• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کے کالم نگاروں کے نام بھیجی گئی ای میل۔۔۔۔اعظم معراج

پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کے کالم نگاروں کے نام بھیجی گئی ای میل۔۔۔۔اعظم معراج

کراچی29 اگست 2019
محترم کالم نگار صاحبان
اسلام علیکم
میں تحریک شناخت کا رضا کار ہوں اس تحریک کی بنیاد اس فکر پر ہے کہ کوئی  بھی فرد ،افراد، گروہ یا کمیونٹی کسی ایسے معاشرے میں ترقی نہیں کرسکتے جسے وہ جانتے نہ ہوں اپنا مانتے نہ ہوں۔ پاکستان کے پسے ہوئے طبقات بالعموم اور غیر مسلمان پاکستانی شہری بالخصوص اپنے معاشرے سے بیگانگی اپنائے ہوئے ہیں جس کی ہزاروں تاریخی ،معاشرتی،سماجی ودیگر وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اور اس کی ذمہ داری معاشرے، سماج حکومتوں ریاست اور کئی گروہوں پر ڈالی جاسکتی ہے۔ لیکن حقیقت پسندانہ خود احتسابی بتاتی ہے اقلیتی افراد انجمنیں اور انکے مذہبی سماجی اور سیاسی راہنمائی کے دعویدار بھی ان کے ان رویوں کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں ،جتنا کوئی دوسرا ۔اسی معاشرتی بیگانگی کی بدولت پاکستانی مسیحی نوجوانوں نے اپنے لئے اس معاشرے میں ہر طرح کی ترقی کی راہیں بند کرلی ہیں۔تحریک شناخت اس معاشرتی بیگانگی کو دور کرنے کے لیے پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کر کے انھیں معاشرے سے جوڑ کر انکے لئے انکے آبا کی سر زمین پر فکری،شعوری،تعلیمی ،معاشی ،معاشرتی، سماجی،علمی، تہذیبی , مذہبی،وسیاسی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں کوشاں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے میں نے اس تحریک کے بینر تلے کراچی کے مختلف اسکولوں، کالجوں میں نوجوان طالب علموں سے مکالمے اور فکری نشستوں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے۔جہاں نوجوانوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ آپ دھرتی کے بچے ہیں، آزادی ہند ،قیام، تعمیراور دفاع پاکستان میں آپ کے اجداد کا قابلِ فخر کردار ہے، لہٰذا پاکستانی معاشرے کو جان کر اور اسے اپنا مان کر اس میں ترقی کریں۔ اس موضوع پر تحقیق اور اپنے مشاہدے، تجربے ،تجزیے، اوراس فکری تحریک کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے میں نے گیارہ کتب لکھی ہیں۔جن کا مختصر تعارف یہ ہے۔

”دھرتی جائے کیوں پرائے“ اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔یہ کتاب انِ سماجی رویوں کی کہانی ہے، جس کا سامنا وادی ء  سندھ (موجودہ پاکستان) کا بیٹا ہزاروں سال سے کرتا آرہا ہے، اِس سماجی استحصال کے ردعمل میں سندھ واسیوں کی موجودہ نسل کے ایک گروہ (مسیحیوں) نے جو سماجی رویے اپنالیے ہیں، کتاب میں انھیں موضوع بنایاگیا ہے ۔ اس کتاب میں دو نہایت تاریخی دستاویز ایس پی سنگھا کی پنجاب اسمبلی میں آخری تقریر اور جوگندر ناتھ منڈل کا استعفیٰ بھی شامل ہے یہ گجرات یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ترجمے کیلئے بطور ایم فل پروجیکٹ منتخب ہوئی Neglected Christian Children of Indus کے نام سے اسے انگریزی روپ دیا گیا۔ یہ کتاب پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب مواقعوں اور کمزوریوں و توانائیوں کا تخمینہ اور مکمل تجزیہ طکمخ کرتی ہے۔

معاشرتی بیگانگی کے ان رویوں میں مثبت تبدیلی کی کوشش کے طور پردوسری کتاب ”شناخت نامہ“ ہے۔ یہ تحقیقی کتاب نہ صرف پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت کیساتھ آزادی ہند ،قِیام ، تعمیرو دفاعِ پاکستان میں انکے اجداد کے پاکستانی معاشرے میں قابل فخر کردار کے ذریعے انکی شاندار شناخت کا تعین کرتی ہے ، بلکہ اُن کی موجودہ نوجوان نسل اور آنے والی نسلوں کو فکری تحریک دے کر ان کےلئے ان کے آباءکی سر زمین پر مسیحیوں کیلئے فکری، شعوری،تعلیمی، معاشی،سماجی ، معاشرتی ،علمی،مذہبی،تہذیبی اور سیاسی ترقی کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔ یہ کتاب اس کتابی سلسلے کے مقصد کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی مسیحی اس کتاب کو اپنی اجتماعی شناخت قرار دے رہے ہیں ،اور یہ پاکستانی مسیحیوں میں تحریک شناخت کا منبع ثابت ہوئی ہے۔اس کتاب کو “دھرتی جائے کیوں پرائے” کے ساتھ ایف سی کالج لاہور میں ایم فل اُردو کے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔

”سبزوسفید ہلالی پرچم کے محافظ وشہدا “ اس سلسلے کی تیسری کتاب تھی۔ چوتھی کتاب ”شہدائے وطن“ ہے۔یہ کتاب11نشان حیدر اورمسیحی شہداءکے حالات زندگی پرمبنی ہے۔ “شان سبزو سفید “اس سلسلے کی پانچویں کتاب ہے دفاع پاکستان میں مسیحیوں کی 73 سالہ تاریخ بیان کرتی ایسی تاریخی دستاویز ہے یہ کتاب نہ صرف مسیحیوں کی موجودہ اور آنے والی نوجوان نسلوں میں شہداءکے لہو ، غازیوں ،محافظوں کی جرات کی بے مثال داستانوں سے عزم و حوصلہ وطن پرستی پیدا کررہی ہے بلکہ پاکستانی قوم میں بین المذاہب اور معاشرتی ہم آہنگی کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ” کرسچین ڈیفنڈرز آف پاکستان “کے نام سے زیر اشاعت ہے ۔”چوبیس چراغ” اس سلسلے کی چھٹی کتاب ہے۔جو افواج پاکستان کے گیارہ نشان حیدر اور بہادری کے تیس اعزاز حاصل کرنے والے چوبیس مسیحی شہداء، غازیوں اور محافظوں کے حالات زندگی پر مبنی معلوماتی کتاب ہے۔ ساتویں کتاب افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل ہے۔”حیدران کے مسیحی ساتھی“ اس سلسلے کی آٹھویں کتاب ہے۔

نویں کتاب ”اسٹوری آف ٹو لیٹرز“ ہے ۔ جوپاکستانی مسیحیوں کی معاشرے میں قابل فخر شناخت کی کھوج اور اِن قابلِ فخر حقائق و معلومات کو پھیلانے کے لیے لکھے گئے منتخب خطوط پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا مقصد انگریزی قارئین کو اس سماجی مسئلے اور اِس فکری تحریک سے آگاہ کرنا ہے۔ ۔پاکستان کے مسیحی معمار اس سلسلے کی دسویں کتاب ہے۔” کئی خط ایک متن“ اس سلسلے کی گیارہویں کتاب ہے۔ اس کتاب میں – میں نے تحریک شناخت کے اغراض ومقاصد کے حصول کےلئے عہد حاضر کے صحافیوں، دانشوروں، اینکرپرسنز اور مذہبی، سماجی و سیاسی شخصیات  کو لکھے گئے ہزاروں خطوط میں سے منتخب خط شامل کئے ہیں۔ یہ خط بھی اس کتاب کا حصہ ہو گا ۔ان تمام کتب میں ہزاروں سال پرانے سماجی مسئلہ کی وجوہات اور ان کے سدباب کی سفارشات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے میرے لکھے گئے دو مقالے ”نیولیٹیکل ٹریجڈی آف نان مسلم پاکستانیز“ اور ”اسٹیٹس ٹیکل مِتھ آف کرسچن پاپولیشن اِن پاکستان“ بھی قومی اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔میرے مضامین افواج پاکستان کے میگزین ہلال میں بھی چھپ چکے ہیں۔

محترم دانشور، ادیب ،صحافی ودیگر صاحب علم صاحبان آپ جیسے لوگ معاشروں کے اجتماعی ضمیر ہوتے ہیں- اور چاہے آپ کا مکتبہ فکر کوئی بھی ہو لیکن سماجی ناانصافی اور گھٹن زدہ ماحول والے معاشروں کو آپ اور آپ جیسے دیگر صاحب فکر لوگ اپنے اپنے نقطہ نظر سے بہتر کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں۔اگر آپ میرے ان مقاصد سے متفق ہوں تو اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔اپ اس مقصد میں کئی طرح سے حصہ ڈال سکتے ہیں مثلاً یوم دفاع چھ ستمبر آنے والا ہے ۔اس موقع پر دیگر فوجی ہیروز کے ساتھ قومی سطح پر نمایاں کارنامے انجام دینے والے مسیحی شہداء غازیوں اور محفاظان وطن کے کارناموں سے قوم کو متعارف کروانے کے لئے آپ کالم بھی لکھ سکتے ہیںِ اور اگر آپ کسی ٹی وی چینل پر ہوں تو وہاں بھی انہیں اجاگر کر سکتے ہیںِ ان معلومات کے منظر عام پر آنے سے ۔بین الامذاہب اور سماجی ومعاشرتی ہم آہنگی کے فروغ اور تعمیر قوم میں بھی بڑی مدد ملتی ہے۔اور اس وقت ہمیں اسکی شدید ضرورت ہے۔اس مقصد کے لئے میں اپنی ایک غیر روایتی سی کوشش آپکو بتانا چاہتا یوں۔ میری گیارہ کتب میں سے چھ دفاع پاکستان میں مسیحیوں کے کردار کو اجاگر کرتی ہیںِ اور ان چھ میں سے پانچ میں افواج پاکستان کے گیارہ نشان حیدر حاصل کرنے والے شہداء  وطن کے مختصر تعارفی خاکے دہرائے گئے ہیں۔مجھے اس کا ادراک ہے کہ یہ ایک غیر ادبی اسلوب ہے لیکن میری یہ کوشش سماجی ومعاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کے ضرور کام آرہی ہے۔ اور پاکستان بھر میں یہ غیر ادبی کوشش کرنے والا واحد ادیب ہوں۔جسکی کتب میں گیارہ نشان حیدر حاصل کرنے والے جاں بازوں کے شخصی خاکے آپ کو ایک جگہ اکٹھے مل جاتے ہیں -اس ضمن میں ایک چھوٹی سی گزارش آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ یقیناً  آپ سمیت میرے وطن کا ہر دانشور اپنی اپنی فکر کے مطابق دن رات اس ملک وقوم کی اقوام عالم میں عزت وقار کے لئے کوشاں ہے ،لیکن آج کے دور میں کوئی بھی ریاست اپنی کسی بھی قسم کی اقلیت،بچوں،خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا بندوست کئے بغیر اور انھیں انکی مذہبی شناخت کے ساتھ معاشرے کا کار آمد قابل عزت شہری بنائے بغیر ریاستوں کی بین الاقوامی برادری میں معتبرنہیں ہوسکتی ہے۔ آپ کی ذرا سی کوشش پاکستان کے غیر مسلمان شہریوں کو احساس ملکیت اور قوم سے جوڑ سکتی ہے۔ کیونکہ میں نے یہ متعدد بار یہ مشاہدہ کیا ہے۔ کہ جب بھی کسی قومی اخبار یا ٹی وی چینل نے پاکستانی مسیحیوں کی اجتماعی قابل فخر شناخت کو اجاگر کیا۔انکے دل فخر عزم اور وطن کی محبت سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قومی دنوں پر اگر قومی سطح کے کسی بھی بہت نمایاں مسیحی کا ذکر قومی میڈیا پر نہیں ہوتا ،تو جذبات اسکے الٹ ہوتے ہیں۔ جو کہ کسی بھی ریاست کے لئے اچھا شگون نہیں ہوتا۔ اس لئے امید ہے کہ آپ اس مقصد میں ہمارا ساتھ ضرور دیں گے۔

اگر آپ کو اس مقصد کےلئے مواد چاہیے تو آپ مجھے فون کیجیے جو بھی کتاب آپ کوچاہیے ہوگی میں آپ کو بذریعہ ڈاک بھجوا دوں گا۔ یا اس تحریک کے میری طرح کے رضاکار جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔وہ خود حاضر ہو کر آپ کی  مرضی کی کتاب آپ کی خدمت میں پیش کردیں گے۔
والسلام
اعظم معراج

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ پاکستانی مسیحیوں سے گزارش ہے کے چھ ستمبر سے پہلے کوشش کریں اگر آپکے رابطے میں کوئی بڑا دانشور، کالم نگار یا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والی کوئی بھی شخصیت ہے تو یہ خط انھیں بھیجے، یہ کوشش آپ کے بچوں اور آنے والی نسلوں کی اجتماعی قابل فخر شناخت کو پاکستانی معاشرے میں اجاگر کرنے کیلئے ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply