میں , میری امی جان اور مسز خان۔۔۔رمشا تبسّم

میں نے اپنی امی جان کو مسز خان کی ویڈیو دکھائی۔سوچا کہ ان کی رائے  جانوں کہ مجھے مستقبل میں ایک ایسی بیوی بننا ہے جو شوہر کو گرم روٹی نہ بنا کر دے،جو ماں باپ کے گھر میں تو سارے کام کرے مگر سسرال میں نواب بن جائے اور کسی کا کام کرنا تو دور بلکہ شوہر کی ذمہ داری اٹھانے میں بھی ناکام ہو جائے۔
مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ  مجھے شوہر کی محبت میں اسکی ذمہ داری اٹھانی ہے یا خود کو نوکرانی تصور کر کے ایک مجبوری کا رونا رو کر یہ ذمہ داری نبھانی ہے؟۔ماں سے بڑھ کر کوئی ہستی اولاد کی تربیت نہیں کر سکتی۔لہذا بجائے سوشل میڈیا پر مختلف رائے دیکھ کر میں اپنا فیصلہ کرتی میں نے اپنی امی جان سے سننا اور سمجھنا مناسب سمجھا۔ ۔کہ  مجھے ایک بہتر اور ذمہ دار بیوی اور بہو بننا ہے یا ایک باغی عورت بننا ہے جس کو ایک روٹی بناتے وقت بھی نوکرانی جیسا محسوس ہو اور جو ماں باپ کے کام کرتے وقت تو خوش رہتی ہو مگرسسرال کی ذمہ داری اٹھاتے وقت لڑتی ہو۔

امی جان نے ویڈیو دیکھی اور کہا۔۔۔۔
” اس خاتون نے جو باتیں کیں وہ ٹھیک تھیں۔ لہجہ البتہ غلط تھا،اس خاتون کا لہجہ اشارہ کرتا ہے کہ  ایک عورت بس اپنا وجود ختم کر کے مکمل نوکرانی بن جائے۔جبکہ  انکی باتوں کا مقصد صرف اتنا تھا عورت ایک ذمہ دار بیوی اور بہو بن جائے بلکہ ایک ذمہ دار ہستی بن جائے جو ایک گھر کو مکمل اور بہتر طریقے سے چلا سکے۔اور اسی وقت وہ لڑکی ثابت کرے گی کہ  وہ ایک بہتر تربیت حاصل کر کے آئی ہے۔لہذا مسز خان کا لہجہ بہتر ہوتا تو یقین جانو یہ باتیں بہت اہم تھیں جو ایک کچے گھر کی چار دیواری سے لے کر محل میں رہنے والی عورت تک کو سمجھنی چاہئیں “۔

امی جان نے مزید کہا کہ “شوہر کے کام کرنا مجبوری نہیں ہوتا بلکہ محبت ہوتا ہے۔اگر ایک لڑکی کو گھر داری نہیں آتی تو واقعی اسے سکھانی چاہیے پھر شادی کرنی چاہیے۔اور اگر پھر بھی نہیں آتی یا کچھ کمی رہ جاتی ہے تو ساس کو چاہیے ایک ماں بن کر سِکھا لے اور لڑکی کو چاہیے بہو کی بجائے بیٹی بن کر سیکھ لے۔ہاں اکثر حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں بہو ظلم سہتی ہے جوتی کے برابر حیثیت دی جاتی ہے اور اسی طرح اکثر بہو بھی سسرال والوں کی ناک میں دم کر دیتی ہے لہذا یہ حادثات اور برے تجربات ہوتے ہیں ان سے نظر نہیں چرائی جا سکتی۔مگر مسز خان نے عام حالات میں ایک خاص بات کی طرف توجہ دلائی، مگر ذرا غلط لہجے میں ورنہ انکی بات بالکل ٹھیک تھی”۔

میں نے جب دریافت کیا کہ  شوہر کے جوتے رکھنا ,اسکو گرم روٹی بنا کر دینا, اسکے کپڑے ترتیب سے رکھنا ,اسکی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھنا ,حتی کہ شوہر کے بہن, بھائیوں, ماں, باپ اور رشتوں کا لحاظ رکھنا اور خیال رکھنا انکے کام کرنا کیا یہ سب بیوی کرے تو وہ نوکرانی بن جائے گی؟

تو امی جان نے کہا  “بالکل نہیں! یہ محبت ہے۔یہی شادی ہوتی ہے اور یہی رشتوں سے محبت ہے۔جیسے آپ گھر میں سب سے عزت سے پیش آتی ہو ،اپنی بات  منوانا جانتی ہو , سب کے کام بھی کرتی ہو, آدھی رات کو بھی روٹی بنانی پڑتی ہے تو بناتی ہو , سب کام خوشی سے کر لیتی ہو ۔۔ اور یہی کام سسرال  میں کرو تو نوکرانی کیسے ہو گئی؟”

“پھر بیٹا شوہر تو اس سے الگ قسم کی انسیت ہوتی ہے جب شوہر کو کوئی چیز پسند ہو تو بیوی اس  کام کو محبت میں کرتی ہے۔جب شوہر کو کچھ نا پسند ہو تو بیوی اس کام کو نہیں کرتی”۔

“تو پھر امی یہ تو غلامی ہوئی ناں  کہ  آپ کو اپنے شوہر کی مرضی سے چلنا پڑتا اگر اس کو پسند نہیں تو بس وہ کام نہ کرو؟”

“نہیں ۔غلامی نہیں محبت اور رشتے کا احترام۔تمہیں معلوم ہو کوئی کام تمہارے پاپا کو نا پسند ہے۔یا تمہارے بھائی کو نا پسند تو تم کیا کرو گی؟”
“میں کوشش کرو گی کہ  وہ راضی ہو جائیں اور اگر راضی نہ ہوئے تو یقیناً میں وہی کرونگی جو انکی خوشی کیونکہ وہ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور محبت کرتے ہیں”۔
“تو بس بیٹا شوہر بھی محبت کرتا ہے اسکو بھی محبت سے منایا جا سکتا ہے اور مان لو وہ نہ مانے تو تم جو بیٹی اور بہن بن کر اپنے باپ اور بھائی کی خوشی کا خیال رکھ سکتی ہو وہی شوہر کا بھی رکھ لینا۔اسکی بھی بات مان لینا”۔

“تو امی جان اگر شوہر محبت نہ کرتا ہو تو؟پھر میں کیوں اسکی بات مانوں یا اسکی بات کی خاطر اپنی بات سے دستبردار ہو جاؤں”؟

“ہاں۔یہ ایک اہم بات ہے۔ اگر شوہر محبت نہ کرتا ہو۔بیوی کی تذلیل کرتا ہو۔اس کو بات بات پر بے عزت کرتا ہو تو یقیناً یہ انتہائی غلط حرکت ہے اورایسے میں عورت کو اپنا وجود نوکر ہی لگتا ہے۔مگر جب شادی ہوتی ہے تو لازمی بات ہے دو انجان لوگ ایک رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ہو سکتا ہے شوہر کو بیوی سے محبت نہ ہو یا بیوی کو شوہر سے نہ ہو تو دونوں صورتوں میں وہ ایک دوسرے کی تذلیل ہی کریں گے۔ایسے میں ایک رفیق کو چاہیے کہ  اپنی توجہ, محبت, عاجزی سے دوسرے کا دل جیتنے کی کوشش کرے۔مشکل ہوتی ہے اکثر اپنا جی مارنا پڑتا ہے بہت باتوں پر برداشت کرنا پڑنا ہے۔مگر یقیناً محبت کی صورت نکل ہی آتی ہے۔مرد عورت سے محبت کیے  بغیر رہ  نہیں سکتا ہاں البتہ عورت اگر چاہے تو سرکش مرد کو اپنی محبت سے اُسے بھی محبت میں گرفتار کر سکتی ہے ۔مگر پھر بھی اگر ایسا نہیں ہوتا اور بے جا ظلم و ستم ہوتا رہے, تذلیل ہوتی رہے ,مار پیٹ ہوتی رہے تو گھر والوں سے بات کرنی چاہیے اور اسلام علیحدگی کا اختیار بھی دیتا ہے۔مگر یہ عام حالات میں نہیں ہوتا۔ ظلم و ستم ہوتا ہے مگر یہ حادثات ہوتے ہیں۔عام صورتوں میں اگر مرد لڑ رہا ہو تو عورت کو چاہیے  زبان درازی نہ کرے اور اگر عورت غصے میں ہو تو مرد کو چاہیے، چپ ہو جائے اور بعد میں معاملہ طے کر لیں ناکہ  فوراً دونوں فریق لڑ پڑیں۔رشتے بہت قیمتی ہوتے ہیں رنجشیں ہو جاتی  ہیں برداشت کرنا پڑتا ہے۔سب کچھ پھر ہماری مرضی سے تو نہیں نہ ہوتا آزمائشیں بھی ہوتیں ہیں”۔

مگر امی جان مسز خان کی بات بھی تو ٹھیک نہیں تھی ناں  کہ  عورت  زبان بند کرے، اپنے شوہر کے آگے بولے مت۔اب اگر بیوی اپنے مؤقف پر ٹھیک ہے تو پھر بھی وہ چپ رہے آخر کیوں؟ کیا عورت کو حق نہیں اپنی بات کہے؟

“نہیں بیٹا۔کون کہہ رہا چپ رہو۔مگر بچے صحیح بات غلط موقع پر غلط لہجے میں کی جائے تو وہ بھی غلط ہو جاتی ہے۔مگر شوہر کا ایک رتبہ ہے مقام ہے اب اگر آپ اس کی ذات کی تذلیل کرو مسلسل اس کے آگے بولو تو وہ برداشت نہیں کرتا مگر یہی بات محبت سے اچھے لہجے میں اور سکون سے کی جائے تو مرد لازمی سنتا ہے سمجھتا ہے اور مانتا بھی ہے۔مگر ضد کا جواب ضد نہیں ہوتا, نفرت کا جواب نفرت نہیں ہوتا, تدلیل کا جواب تذلیل نہیں, ہوتا اور اونچی آواز کا جواب اونچی آواز اور بد زبانی نہیں ہوتا۔لہذا موقع کی مناسبت سے بات کرنے کا سلیقہ آنا بھی ہنر ہوتا ہے اور یہ ایک آرٹ ہے جو سب کو نہیں آ سکتی بس مخصوص پیاری لڑکیوں کو ہی آتی ہے۔

“تو پھر میں تو بہت پیاری لڑکی ہوں ناں؟”

“جی اگر فی الحال تم اس وقت اٹھ کر روٹی بنا دو تو”

“لو جی اب بھی میں ہی روٹی بناؤں ۔یہاں بھی اور شادی کر کے جا کر بھی میں ہی بناؤں۔ یہ اچھا ہے آپ کا نوکر ہوں  نا میں بس۔”

“اٹھاؤں جوتا”

Advertisements
julia rana solicitors

اس کے آگے کچن سے جلی روٹی کی خوشبو کے ساتھ ہی فضاؤں میں گھومتی ہوئی فلائنگ چپل دیکھ کر مورخ چُھپ گیا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میں , میری امی جان اور مسز خان۔۔۔رمشا تبسّم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم !
    بہترین تحریر۔۔۔ نہایت نفیس انداز بیاں ۔۔۔آپ نے اس مکالمے میں میاں بیوی کے رشتے کی خوبصورتی کو بہت سادگی سے واضح کیا ہے ۔۔۔۔ دو بول جہاں دو اجنبیوں کو ایک رشتے میں پروتے ہیں وہیں۔۔۔ دونوں کے درمیاں محبت کو بھی جنم دیتے ہیں،۔۔۔ جس کا احساس لمحہ بہ لمحہ ہوتا ہے ۔۔ یہ محبت ہی ہے جو میاں بیوی کو اک دوسرے کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔۔۔۔ اک دوسرے کے لیے چھوٹے چھوٹے کام کرنے میں خوشی کا احساس پیدا کر دیتی ہے ۔۔۔ یہ سب سے پہلا رشتہ ہے جو آدم اور حوا کی صورت وجود میں آیا۔۔۔۔۔ قباحت اس رشتے میں نہیں ۔۔۔۔۔ قباحت دماغی فتور میں ہے جو نہ صرف رشتہ ازدواج بلکہ ہر رشتے کے زوال کا باعث ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ رب کائنات ۔۔ ہر رشتے کو ان قباحتوں سے محفوظ رکھے آمین۔۔۔۔
    ؓمیں خوشی

Leave a Reply to Uzma A G Cancel reply