے بارے میں یہ بیانات آئے۔ یہ خود کشی ہو گی۔ ۔اور اگر ہم ہار گئے تو، یعنی سفارتی اور جنگی دونوں آپشنز ختم ہو گئیں۔
اس مایوس کن صورتحال نے قوم کا مورال انتہائی ڈاؤن کر دیا۔ اور ادارے کے اوپر سے اعتماد اٹھنا شروع ہو گیا ۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں آنا شروع ہو گئیں۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ لوگوں کو احتجاج کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ یہ حالات کسی بھی قوم کو توڑنے کے لیے کافی ٹھے ۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم بڑھتا جا رہا تھا۔ کرفیو مسلسل جاری تھا۔ کشمیریوں کی خوراک ختم ہو چکی تھی۔ دوائیاں نا پید تھیں اور مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی ہولناک طریقے سے رواں تھی۔ وہی دنیا جو کل ہمارے ساتھ نہیں تھی۔ آج سارا بین الاقوامی میڈیا مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور مظالم پر لکھ رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی ایک موثر احتجاج کا پروگرام بنایا ہے تاکہ نا صرف کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے بلکہ پوری دنیا کی توجہ کشمیر کے مسئلے کی جانب مبذول کروائی جائے۔
ادھر جین کے ایک سینئر جرنیل نے پاکستان کا دورہ کیا، اور لداخ کے علاقے میں چین اور پاکستان کی مشترکہ فضائی مشقیں ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے عسکری سطح پر چین اور پاکستان کے تعلقات از سر نو استوار ہو گئے ہیں۔ جو پاکستان کے حوالے سے ایک میجر پالیسی شفٹ ہے۔ اگر پاکستان یونہی قدم بہ قدم آگے بڑھتا رہا۔ اور بھارت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھتا رہا جبکہ عسکری دباؤ بھی جاری رہا تو بھارت کو اپنے فیصلے پر پچھتانا پڑے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں