اور ایک برس بیت گیا۔۔۔۔ملیحہ ہاشمی

ابا کی نوکری تبدیل ہوئی اور ساتھ ہی ہجرت کا حکم صادر ہوا ۔ شہر کیا بدلا، مانو ہماری تو دنیا ہی بدل گئی۔ وہی نیلا آسمان تھا اور اس کے نیچے بستے ویسے ہی لوگ لیکن نہ توآسمان کی رنگت ویسی ہی نیلی دکھائی دیتی تھی نہ ہی لوگ۔ صبح آنکھ کھلتی تو دن گزارنے اور وقت کاٹنے کے نام سے ہول پڑتے۔ یہ اس زمانے کا تذکرہ ہے جب گھروں میں چھت والے اینٹنے ہوتے تھے اور ان کے استعمال میں کوئی شرم نہ تھی۔ خیر کوئی ان انٹینوں کے استعمال میں شرمائے یا گھبرائے، ہمیں کیا، ہمارے گھر تو خیر سے ٹی وی ہی نہیں چلتا تھا۔ ایک دن ابا نے یونہی بیٹھے بٹھائے حکم صادر کیا تھا کہ اب گھر میں ٹی وی نہیں چلے گا، اس کے بعد مجال ہے کہ کبھی امی نے بھولے سے بھی ٹی وی کو ہاتھ لگایا ہو۔ ابا کا خیال تھا کہ ٹی وی  بچوں کی پڑھائی میں خلل  کا سبب بنتا تھا لیکن ہم سے زیادہ اس پابندی کو امی نے فراخدلی سے قبول کیا اور یوں انکے جہیز کا ٹی وی ایک دن ابا کے دوست کے ہاتھ مفت میں لگ گیا۔

خیر جب شہر بدلا تو سکول میں داخلے تک وقت کاٹنے کیلئے کسی مشغلے کو اپنانے کیلئے ہاتھ پیر چلانا شروع کیے  اور یوں اخبار سے تعارف ہوا۔ خبریں، تجزیئے اور تبصرے تو سر کے اوپرسے گزرتے تھے، البتہ اپنی دلچسپی کا واحد سامان اخبار میں چھپنے والے اشتہارات تھے۔ سینما میں زیر نمائش فلموں  سے لے کے ضرورت رشتہ تک ہر قسم کے اشتہارات ہماری توجہ کا مرکز تھے۔ ان اشتہارات کو ہم بہنیں پڑھتے اور تبصرے کرتے۔ چنیوٹ شیخ برادری میں اتنی اموات کیوں ہوتی ہیں اور جب ضرورت رشتہ کے اشتہار میں پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ کا لفظ لکھ دیتے ہیں تو پھر ڈاکٹر انجینئر جیسے اضافی لفظ کیوں تحریر کیے جاتے ہیں، ہم بہنوں کی گفتگو کا خاص موضوع ہوتا تھا۔ ان ہی میں سے ایک اشتہار ایسا بھی تھا جو اپنے منفرد مضمون کی وجہ سے یکدم دل کو اداس کر گیا۔ یہ، فورسز میں شامل کسی شہید کی بیوہ کی جانب سے تھا جس میں یہ یقین دہانی کروائی گئی  تھی کہ آپ کو ہم سے جدا ہوئے اتنے برس بیت گئے لیکن اس عرصے کے دوران ایک پل بھی ایسا نہیں آیا جب آپ کی یاد سے ہم غافل ہوئے ہوں۔

دن بدلتے گئے۔ خبریں تجزیوں اور تجزیئے تبصروں میں بدلتے رہے۔ شہہ سرخیاں، آخری صفحے کی خبر بنتیں اور پھر اندرونی صفحوں میں کہیں گم ہوجاتیں۔ لیکن یہ اشتہار معمول کی طرح ہر سال شائع ہوتا۔ مضمون میں فرق محض بیتے سالوں کی تعداد کا ہوتا تھا۔ ہم اشتہار دیکھتے، دوسروں کو دکھاتے  اور پھر تبصرہ ہوتا کہ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو گزرے دنیا سے اتنے برس بیت جائیں اور اس کے گھر والے اس کو بھول نہ پائیں۔ ” اچھا تو کیا وہ کسی کی شادی میں جاتے ہوں گے تو بھی اسکو یاد کرتے ہوں گے؟، تو جب کوئی مہمان انکے گھر آتا ہو گا یا جب وہ کہیں اپنی پسند کی آئس کریم کھاتے ہوں گے تو بھی انکو یاد کرتے ہوں گے” ہم بہنیں ایک دوسرے کے سامنے یہ تبصرے نما سوال رکھتیں۔

ایک دفعہ امی سے بات ہورہی تھی تو ان کے پپا کا ذکر چھڑ گیا۔ امو بتانے لگیں کہ کیسے وہ لوگ جب  پپا کے انتقال کے بعد سکول گئیں تو جوجو ( چھوٹی خالہ) کو بخار تھا جس پر پرنسپل نے امو اور جوجو کو سائنس لیب میں بٹھا دیا تھا۔ کمسنی میں باپ کو کھو دینا، یتیمی کے احساس کے ساتھ  سکول کا پہلا دن، اساتذہ کی ترس بھری نگاہوں کا سامنا، کیا ہوا، کیسے ہوا جیسے سوالات کا جواب دینا، اپنے اور چھوٹی بہن کے آنسو پونچھنا یہ سب امو کیلئے بے حد تکلیف دہ تھا اور اس روز کی تکلیف امو کو کئی برس گزرنے کے بعد بھی یاد تھی، بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہوئیں تو میں بھی رو پڑی۔ پہلی بار امو، ماں کے بجائے ایک بچہ محسوس ہوئیں جو کمسنی میں باپ کو کھو دینے پر آج بھی غمزدہ تھا۔ لیکن سچ کہوں تو حیرت بھی ہوئی تھی کہ بھلا بڑے ہونے، شادی شدہ ہونے کے بعد بھی ماں باپ کی یاد آسکتی ہے کیا؟

وقت گزرتا گیا، دادی گئیں پھر مدیحہ بھی چلی گئی یوں ہم سات سے پانچ لوگ بچے۔ پھر میری بھی شادی ہوگئی۔ نیا گھر بسا ،نئی مصروفیات شروع ہوئیں لیکن ہر عورت کی طرح میکے آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ کبھی میں خوشی خوشی جاتی تو کبھی اس غصے کے ساتھ کہ امو کو بالکل احساس نہیں کہ میں ہر وقت آنا جانا نہیں کرسکتی ۔ اسی دوران برس بیتتے گئے۔ پھر ایک دن میاں کی نوکری تبدیل ہوئی اور ساتھ ہی ہجرت کا حکم صادر ہوا۔ گزشتہ ہجرت جتنے بوجھل دل کے ساتھ ہوئی تھی، اس بار دل اسی قدر ہلکا پھلکا تھا۔ مشورے ملے کہ شوہر کے ساتھ جانے کے بجائے ماں باپ کے پاس رہ جاؤ۔ لیکن یہ مشورہ زیادہ دل کو نہ بھایا ،سو اِسے رَد کردیا گیا۔

امو بیمار تھیں، میں جانتی تھی لیکن یہ تو وہی بیماری تھی جو تین برس پہلے بھی ہوئی تھی۔ تب بھی ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا اور کہا تھا کہ بچ گئیں تو معجزہ ہوگا۔ لیکن امو ٹھیک ہوگئیں۔ کیسے نہ ٹھیک ہوتیں، نانی کہلانے کی چاہ نے انہیں بستر سے کھڑا کردیا۔ پھر ایک دن امو کا فون آیا ” تم کب آؤ گی؟” میں نے کہا امو میری یونیورسٹی چل رہی ہے، کلاسز کے بعد آؤں گی۔ جواب آیا۔ ” جلدی آجاؤ، میں ایک ایک دن گِن گِن کے گزار رہی ہوں”۔ اور مجھے پھر غصہ آنے لگا کہ اب تو شہروں کی دوری ہے اور پھر میری پڑھائی، میں کیسے آسکتی ہوں لیکن امو تو سمجھتی ہی نہیں۔ اپیہ سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ  امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے ایک بار پھر یہی سوچا کہ اپیہ کو تو بات بڑھا چڑھا کے بیان کرنے کی عادت ہے۔ مجھے بلانے کیلئے بول رہی ہے لیکن پھر دل نہ مانا تو میں لاہور چلی آئی۔ جب گھر آئی تو امو بستر پر آنکھیں موندے لیٹیں تھیں۔ اپیہ نے بولا ” امی دیکھیں کون آیا، آپ کو سرپرائز ملا نا؟” اور امو کے جواب نے مجھے حیران کردیا اور کسی حد تک شرمندہ بھی۔ امو نے کہا ” مجھے معلوم تھا یہ آئے گی”۔

رات گئے ان کی طبیعت بگڑنے پر جب ہسپتال لے کے گئے تو ڈاکٹروں نے صاف صاف بتادیا کہ ہم اپنی سی کوشش ضرور کریں گے لیکن آپ لوگ ذہنی طور پر تیار رہیں۔ میں نے سوچا چلو جی تین سال پہلے والے ڈاکٹرز کے ڈرامے پھر شروع۔ امو بھی اگلی صبح آنکھیں کھول کے پٹر پٹر باتیں کرنا  شروع ہوگئیں اور میں دل ہی دل میں واپسی کا پروگرام بنانے لگی کہ بہت منتوں مرادوں کے بعد مجھے ایم فل میں داخلہ ملا تھا اور پڑھائی کا بھوت سر پر سوار تھا۔ ویسے بھی امو کون سا اب بیمار تھیں۔اچھی بھلی تو تھیں۔ اپیہ نے کہا کہ آؤ امو کے ساتھ سیلفی لیں تو میں نے بول دیا کہ آکسیجن ماسک کے ساتھ کون سیلفی لیتا ہے، کیوں امو؟ تو امو نے بھی میری ہاں میں ہاں ملا دی۔ طے پایا کہ اب گھر جا کے سیلفی لی جائے گی لیکن وہ گھر آئیں تو اس حالت میں کہ سیلفی لینے کا کسے ہوش رہا تھا۔ چند دن بعد میں واپس اپنے شہر آگئی۔

ویسے ہی طویل اذیت بھرے دن ہیں اور انہیں کاٹنے کیلئے کسی مشغلے کو اپنانے کی اسی قدر بیقراری۔ اب اخبار تو نہیں پڑھتی لیکن اس میں شائع ہونے والے اشتہار کا مضمون میرے دل پر اب بھی نقش ہے جسے میں جب چاہوں دوہرا سکتی ہوں۔ امو آپ کو بچھڑے ایک برس بیت گیا، اس عرصے کے دوران کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم آپ کی یاد سے غافل ہوئے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ہاں کوئی کیسے  ہجوم میں بھی تنہائی محسوس کرتا ہے۔ پسندیدہ آئس کریم کھاتے یا پھر شاپنگ کرتے ہوئے کسی کو یاد کرتا ہے یا پھربرسوں بعد بھی یتیمی کا احساس کیوں رُلاڈالتا ہے، مجھے ان سب سوالوں کا جواب مل چکا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply