تبدیلی کا خواب۔۔۔مرزا مدثر نواز

افتخار اقبال موجودہ بر سر اقتدار سیاسی جماعت کا انتہائی جذباتی اور اس کے ہر جائز و ناجائز‘ سیاہ و سفید‘ درست و غلط اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا کارکن ہے‘ جس نے 2018کے الیکشن میں تبدیلی کے نعرے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا‘ مقامی سطح پر جماعت کی کارنر میٹنگز اور جلسے جلوسوں میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی‘ پو لنگ سٹیشن پر خدمات سر انجام دیں‘ اپنے حلقہء احباب کے ساتھ انتہائی تلخی کو پہنچنے والے مباحثوں کا حصہ بنا‘ دل میں پیدا ہونے والے اس خیال کو مزید تقویت بخشی کہ فلاں جماعت کے برسر اقتدار آتے ہی مملکت خداداد پاکستان میں دودھ و شہد کی نہریں جاری ہو جائیں گی‘ کرپٹ عناصر کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا‘ بنیادی سہولیات عوام الناس سے صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہوں گی‘ خوشحالی کا دور دورہ ہو گا اور کوئی زکوٰۃ لینے والا اس ملک میں باقی نہیں رہے گا‘ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں ہو گی‘ ادارے مضبوط ہوں گے اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے اس ملک کو عظیم تر بنائیں گے‘ پولیس اور عوام کا رشتہ مثالی ہو گا‘ ماورائے عدالت قتل قصہ پارینہ ہوں گے‘ مجرم جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا‘ رات کو بھی خواتین بلا و  خوف و خطر سڑکوں پر گھومتی نظر آئیں گی‘ شیر و بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے‘ میرٹ کی خلاف ورزی جیسے الفاظ سے کوئی بھی واقف نہیں ہو گا‘ ڈالر و پاکستانی کرنسی برابر ہو جائے گی‘ پاکستان غریب و ترقی پذیر ممالک کو قرض و مدد دینے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا‘ سب سے زیادہ محب وطن حکومتی ملازمین و بدتمیز‘ نیچ‘ قابل نفرت سویلین و سائلین‘ جاگیردارومزارع‘ صنعت کار و مزدور‘ وڈیرہ و کاما‘ سرمایہ دار و فقیر‘ برہمن و شودر‘ بڑا و چھوٹا‘ اعلیٰ و ادنیٰ‘ کا فرق مٹ جائے گا اور قانون کی صرف ایک آنکھ ہو گی۔۔

وہ اپنے ذہن میں انہی خیالات کو پالتا اور خوش ہوتا رہتا۔ الیکشن کے دن وہ کافی مطمئن و خوش نظر آیا‘ ٹیلی وژن سکرین پر اپنی پسندیدہ جماعت کی ممکنہ جیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے آفس سے گھر کا فون نمبر ملایا‘ اس کے بیٹے نے فون اٹھایا تو اسے خوشی خوشی اور جذبات سے بھر پور لہجے میں مخاطب کر کے کہا کہ بیٹا تم سب کو بہت بہت مبارک ہو کہ آج سے تمہارا مستقبل محفوظ و تابناک ہو گیا ہے‘ اب مجھے تمہارے مستقبل کے بارے میں کوئی فکر نہیں رہی‘ ملکی باگ دوڑ انتہائی دیانت دار‘ لائق و ایماندار طبقہ کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ یہ الفاظ سننے کی دیر تھی کہ آفس میں موجود تمام رفیق کاروں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔

افتخار اور  مجھ جیسے کئی لوگوں نے تبدیلی کے بڑے بڑے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے۔ بچپن سے صرف دو ہی جماعتوں کو سیاسی میدان میں ایکدوسرے کے مقابل دیکھا‘ لوگوں کے ذہن میں مسلم لیگ کا تصور دائیں بازو کی حامل سیاسی جماعت جبکہ پی پی پی کا تصور بائیں بازو اور سیکولر ذہنیت کی حامل سیاسی جماعت کا تھا‘ پی پی پی کو لوگ کرپٹ اور مسلم لیگ کو ایماندار و محب وطن سمجھتے تھے۔ زمانہ طالبعلمی میں خلافت و ملوکیت‘ جمہوریت و ملوکیت‘ جیسے الفاظ سے شناسائی ہوئی‘ اس کے ساتھ ہی آمریت‘ طالع آزما‘ کٹھ پتلی جیسے الفاظ کانوں میں پڑے‘ درآمد شدہ وزیر اعظم کا دور بھی دیکھا اور ان لوگوں کا بھی جو کہتے تھے کہ ہم فلاں کو دس بار باوردی صدر منتخب کروائیں گے۔ آہستہ آہستہ ذہن میں یہ تصور پنپنے لگا کہ یہ کیسی جمہوریت و جمہوری جماعتیں ہیں جن میں ایک ممبر پارلیمنٹ کی اپنی ذاتی رائے کوئی معانی نہیں رکھتی‘ سیاسی و مذہبی جماعتیں بدترین ملوکیت کا شکار ہیں جو شخصی‘ گھرانہ یا خاندانی تسلط کے زیر اثر ہیں‘ ساری زندگی اپنی جماعت کی خاطر ماریں کھانے والا‘ خدمت کرنے والا‘ نعرے لگانے ولا‘ انٹرا الیکشن لڑ کر کیوں جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا؟ وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ‘ اپوزیشن لیڈر یا کسی بھی بڑے عہدے پر براجمان ہونے والے کا تعلق ایک ہی یا مخصوص خاندان سے کیوں ہوتا ہے؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر ایک سفید بالوں والا پارٹی کا پرانا و بزرگ کارکن اپنے سے انتہائی کم عمر شاہی خاندان کی شہزادی کی سواری کا دروازہ کھولنے پر مجبور ہوتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ ٹاک شوز میں زیادہ تر جمہوریت اور اس کے فوائد کے علاوہ آمریت و اس کے نقصانات پر اپنی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ میری جماعت مکمل جمہوری ہو گی‘ میرے خاندان کا اس پر قبضہ نہیں ہو گا‘ ہر ایک کی رائے کا احترام کیا جائے گا‘ نوجوانوں کی نمائندہ ہو گی‘ انٹرا الیکشن منصفانہ ہوں گے اور کسی بھی باصلاحیت کے لیے نیچے سے اوپر آنا بہت آسان ہو گا وغیرہ وغیرہ۔نوجوانوں کے دل میں نئی امنگ پیدا ہوئی اور عوام نے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اس جماعت کا ساتھ دینا شروع کر دیا‘ لہٰذا بائیس سال کی جدوجہد کے بعد یہ جماعت برسر اقتدار آئی تو عوام کی اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔تبدیلی دنوں میں نہیں آ سکتی لہٰذا حکومت کو وقت ملنا چاہیے لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود کسی بھی شعبے میں خاطر خواہ بہتری نہیں آئی حتیٰ کہ سال پورا ہونے پر کوئی حکومتی نمائندہ اپنی حکومت کی کارکردگی پیش کرنے کے لیے موجود نہیں تھا۔ آج ڈالر بے قابو ہے‘ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے بارے میں ہر ماہ کے آخر پر دل کو ایک دھچکا لگا رہتا ہے‘ نئی صنعتوں کے آنے کا دور تک کوئی امکان نہیں‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے‘ ایک بھی میگا پراجیکٹ شروع یا مکمل نہیں ہو سکا‘ بیرونی قرضے کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں‘ ڈیموں کی تعمیر پر مچنے والا شور تھم چکا ہے‘ اس سب کے باوجود کسی کونے سے آواز آتی ہے کہ انشا ء اللہ کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی لیکن جب موجودہ حکمرانی کا طریقہ کار اور جمہوریت و حکومت کے بارے میں خان صاحب کے پرانے ویڈیو کلپس میں ان کے نظریات و ارشادات کا موازنہ کیا جاتا ہے تو پھر کہیں سے آواز آنے لگتی ہے کہ شاید ایک بار پھر اس جذباتی قوم کو تبدیلی کے نام پر بے وقوف تو نہیں بنایا گیا؟ خیر اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply