وزن گھٹایئے، تندرست رہیے۔۔۔علینا ظفر

بہت سی بیماریاں وزن بڑھنے سے ہی جنم لیتی ہیں ,لہذا ان کھانوں اور مشروبات سے گریز کرنا چاہے جو مضرِ صحت ہوں اور ان کے استعمال سے وزن بڑھنے کا اندیشہ بھی ہو۔اگر ان اشیاء کا استعمال چھوڑ نہیں سکتے تو کم کر دیں یہی چاک و چوبند اورجسمانی وزن کے متوازن رہنےکا راز ہے۔مجھ سے اکثر لوگ اپنے وزن کم کرنے کے سفر کی بابت پوچھتے رہتے ہیں, تو میں نے کافی عرصہ سے سوچ رکھا تھا کہ اس پر کبھی نہ کبھی لکھوں گی۔ ویٹ لاس جرنی میں سب سے پہلی چیز جس کا میں نے خود بھی مشاہدہ کیا وہ یہ تھی کہ وزن آپ دو چیزوں پہ قابو پانے کی صورت میں ہی بڑھنے سے روک سکتے ہیں، ان میں اول تو دماغ اور دوسرا آپ کا منہ ہے۔۔یعنی اپنے آپ کوبغیرضرورت اور زیادہ کھانےسے روکنا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ وزن کم کرنا ان افراد کے لیے اتنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا جو کھانے پینے کے بے تحاشا شوقین نہیں ہوتے۔وزن کم کرنے کے لیے ابتدا میں تو میرے جنون کا یہ عالم تھا کہ اس دوران کہیں دعوتوں میں لازمی شرکت کرنی ہوتی توسوائے سلاد کے کسی دوسرے پکوان کی جانب میں نے کبھی دیکھا تک نہیں ۔ مجھے ان لوگوں پہ رشک آتا ہے جو گِلٹ فری ہو کر بے فکری سے کچھ بھی کھا لیتے ہیں ۔سامنے رکھے کھانوں میں موجود بے شمار حرارے مجھے اس پر درج ہوتے نظر آنے لگتے ہیں اور وزن بڑھ جانے کے خوف سے میں کھا نہیں پاتی کہ اتنی مشقتوں سے میں نے تقریباً پندرہ کلو وزن کم کیا ہے اور یہ کوئی اتنا آسان کام تو نہیں ہے۔

ابھی وزن کم کرنے سے متعلق کوئی عملی اقدامات نہیں کیے تھے تو ہمارے استادِ محترم ایک مرتبہ ہمارے ہاں تشریف لائے ۔ صحت کے حوالے سے بہت سی مفید باتیں بتاتے ہوئے وہ فرمانے لگے کہ ہم اپنے پسندیدہ کھانے کھاتے وقت ان کے خوشگوار ذائقے کے احساس میں کھو کر اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے جسم میں جا کر یہ ہمیں کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔تمام بیماریوں کی وجہ وزن بڑھنا ہی ہوتی ہے اس لیے تمہیں وزن گھٹانے کے لیے اگر فاقے بھی کرنا پڑیں تو لازمی کرنا۔ ان کی یہ بات میرے دل پر بہت زیادہ اثر کر گئی۔ اس کے بعد میں اپنے طور پہ خود ہی اپنی خوراک میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ میرے والد صاحب نے جب اس معاملے میں میری حد سے زیادہ سنجیدگی کو محسوس کیا تو شاید انہوں نے سوچا ہو گا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ میں وزن کم کرنے کے لیے کوئی ایسے ٹوٹکے آزما لوں جس سے میری صحت بری طرح سے متاثر ہوجائے۔ اس لیے انہوں نے اچھے ڈاکٹر اور مستند ڈائٹیشن سے رابطہ کیا اور پھر میرے ان کے ساتھ کچھ سیشنز ہوئے جس کے بعد میں اپنی غذا کو متوازن کر کے وزن کم کرنے میں کامیاب ہو پائی۔ میں اللہ تعالی کے بعد اپنے والدین اور ڈائٹیشن کی بہت شکرگزار ہوں جنہوں نے میری صحت بہتر بنانے میں میری رہنمائی فرمائی۔وزن گھٹانے کے لیے میں نےاپنی خوراک میں ہی توازن قائم کیا یعنی چینی، چکنائی، بیکری آئٹمز وغیرہ کا استعمال کم کر دیا اور کوئی دوا استعمال نہیں کی۔

بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ جس ڈائٹ پلان پہ میں نے عمل کیا ہے وہ دوسروں کو بھی بھیج دوں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے جو چیز میں نے کھانے پینے میں استعمال کی وہی شے آپ کے جسم کے لیے بھی مناسب ہو۔ مثلاً کچھ لوگوں کے علم میں نہیں ہو گا کہ مونگ پھلی کھانے سے بہت سے لوگوں کو الرجی ہوتی ہے اور وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتے۔ اسی طرح معدے کی بیماریوں کے شکار مریض سلاد کا ستعمال نہیں کر سکتے۔ میرا مشورہ ہے کہ دوسروں کے ڈائٹ پلانز منگوانے کی بجائے کسی مستند ڈائٹیشن سےخود رجوع کریں ۔ جب آپ ڈائٹیشن سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ صحت کے حوالے سے درپیش مسائل لازمی پوچھتا ہے جسے مدِ نظر رکھ کر ہی وہ آپ کو ڈائٹ چارٹ بنا کر دے گا، اس پہ عمل کر کے ہی آپ صحت مند اور تندرست رہ سکتے ہیں۔

میری ایک دوست کی چھوٹی بہن جو انٹرمیڈیٹ کی طالبہ ہے اورآج کل اپنی فٹنس پہ بہت توجہ دے رہی ہے۔اس نے مجھے بڑی افسردگی سے بتایا کہ اس نے اپنا کچھ وزن تو کم کر لیا ہے مگر باقی کے حدف کو پورا کرنے کی بجائے وہ ڈائٹنگ چھوڑنا چاہ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ گُڑیا تم اپنی فٹنس کو بہتربنانے کی ساری محنت کو ضائع کیوں کرنا چاہتی ہو؟ تو وہ بتانے لگی کہ آپی میں لوگوں کی تمسخرانہ نگاہوں کا سامنا نہیں کر سکتی۔ ویٹ زیادہ تھا تو وہ تب بھی ٹانٹنگ کرتے رہتے تھے اور اب کم کر رہی ہوں تو پھر بھی انہیں مسئلہ ہے۔ جب سے میں نے اپنے وزن پہ کچھ قابو پایا ہے تو بہت سے چہروں اور کھوجتی ہوئی بلکہ پوسٹ مارٹم کرتی نگاہوں میں میں نے اپنے لئے استہزااور طنز رقم دیکھا ہے۔ اکثر اوقات تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وزن گھٹانا میرے لئے کوئی جرم بن گیا ہو،اور لوگوں سےکیا بعید کہ وہ کوئی قانون بنا کر مجھ پر اس سلسلے میں کوئی فردِ جرم ہی عائد نہ کر دیں۔وہ بے حد دلبرداشتہ تھی مجھے بہت دکھ ہوا۔

کچھ عرصہ قبل ہم چند دوست مل کر کسی کام کے سلسلے میں ایک بھاری بھرکم خاتون سے انٹرویو کے لیے ان کے ہاں گئے۔ میرے علاوہ ہمارے گروپ کے ایک اور دوست بھی ڈائٹ پہ ہیں سو ہم نے چائے میں چینی ملانے سے منع کر دیا۔ ہم سے کہنے لگیں کہ چلو تم تو ابھی غیر شادی شدہ ہو مگر لڑکو ں اور بالخصوص شادی شدہ مرد و خواتین کو بھلا کیا ضرورت ہے وزن کم کرنے کی اور لڑکوں کی شادی کے وق اور ت یہ بات کوئی نہیں دیکھتابلکہ بڑھتے وزن کا مسئلہ تو زیادہ ترلڑکیوں کے رشتے میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ پہلے تو وہاں موجود ہم ان کی اس نرالی منطق پہ ہونق بنے انہیں تکنے لگے پھر ہمارے کچھ شرارتی دوستوں کے ہاتھوں اس بات پر ان کا خوب مذاق بنا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی میری ڈاکٹر دوست مجھ سے گفتگو کر رہی تھی کہ ہمارے ہاں بہت سے ایسے افراد ہیں جو اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ کھانے پینے میں ان سے بد احتیاطی ہو جاتی ہے۔ بہت سے افراد یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہم تو اتنا زیادہ یا ایسا کچھ کھاتے ہی نہیں جس کی وجہ سے وزن میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ میں اپنی بات کروں تو یہ غلطی مجھ سے بھی سرزد ہو چکی ہے ،وزن کم کرنے سے پہلے مجھے بھی لگتا تھا کہ میرا کھانا پینا تو بالکل ٹھیک ہے مگر اس کے باوجود بھی کیوں وزن بڑھ جاتا ہے؟ غور کیا تو احساس ہوا کہ میرے کھانے میں چاولوں کی زیادتی ہے جو وزن بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔موٹاپا کئی بیماریوں کی جڑ ہے، اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تواسے ضرور کم کریں کہ آپ نے خود کو بے شمار بیماریوں سے بچانا ہے نہ کہ اس لئے کم کر یں کہ لوگوں کو اچھے نہیں دکھائی دے رہے۔ اگر کوئی آپ کے بڑھے یا کم ہوئے وزن کو تنقید و طنز کا نشانہ بناتا ہے تودوسروں کی باتوں پر توجہ بالکل نہ دیجئے ، خاص طور پہ ان سے دور رہیں جو صرف طنزکرنے باتیں بنانے کے سوا آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ محض چند روپے بچانے کی کوشش میں کسی بھی طرح کی دوائیوں یا ٹوٹکوں کا استعمال ہر گز مت کیجیئے ۔بلکہ ہمیشہ کسی مستند ڈاکٹر یا ڈائٹیشن کے پاس جائیں۔جب آپ وزن کم کررہے ہوں تو تھوڑا صبر اور استقامت سے کام لیں ۔ یہ کبھی مت چاہیں کہ راتوں رات ہی آپ وزن کم کر لیں۔ اپنی صحت پہ خود توجہ دیں کوئی بھی ڈاکٹر یا ڈائٹیشن آپ کو سمجھاتے ہوئے ڈائٹ پلان لکھ کے دے سکتا ہے مگر اس پہ عمل آپ ہی نے کرناہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply