کشمیر کالاوہ اور تین ایٹمی طاقتیں۔ جاویدخان

انتہا پسند چاہے مذہبی ہو یاغیر مذہبی،خطرناک ہوتاہے۔وہ ایسا رسک لے سکتا ہے جس کا اَنت خوف ناک موت ہے۔جب کسی جتھے،قوم یاملک کو ایک انتہا پسند  بطور قیادت تھمادیا جاتا ہے۔تو یہ موت صرف ایک فرد یا انتہا پسند تک نہیں رہتی۔یہ کئی قوموں اور ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔کشمیر کامسئلہ مذہبی یامحض زمینی نہیں۔یہ انسانوں کا مسئلہ ہے۔ڈیڑھ کروڑ انسان جو تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان کھڑے بے بسی سے  آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔کرّہ ارض پر بے شمار جنگوں کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔روسی کمیونزم کے خلاف مسلم ریاستوں کو بے دریغ استعمال کیا گیا۔نتیجہ۔۔۔طاقت ایک پلڑے میں آگئی۔پھر چیچنیا،بوسنیا،وسط ایشیائی ریاستیں،عراق،موغادیشو،سربیا اور شام تک آگ بھڑک اٹھی۔ایندھن بھی مسلم ریاستیں تھیں۔کشمیر میں ہونے والی قتل وغارت کے ذمہ دار برصغیر کے بڑے دماغ بھی ہیں۔جب بر صغیر کی تقسیم کی جارہی تھی تو یہ لوگ یا تو نقشوں سے ناواقف تھے۔یا انھیں آنے والے حالات کا ادرا ک نہیں تھا۔جس منصف کو انھوں نے ملک تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی،اس نے بس نقشہ سامنے بچھایا اور ایک لائن کھینچ دی۔یوں میز پر اس لائن کے ایک طرف پاکستان بن گیا اور ایک طرف ہندوستان۔کشمیر سلگنے کے لیے بیچ میں رہ گیا۔370اور A 35ختم ہونے کے بعد سری نگر تو جیل میں تبدیل ہوگیا۔مگر کرگل،لداخ اور جموں میں پہلے کچھ دن خوشیاں منائی گئیں۔پھر اچانک ڈر،خوف اور بے چینی نے جگہ لے لی ۔کشمیری نہیں چاہتے کہ ان کی زمینوں پر اجنبی لوگ آکر قابض ہو جائیں۔تقسیم برصغیر کے بعد چین کشمیر کا خاموش اور سب سے بڑا سرحدی پڑوسی ہے۔جو خاموشی سے بیٹھا حالات کا جائزہ لیتا آرہا ہے۔کشمیر کس کا ہے۔۔؟ یہ عجیب سوال ہے۔حیران کن حد تک عجیب۔دنیا بھر کے عقل مند،منصف،ہمدرداور دوست یہی سوچ رہے ہیں۔یہ سوال ایسے ہی ہے جیسے مجھ پر گن تان کر میری ہی زمین کے متعلق مجھ سے پوچھا جائے کہ بتاؤ یہ زمین کس کی ملکیت ہے۔؟زمینیں انسانوں کی ہی ہوتی ہیں۔کرہ ارض پر رہنے والے تمام شجر،حجر اور حیوانات جو اس زمین کے ماحول سے مطابقت رکھتے ہیں، اس کے باسی ہیں۔یہ ان کا وطن ہے۔زمینیں خدا او ر مذہب کی نہیں ہوتیں۔خدا نے یہ سب انسانوں کے لیے ہی بنائی ہیں۔مگر خدا اور مذہب انسانوں کو مہذب طریقے سے رہنے کا نصاب دیتے ہیں۔اگر بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر کہے کہ تمھاری زمین میری ہوئی۔تو چھوٹابھائی لاکھ باادب اور ماں جایاسہی،اسے یہ طریقہ پسند نہیں آئے گا۔اور وہ ضرور احتجاج بھی کرے گا۔بھائی کی مدد کے بجائے اس کی کنپٹی پر ریوالوررکھنا ادنی ٰ درجے کی غنڈہ گردی ہوگی۔بھائی ہر گھر میں ہے۔اور اگر ہر گھر میں غنڈہ گردی نہیں تو پھر کشمیر پر گن کیوں تنی ہوئی ہے؟انسانیت کے ناطے سے اور بھائی چارے کے ناطے سے،کشمیری بھائی جو اپنی مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ان سے مرضی کا حق کیوں چھینا جارہا ہے۔اتنی مہذب دنیا میں یہ زبردستی کیوں؟۔انکی زمین اور وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں کیوں ہیں؟بندوقوں کے پہرے کیوں ہیں؟ستر برس کرب،بارود،گولی اور لاشیوں کے سال ہیں۔370اور A35ختم کر کے کشمیر پر گنیں تان دی گئیں ہیں۔غم،غصے اور بے بسی کے عالم میں ہر کشمیری ہے یا پھر وہ سکتے کی کیفیت میں ہے۔ایک لاوہ آہستہ آہستہ کھولنے لگا ہے۔مودی سرکار نے اس کھولتے لاوے پر جو ڈھکن لگایا ہے۔یہ کب تک رہے گا۔؟لاوہ مزید بنے گا۔کھولے گااورپھر پھٹے گا۔وہ خانہ جنگی،موت سے بے خوفی،بندوق کے مقابلے میں بندوق۔انتشار، بارود، لڑنے اور پھر مرنے کی بے پناہ تمنا بنے گا۔اس سب کے سامنے کب تک روک لگے گی۔؟کیاتین ایٹمی طاقتیں اس جذباتی،اور کچے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے (کشمیر) مزید بانٹ دیں گی؟ اور پھر کسی وقت حالات سلگ اٹھیں گے؟ یا اس کے زخمی وجود کی مرہم پٹی کریں گی؟اس کے چہرے سے آنسو  پونچھیں گی۔یا پھر اپنا سارا بارود ایک دوسرے پر پھونک دیں گی؟

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply