آیات خداوندی کا اُٹھ جانا

آیات خداوندی کا اُٹھ جانا
صاحبزادہ محمد امانت رسول
دو روز پہلے ایک بزنس مین دوست تشریف لائے۔ بزنس مین ہونے کے باوجود قرآن مجید سے گہرا شغف اور تدبر فی القرآن کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں ۔ اکثر طور پر بزنس کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ تجارتی سرگرمیوں اور کاروباری معاملات میں مصروف ہوتے ہیں لیکن وہ بے پناہ مصروفیات کے باوجود ،قرآن مجید سے استفادہ کا تعلق قائم رکھتے ہیں۔ مجھے کہتے ہیں ”امانت صاحب! ایسا نہیں لگتا کہ اللہ نے اپنی کتاب اور اس کی آیات کو اٹھا لیا ہے ؟میں کچھ دیر کے لئے حیران وپریشان ہوا کہ وہ کیسے؟ کہنے لگے “ آپ دیکھ لیں۔ منبر و محراب، خانقاہ و مدرسہ، سکول ویونیورسٹی ، پارلیمنٹ اور عدالت سے ہر بولنے والا اپنی بولی بول رہا ہے۔ خدا کی بولی کوئی نہیں بول رہا۔ منبرو محراب ،خانقاہ و مدرسہ سے اٹھنے والی آواز اپنے فرقے کی بولی بول رہی ہے۔ سکول ویونیورسٹی جدید اخلاق باختہ تہذیب کی بولی بول رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدالت بالادست طبقے کی بولی بول رہے ہیں۔ ہماری ایلیٹ کلاس کو اس کی حاجت ہی نہیں ہے کہ ان سے خدا کیا کہتا ہے ؟ کلامِ الہٰی میں ان کے لئے کیا راہنمائی ہے؟ اسی طبقے میں بزنس مین بھی ہے جسے اپنے کاروبار اور املاک سے غرض ہے۔ اسے حلال وحرام سے کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ سود کو بھی اپنے لئے کوئی مسئلہ نہیں سمجھتا۔ حکمران طبقہ اہل منبر و خانقاہ کو ان کا حصہ باقاعدگی سے پہنچا رہا ہے اور وہ اپنا حصہ باقاعدگی سے وصول فرما رہا ہے۔
قرآن مجید نے اہل یہود کے سماجی حالات او ر مذہبی ذہنیت کو بیان کیا ہے وہی سماجی حالات اور مذہبی ذہنیت ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ دوست کہتے ہیں ”اس کا مظاہرہ خواص سے لے کر عوام تک سب کی زندگی اور مذہب بیزار ذہنیت سے بھی ہوتا ہے ۔ کسی کی ترجیح کلامِ الہٰی نہیں ہے کہ اس میں ہمارے لئے کیا لکھا ہے۔ سال کے مختلف مہینے ، مختلف فرقوں نے اپنے نام کر لیئے ہیں اور اس طرح شخصیات کو بھی تقسیم کر لیا ہے۔ عوام کی جذباتی وابستگی بھی شخصیات کے ساتھ ہوتی ہے اور جذباتی وابستگی میں بے عملی کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔ ان خاص مہینوں میں مذہب کا جوحشر کیا جاتا ہے اور جو مذہب کے نام پرکیا جاتا ہے اس سے ایسے ہی محسوس ہوتا ہے،ہم مذہب کے نام پر سب کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن مذہب پر چلنا نہیں چاہتے۔
قرآن مجید کی تلاوت اورتدبر کا نتیجہ خشیت اور رقت ہے جو بندے کو نصیب ہوتی ہے جو کسی اورکتاب سے نصیب نہیں ہوتی۔ مومن کی زندگی میں قرآن مجید کا وہ مقام ہوتا ہے جو انسانی وجود میں دل کا .. اس کے بغیر انسانی وجود بے جان اور بے حقیقت ہے۔ اسی طرح مومن کی زندگی قرآن مجید کے بغیر بے حقیقت اوربے جان ہے۔ مومن اور کافر کی زندگی میں بنیادی فرق یہی ہے کہ مومن اپنے عمل کا چراغ قرآن مجید کی لو سے روشن رکھتا ہے ۔ اس کا چال چلن قرآن سے وابستہ ہوتا ہے ۔ وہ قرآن مجید کی ہدایات وراہنمائی میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اسکے برعکس ایک غیرمسلم کی زندگی میں قرآن مجید بطور ہدایت و راہنمائی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا چال چلن قرآن مجید میں گندھا ہوا نہیں ہوتا۔
ہمارے گھر میں بے ترتیب چیزوں میں ضرورت کی چیز کہیں نیچے دبی ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید بہت سی کتابوں کے نیچے کہیں چھپ گیا ہے۔ہم ہر کتاب پڑھتے ہیں لیکن قرآن مجید نہیں پڑھتے یا ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے ساری زندگی دوسری کتابوں کو پڑھتے رہتے ہیں جس کتاب کی خاطر فنون و علوم سیکھتے ہیں اس کے لئے وقت ہی نہیں نکال پاتے ۔ ہم عربی زبان ،فقہ، حدیث ، اصول ِحدیث، تفسیراور اصولِ تفسیر پڑھتے ہیں لیکن ان کا پڑھنا خود ایک مقصد بند کر رہ جاتا ہے۔ اگر قرآن مجید تک نوبت آتی ہے تو اس وقت ہمارا ذہن قرآن مجید سے متعلق اسی طرح تربیت پا چکا ہوتا ہے جیسے فنون کی کتب کے متعلق ۔
یہ مختصر سا منظر آپ کے سامنے رکھا ہے۔ ایسے حالات میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہم نے قرآن مجید سے کیا سکول روا رکھا ہوا ہے۔ قرآن مجید سے محرومی کا علاج بہت ہی مشکل ہے۔خاص طور پر، ان حالات میں جب عظیم سلطنتیں مختلف تصورات پر وجود میں آ چکی ہوں۔جب عوام وخواص ، علماءو حکمران کسی کا بھی مسئلہ قرآن مجید نہ رہا ہو۔ وہ صرف اور صرف اپنے مفادات کے بندے بن کر رہ جائیں۔ ایسے ماحول میں میرے دوست کے الفاظ کیکپی طاری کر دیتے ہیں ”امانت صاحب! ایسا نہیں لگتا کہ اللہ نے اپنی کتاب اورآیات کو اٹھا لیا ہے“؟۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply