ہم ہیں سفیرِ کشمیر, ہاں ہم کھڑے ہیں۔۔۔۔ بلال شوکت آزاد

جنگ, جنگ آخر ہے کیا؟

آزادی, آزادی آخر ہے کیا؟

قومی غیرت و حمیت, قومی غیرت و حمیت آخر ہے کیا؟

بیشک جنگ وہ کیفیت ہے جو کسی امت, کسی قوم کسی منظم اور متحد گروہ پر اپنی خودمختاری کی حفاظت اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے اور اعلائے کلمتہ اللہ کی سربلندی کی خاطر ظہور پذیر ہوتی ہے, پر جنگ کی نوعیت الگ ہوسکتی ہے یہ ذہن نشین رہے۔

آزادی وہ اختیار اور ہتھیار ہے جس کی سج دھج اور چمک سے جنگی کیفیت دو چند ہی نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی امت, قوم یا منظم اور متحد گروہ کی جنگی تقویت کا مضبوط ستون ثابت ہوتی ہے اور بیشک آزادی کا تسلسل ایک اہم وجہ ہے جنگ اور جنگی کیفیت کی لیکن پھر یاد رہے کہ جنگ کی نوعیت کچھ بھی ہوسکتی ہے۔

اور قومی غیرت و حمیت وہ رسپانس ٹائم اور سٹریٹیجی ہے جس پر ساری جنگوں اور آزادی کا دارومدار ہے کہ جو قوم غیرت و حمیت سے عاری ہوجائے پھر وہ آزاد بھی ہو اور جنگی سازوسامان سے لیس بھی ہو تو جنگ ان کے کرنے کی چیز نہیں کہ جنگ ایک کیفیت کا نام ہے جو میں پہلے واضح کرچکا اور جنگ صرف خون بہانے کا ہی نام نہیں اور دنیا تباہ کرنا قطعی جنگ نہیں بلکہ جنگ کی نوعیت ہمیشہ الگ ہوتی ہے اور ہوسکتی ہے یہ ذہن نشین رہے۔

اب سمجھیں کہ یہ گزشتہ 27 دن سے بھارت میں کیا ہوا, کشمیر میں کیا ہورہا, پاکستان کیا کررہا اور دنیا کا ماحول کیسا بننا تھا پر کیسا بن رہا ہے؟

جلد بازی یا عجلت کے بارے مشہور ہے کہ یہ شیطانی فعل ہے اور یہ حقیقت بھی موجود اور مسلم ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور بالخصوص ایسے انسان شیطان کا پرائم ٹارگٹ ہیں جن میں انسانیت اور مسلمانیت کے جراثیم اتمام حجت سے لیکر پیک لیول پر موجود ہوں۔اور وجہ کوئی جذباتی اور شدید انسانی و مسلمانی ہو تو حساس اور فکر مند انسان کا عجلت میں کچھ کرنا اور کہہ جانا ایک فطری سی بات ہے کہ انسان کے کمزور لمحات وہ ہوتے ہیں جب انسان کے جذبات تتر بتر اور شدید ٹھیس کا شکار ہوں۔

میں ڈھیٹ اور لکیر کا فقیر نہ شروع دن سے تھا اور نہ ہوں اور نہ ہی ان شاءا ﷲ  آئندہ ہوں گا کہ میرا مسئلہ کشمیر کے حالیہ تغیر کے بعد اوائل دنوں میں موقف حکومت اور ریاست کی بابت بہت سخت بلکہ سخت ترین رہا ہے کہ جو کردار ادا کیا جارہا تھا تب وہ مجھے کچھ خاص مائل نا کرسکا تھا کہ کیفیت شدید جذباتی تھی اور اب بھی ہے لیکن چونکہ حکومت اور ریاست کی اپنی ذمہ داریاں اور مجبوریاں بہرحال تھیں اور ہیں جو میں پرانے دنوں کی طرح سمجھ رہا اور سمجھ چکا ہوں۔

اب جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ عمران خان نے بطور سربراہ مملکت جس طرح سفارتی, سیاسی اور عسکری چینلز کی ترتیب لگائی ہے وہ اگر اسی سٹریٹیجی پر کاربند رہا تو بھارت یا مودی ایک وقت میں بند گلی میں پہنچنے والا ہے کہ اتمام حجت انجام دینا بھی کسی چڑیا کا نام ہے کسی دشمن کو اس کے منہ کے مطابق چپیڑ مارنے سے پہلے۔۔۔۔آج خان کی بدولت اس عوام نے وہ جذبہ اور جوش و خروش دکھایا ہے کہ اوپر موجود تمام سوالوں کے جوابات پر اس قوم کو پرکھ کر دیکھ لیں تو آپ کو قطعی مایوسی نہیں ہوگی کہ تمام سوالوں کے جوابات پر یہ قوم کھری پائی جاتی ہے۔

مجھے معلوم ہے بلکہ اللہ کی ذات پر حد درجہ بھروسے کے بل پر یقین ہے کہ آج ایک آواز پر میرے ملک کے گلی گلی, محلے محلے اور شہر شہر میں جس طرح میرا ہر پاکستانی کشمیر کی خاطر آواز بلند کرنے نکلا بلکل اسی طرح حکومت و ریاست کی جانب سے حی اعلی الجہاد حی اعلی الجہاد کی اذان پر نکلیں گے۔

آج “کشمیر آور” کی گونج دنیا کے ہر فورم, ہر میڈیا, ہر ادارے, ہر انسانی محفل میں سنائی دی اور دے رہی ہے کہ ابھی تک جو نعرہ تھا کہ “ہم کشمیریوں کے سنگ کھڑے ہیں” کا عملی نمونہ دیکھ لیا ہے دنیا نے کہ جی ہاں “ہم کھڑے ہیں” اور اگر دنیا نے اسی طرح ہمیں نظر انداز کیا اور ہماری بات نہ سنی جیسے ماضی میں سلوک روا تھا تو ہم آج کھڑے ہیں لیکن بہت جلد چل پڑیں گے اور ہماری منزل بیشک روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم پھر کشمیر کا چپہ چپہ بازیاب کروانے سے پہلے رکیں گے نہیں کہ ہمیں روکنا شروع کرنے سے زیادہ مشکل اور صبر آزما کام ہے اور اس کا محض دعویٰ نہیں کہ روس اور امریکہ کی تاریخ میں جس ملک کا نام پچھلے 40 سال سے سب سے زیادہ درج ہورہا وہ ہم ہیں, وہ پاکستان ہے۔

شکریہ پاکستانیوں شکریہ حکومت پاکستان اور شکریہ تمام اداروں کا کہ جو سب آج محض ایک کاز کی خاطر گھروں سے نکلے اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ہمیں ہلکا مت لو, ہم تو زخمی بھی ہوں تو حوصلے پست نہیں ہوتے اور ہمارا قہر کم نہیں ہوتا لیکن ہماری خاموشی اور امن کو اولیت دینے کی عادت کو ہماری کمزوری نا سمجھا جائے۔

عمران خان اور ریاست کو اب کشمیر کے حوالے سے باقاعدہ ایمرجنسی نافذ کردینی چاہیے ہر جہت پر کہ قوم کا ہر فرد “سفیرِ کشمیر” بنے اور جہاں جائے وہاں کشمیر کو ساتھ لیتا جائے اور دنیا کو باور کراتا رہے کہ پاکستان ہی کشمیر ہے اور کشمیر بنے گا پاکستان۔

میں آج والی پاکستانی قوم کے دم پر پرعزم ہوں کہ جب بھی اعلان ہوا تو آج سے دوگنا عوام سرحد پار جاکر کشمیریوں کا بدلا چکانے میں بھی پیش پیش رہے گی کہ آخر کار ہم پر جنگی کیفیت مسلط کردی جائے گی اور تب ہمیں آزادی جیسے ہتھیار کے بل پر قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرنا ہی پڑے گا۔

یاد رہے کہ ہم ہیں سفیرِ کشمیر اور ہاں ہم کھڑے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہماری کوششوں اور محنتوں کو خالص کردے اور ہماری دعاؤں کو کشمیریوں کے حق میں قبول کرلے اور اگر ہم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو ہمیں اپنے سلف کی طرح ثابت قدم رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply