• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • احمد فراز!سوچ کی کوئی حد نہیں ہوتی،مگر معیار ضرور ہوتا ہے۔۔۔اسد مفتی

احمد فراز!سوچ کی کوئی حد نہیں ہوتی،مگر معیار ضرور ہوتا ہے۔۔۔اسد مفتی

وہ جو غالب نے کہا تھا کہ
قطرہ میں دجلہ دکھائی دے اور جُز میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا،دیدہ ء بینا نہ ہوا
“دیدہ ء بینا”جس کو عطا ہوجائے اس کے لیے دشواریاں ہی دشواریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔زندگی کے ہر موڑ پردیدہ ء بیناجراحتوں کا سامان فراہم کرتا رہتاہے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ زیست کی تہہ در تہہ معنویت کی تلاش بہت مہنگا سودا ثابت ہوتی ہے،ہر عہدمیں وہ لوگ جن کویہ نعمت عطا ہوتی ہے صلیب و دار کی منزلوں سے گزرتے رہتے ہیں،ان کے پیرایہء اظہار میں وہ تیکھا پن ہوتا ہے کہ اسے ملمع سازوں،دنیا پرستوں اور جاہ پرستوں کی ظاہر داری برداشت ہی نہیں ہوسکتی۔
فیض احمد فیض کے بعد اس نظم اور غزل میں اس “دیدہ ء بینا”کی نمائندگی پوری ذمہ داری کے ساتھاگر کسی شاعر نے کی ہے تو وہ بلاشبہ احمد فراز ہی ہے۔
فراز ہمارے عہد کا وہ ماہتاب تھا جس پر اجل کے کالے بادل آجانے کی وجہ سے جہانِ غزل ایک دم تاریک ہوگیا ہے،پورے65سالہ عہد پر اس کی بھرپور گرفت رہی،میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مخدوم غلام محی لادین نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ شاعر کو غزل عمر کے کم از کم  چالیس سال پورے کرکے شروع کرنی چاہیے۔

شاعر:احمد فراز

مخدوم نے اشاروں میں صنف غزل کے لیے بہت اہم بات کہہ دی،اس میں وہ شاعر کی مشاقیِ فن اور زیست کے تجربوں کی کشادگی پر اصرار کرتا ہے،غزل خیال بھی ہے اور آتش کے لفظوں میں مرقع سازی کا کمال بھی،اور یہ کمال فراز نے 18سال کی عمر میں کردکھایا،اور مقبولیت کے جس گراف تک اس کا نام روشن رہا وہ اس عہد میں بہتوں کو نصیب نہ ہوا،اس پر ہمعصروں نے طرح طرح کے طنز کیے،لیکن اسے فیض کی طرح ہمیشہ ثابت قدمی سے اپنی متعینہ ڈگر پر چلنے کا جنون رہا۔۔
اقبال اور فیض کے بعد اور بھی کئی نام ہیں،لیکن فراز کو جو عزت،دولت،شہرت،عظمت اور مقبولیت ملی اس کی دوسری مثال نہیں،وہ صرف عام آدمی کے دکھ درد کا غزل کا ر نہ تھا،بلکہ خواص میں بھی جی بھر کر پڑھا جاتا تھا۔
آج جب نازش بزمِ سخن و ساز جاناں کی یادوں کو سمیٹنے اور کاغذ پر منتقل کرنے بیٹھا ہوں تو اس کی خوش گفتار،خوش لباس اور خوش اخلاق شخصیت میرے سامنے آکھڑی ہوئی ہے،اُس سے کئی کئی برس گزر جاتے تھے اور ملاقات نہیں ہوتی تھی،مگر جب وہ ملتا تھا تو بہت ٹوٹ کرملتا تھا،انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ اچھا ہونا چاہیے،اس لیے نہیں کہ خدا یا مذہب نے ایسا کہا ہے،بلکہ اس لیے کہ دونوں انسان ہیں،اس نے ایک بار ایمسٹر ڈیم میں بحث کے دوران مجھے کہا۔۔مصنف کا کام دنیا بدلنا نہیں،سمجھنا ہے،ادب انقلاب برپا نہیں کرتا،انسانی فکر کو بدلتا ہے،اور انہین انقلاب کے تئیں بیدار کرتا ہے،اس لیے ادب جاندار بھی ہے،میرے حساب سے شاعری اگر فنکار کی ذات کا اعلانیہ ہا بیانیہ ہے تو اس ذات کا کمٹمنٹ ہر لحاظ سے زندگی سے ہوتا ہے۔زندگی کے ذریعے اس کے احاطے میں پوری دنیا سمٹ آتی ہے،لہذا شاعر اگر خودکو لکھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے وسیلے سے دنیا کو لکھ رہا ہے۔اور دنیا اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس کی انتہا ہمیں نہیں معلوم،اور اگر معلوم ہے تو بس اتنا کہ اسے دیکھتے دیکھتے سانسوں کی طناب ٹوٹ جاتی ہے۔
فراز کا عہدِ شاعری مسلسل شکست و ریخت سے دوچار رہا ہے۔مملکتِ خداداد میں انسانیت ایک طرف پامال ہورہی ہے،دوسری جانب فرد سارے معاشرے میں یکہ و تنہا ہوتا چلا جارہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ،فراز کی غزلوں میں حسن و جمال اور غم ِ جاناں کے علاوہ زلف و کاکُل اور لب و رخسار کے ذکر کے بجائے انسانی رشتوں کی ناپائیداری،اپنوں کی بے گانگی،اخلاص و محبت کی پامالی،جمہور کی حق تلفی،کینہ و حسد کی فراوانی،بغض و عداوت کی ارزانی کے حقائق زیادہ پیش ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس طرح اس کی شاعری اس کے دور کی آواز بن گئی ہے۔۔۔یہاں مجھے کہنے میں کوئی باک نہیں کہ۔ اس کے کلام میں موسیقیت اور نغمگی بھی بھرپور رہی ہے،اس کے ڈکشن میں یہ بات بھی خاص طور پرمحسوس کی جاتی ہے،کہ اس کی غزلوں میں ثقیل اور گرانبار الفاظ کہیں نہیں ملتے،حالانکہ اس کی فارسی ادب پر مکمل دسترس تھی،اسے اپنے اظہارِ خیال اور اندازِ بیان پر مکمل قدرت حاصل تھی،اس کے موضوعات میں دنیا کو پُر امن دیکھنے اور اس پُر انتشارعہد میں گمشدہ انسان کو دریافت کرنے کا ایک واضح تصور بھی تھا۔
ہم سب کو الوداع کہنے سے دو ایک ماہ قبل میری اس سے دہلی میں ملاقات ہوئی اُس کے بعد جتنے دن وہ دہلی میں رہا،ہم روز ملتے رہے،خصوصاً رات کا ملنا تو بے حد ضروری ٹھہرا۔۔۔ایسی شامیں شاید میری زندگی میں پھر نہ آسکیں۔میں نے دیکھا وہ سب سے دوستیاں پالتا تھا،حالانکہ ان میں اور اُس پر مرنے کے بعد کالم لکھنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں،جن میں نفاق کی تمام علامتیں پائی جاتی ہیں،جو الہامی کتابوں میں بتائی گئی ہیں۔چڑھتے سورج کے پجاری،موقع پرستوں اور منافقوں سے بھی اس کے تعلقات رہے لیکن ان کے پسینے کے چھینٹے اپنے بیداغ لباس پرنہ پڑنے دیے۔۔
یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔۔
ایک رات ایمسٹر ڈیم میں میرے گھر پر ابھی ہم نے گلاسوں کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ وہ موڈ میں آگیا،
کہنے لگا۔۔ایک بات بتاؤ،میری کون سی بات تمہیں اچھی نہیں لگتی۔۔؟
میں نے کہا:موقع پرستوں اور مقصد حاصل کرنے کے لیے چاپلوسی اور خوشامد کرنے والوں کی پذیرائی،آ پ کے حلقے میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں۔۔۔
یہ سُن کر اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا،مگر چُپ رہا۔۔۔
ہنوز زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔غالب نے موت کو ابنِ آدم کی میراث کہا ہے،فراز کو بھی یہ میراث حاصل ہوئی،لیکن نظریے اور عقیدے اس بات پر مُصر ہیں کہ انہیں صرف مانا جائے جبکہ ادب کا مطالعہ کرنے کیلئے اسے جاننا،سمجھنا اور محسوس کرنا بنیادی تقاضے ہیں،منزلِ ادب سلیقے کی منزل ہے۔ہم نے جو دیکھا سمجھا،بھوگا اور محسوس کیا،اسے کتنی کامیابی کے ساتھ دنیا تک پہنچایاہے؟۔۔۔فراز نے یہی فعل کردکھایا ہے۔وہ زندہ تھا،۔۔تو بھی زندہ تھا،جب کومے میں تھا،تب بھی زندہ تھا۔۔اور اب ہماری نظروں سے اوجھل ہے تو بھی زندہ ہے۔۔فراز کی شاعری اور زندگی لازم و ملزوم ہے،اس کا ادب انسان کو زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتا ہے،شاعری و ادب زندگی کا آئینہ ہے،اگر زندگی کی تمام تر اچھائیوں،برائیوں،تہذیبی و معاشرتی و سیاسی کشاکش اور ہم آہنگی کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے تو اسے صرف ادب و شاعری کے ذریعیہی دیکھا جاسکتا ہے،سو یہی فرازکی شاعری نے کیا۔۔۔آج دل سے ایک ہی آواز آرہی ہے کہ وہ ایک مثالی شخص اور زمانہ ساز شاعر تھا،وہ نہ صرف یاد آتا رہے گا،بلکہ فیض کے ساتھ رہ رہ کر یہ کہنے پر مجبور کرتا رہے گا۔۔۔۔
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا،وہ گنہگار چلے گئے۔۔۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply