اک شرر دل میں ہے، اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
ستیہ پال آنند
ٓآتش و باد میں مطلوب فقط آتش تھی
اور وہ دل میں ہے موجود شرر کی صورت
اس سے گھبرانا بھلا کیا ہے ضروری ، صاحب ۔۔۔۔
مرزا غالب
اے عزیزی، جو مری قطع کلامی ہو معاف
میں نے بس اتنا کہا ہے کہ یہ ہے صرفہ جسم۔۔۔
ستیہ پال آنند
میری بھی قطع کلامی ہو معاف، اے استاد
اتنا کچھ کہہ کے بھی آپ سرخرو نہ ہوئے
سانس کی آمد و شُد ہی تو ہے آتش کا سبب
یہ حرارت وہ غریزی ہے کہ ہے باد نما
باد ہی باد ہے اور آگ ہی آگ ، اے آقا
مرزا غالب
ایک شعریہ قضیہ ہی تھا جو نظم کیا
سانس؟ ہاں، آگ کا اور باد کا اجماع ، جسے
جسم میں دوڑتے پھرنے کا سبب کہتے ہیں
نا روا کیا تھا بھلا اس میں، اے نا اہل عزیز؟
ستیہ پال آنند
ایک ’’شعریہ قضیہ ‘‘ ہے، فقط شعر نہیں
اور ’’قضّیے‘‘ سی یہ تلخیص قضیّہ ہی تو ہے
رائے قاطع کی طرح اپنا بیاں کاٹتا ہے
مرزا غالب
پھر سے کہنا تو ذرا، اے میاں کوتاہ نظر
’’رائے قاطع کی طرح اپنا بیاں کاٹتا ہے‘‘
یہ نہیں سمجھا کہ ہے اہم بقا کی خاطر
اشتعال اور ہوا میں کمی بیشی کا اصول
یہ نہیں سمجھا کہ یہی ضابطہ ہے جس کے طفیل
جان کی جسم سے تحصیل پر ہے زیست مقیم
رائے قاطع ہے کہاں؟ رائے کا ایجاب ہے یہ
ستیہ پال آنند
آپ کے فضل کا، الطاف کا قائل ہوں، جناب
یہ کرم پیشگی میرے لیے تا عمر رہے
ملتجی ہوں میں تحمل کا، روا داری کا
ہلکی سی خندہ زنی پر تو میں ہنس سکتا ہوں
ڈانٹ برداشت نہیں ہوتی کہ ہوں نیک نہاد
مجھ کو ڈانٹا نہ کریں، میرے مرّبی، محسن
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں