اے پی ایس پشاور کا سانحہ اور دھشت گردی کا ناسور

آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعے کو دو سال ہوگئے ۔ قوم ابھی تک اے پی ایس کے سینکڑوں بیگناہ بچوں اور اساتذہ کی المناک شہادت کو ابھی تک نہیں بھولی۔ ان کی بہیمانہ شہادت کے زخم اور درد ابھی تک تازہ ہیں۔ یہ زخم مند مل ہونے کی بجائے ہر نئے واقعے سے تازہ ہو جاتے ہیں۔ اے پی ایس کا سانحہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس واقعے نے پاکستان میں دہشت گردی کےخلاف رائے عامہ کو ہموار کیا اور حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سازگار ماحول مہیا کیا ۔یہ اور بات ہے کہ اچھے اور برے طالبان میں تمیز اور انتہاپسند مذہبی گروپوں کی خوشنودی کی پالیسی کی وجہ سے اس موقع سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ ان دو سالوں میں دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے چکر میں ہم نے ان کو اسمبلیوں تک پہنچا دیا ہے۔ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں اور ان کی سرکردہ شخصیات کھلم کھلا عوامی اجتماعات اور مظاھرے کر رہی ہیں۔
شہید بچوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اے پی ایس کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ ابھی تک پورا ہونا تو کجا منتخب اور غیر منتخب دونوں حکمران اس مطالبے کو سننے تک تیار نہیں۔ تحقیقات سے مسلسل پہلو تہی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے بار بار دعووں کے باوجود اور اس بات کا تعین کئے بغیر کہ دہشت گردوں کی کمر واقعی ٹوٹ چکی ہے یا نہیں مگر ان کی جانب سے بیگناہ شہریوں کی ہڈیاں اور کمر توڑنے کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اےپی ایس کے واقعے کے بعد بھی ملک میں دہشت گردی کے کئی سنگین واقعات ہو چکے ہیں۔اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے بنایا گیا قومی منصوبہ عمل بھی تقریباً دو سال کا ہوگیا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یہ منصوبہ اے پی ایس پشاور کے دہشت گرد واقعے کے ردعمل میں بنا تھا ۔ اور بد قسمتی سے اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی پروایکٹیو سے زیادہ ابھی تک ری ایکٹیو ہے۔ اسلئےہر سنگین دہشت گرد کارروائی کے بعد قومی منصوبہ عمل کی فائل کو الماری سے نکال کر اس کی گرد و غبار کو صاف کیا جاتا ہے ۔ ہفتہ دو ہفتہ گہماگہمی رہتی ہے مگر تھوڑے دن گذرنے کے بعد پھر وہی خواب خرگوش کے مزے ۔
پالیسیوں پر عملدرآمد کے علاوہ نقص خود پالیسیوں میں بھی ہے اور قوت ارادی کی کمی بھی ہے۔ پاکستانی ریاست نے عسکریت پسندوں کو ایک پالیسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی میں نہ تو تبدیلی کے کوئی آثار ہیں اور نہ ریاست نے ان سے مکمل قطع تعلق کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کو ایک سیکورٹی اسٹیٹ سے ویلفیئر یا فلاحی ریاست بننے میں ناقص قومی سلامتی کی پالیسیاں بڑی رکاوٹ ہیں۔ان غلط اور ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے ملک مسلسل حالات جنگ میں ہے ۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی کی وجہ سے فوج کی ایک بڑی تعداد سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔ بعض مفادی حلقے جنگ جویانہ ماحول کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ علاقے میں موجود انتہاپسند اپنے بیانات اور حرکتوں سے خطے میں تناؤ اور کشیدگی کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے ایک دوسرے کی موجودگی اور پروپیگنڈے کیلئے جواز فراہم کرتے ہیں۔ علاقے میں کشیدگی سے حریف ممالک کے فوجی اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ محدود قومی وسائل کے کثیر حصے کا دفاع کی طرف منتقلی کا سماجی شعبے یعنی صحت ، تعلیم اور دیگر سماجی بہبود اور ترقی کے پروگراموں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے اس میں اضافے کا امکان اس وجہ سے بھی ہے کہ لگتا ہے پڑوسی ممالک نے بھی پتھر کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کا ایجنڈا ابھی تک نا مکمل ہے۔ جب تک داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی جاتی اور انسداد دہشت گردی کی مہم کو ہر قسم کی عسکریت پسندی کے خلاف اور بلا امتیاز چلایا نہیں جاتا یعنی اچھے برے عسکریت پسند میں امتیاز کی پالیسی کو ختم نہیں کیا جاتا اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے جامع پروگرام نہیں بنایا جاتا ،ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اسطرح دہشت گردی ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ سنگین علاقائی اور عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اسلئے اس کے خاتمے کیلئے علاقائی اور عالمی سطح پر مربوط اور ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے سب ممالک نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ایک پڑوسی ملک کی سرزمین دوسرے پڑوسی کے خلاف استعمال نہ ہو ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply