قلندر کی ہیر۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط4

اماں میں کل شہر جا رہی ہوں ! تم نے مجھے آج تک شہر نہیں  دکھایا ناں ۔۔
اپنا وہ شٹل کاک برقعہ دھو کے رکھنا، استری میں کر لوں گی ۔گلاں کی بات سُن کے اس کی ماں کے ہاتھ سے درانتی گر پڑی ۔۔اُس نے غور سے گلاں کو دیکھا، جو مکمل گلاب بی بی لگ رہی تھی، ماں نے جھک کر درانتی تو اٹھا لی لیکن سیدھی ہوتے اس کا ایک ہاتھ کمر پہ  تھا جیسے کمر ٹوٹ گئی ہو، درانتی پکڑ کے اس نے پیش قدمی کی، پل بھر کو یوں لگا کہ وہ بیٹی کو بھی لانگی کی طرح درانتی سے کاٹ ڈالے گی۔ اسے درانتی تھما کے کہا ، ابھی تم یہ لانگی کاٹو !

رسی پہ  لٹکے بوجھک دونوں دودھیال بکریوں کے تھنوں پہ چڑھائے، چھنے میں چوکر اور دال لے کے بکریوں کی لکڑی کی کھرلی میں رکھی جسے لپک کے وہ کھانے لگیں ۔ماں نے چولہے میں آگ جلائی، کنالی میں چاول بھگوئے،اس کے چہرے پر اتھاہ اداسی چھائی تھی۔۔

یہ جمعرات کا دن تھا۔ عصر تک بکریوں کے دودھ میں کھیر پک چکی تھی،اسے مٹی کی کنالی میں ڈال کے ڈھانپ دیا۔۔جستی صندوق کھول کے برقعہ نکالا۔ اسے جھاڑ کے کاندھے پر رکھ لیا۔ بیٹی کو ساتھ لئے، کھیر اٹھائے قبرستان میں اپنے مرحوم شوہر کی قبر پر بیٹی کے ساتھ پہنچ گئیں۔ماں نے قبر کے سرہانے بیٹھ کے دعا اور درود پڑھے، اتنی دیر میں گورکن کی بیوی وہاں آئی ، ماں نے کھیر کی کنالی اسے دی کہ اسے یہاں آنے والوں میں بانٹ کے کنالی توڑ دینا۔ وہ کچھ حیران ہوئی ۔ماں بیٹی کو دیکھا اور سلام کر کے چلی گئی، اب قبرستان میں نزدیک اور کوئی نہیں  تھا۔
ماں نے گلاں کا ہاتھ پکڑ کے قبر پہ  رکھا ،ساتھ بٹھا کے قبر والے سے یوں مخاطب ہوئی ۔۔۔

مصنف:محمد خان چوہدری

تم میرے سر کے سائیں آج بھی ہو۔ آج تمہاری گلاب بانو مجھ سے یہ برقعہ مانگ رہی ہے ! جو تمہارے جانے کے بعد آج تک میری عصمت کا ضامن اور گواہ ہے۔ میں اسے یہاں یہ برقعہ دینے لائی  ہوں۔ اپنی میں آج بھی ضامن ہوں۔ لیکن اب اس کا ذمہ تمہیں سونپ رہی ہوں، بات میرے بس سے باہر ہے، میں نے بیوگی عزت سے کاٹی،عزت سے مر کے تمہارے پاس آؤں گی، اب تیرا رب جانے تو جانے اور  تیری بیٹی جانے۔۔۔
اس کی آواز ہچکیوں میں ڈوبنے لگی۔
گلاں کی بھی سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔ اس نے قبر پہ  بوسے دیئے، ماں کے پاؤں چھوئے ۔ گڑاگڑاتے  ہوئے کہا۔۔۔
اماں بس کر۔ میں بہکنے لگی تھی، تو نے مجھے بچا لیا ۔ چل اٹھ برقعہ مجھے اوڑھا میں بھی تیری طرح اس کی حفاظت کی قسم کھاتی ہوں۔

اگلی صبح ہنگامہ خیز طلوع ہوئی۔۔
سائیں غلام کے والد نے رات شدید تکلیف میں گزاری اسے سویرے چارپائی  پر غلام اور پڑوسی ہیلتھ سنٹر لائے۔۔
گلاں بھی برقعہ پہنے ماں کے ساتھ سنٹر آئی۔
ڈاکٹر نے غلام کے ابا کو انجکشن لگائے، بلال ڈسپنسر اور گلاں کی اماں نے اسے دوائی پلائی
،اور اسی چارپائی  پر برآمدے میں دیکھ بھال کے لئے رکھا۔
اسی دوران نائب صوبیدار صاحب جو پچھلی رات گاؤں پہنچے تھے ان کا ملازم بھی دوائی لینے سینٹر آیا۔۔۔یہاں سب سائیں کے ابا کے ساتھ  مصروف  تھے۔ اس نے انتظار کرنے پہ  شور مچا دیا۔ بدتمیزی کی اور گالی گلوچ پہ اُتر آیا ۔ بلال نے اسے دو تھپڑ جڑ دیئے، غلام نے بیچ بچاؤ کرایا۔ دیگر لوگ بھی چھڑانے لگے تو وہ دوائی  لئے بغیر واپس چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں نائب صاحب جیپ پہ  ملازم کو ساتھ لئے نازل ہو گئے۔۔۔
ڈاکٹر کے کمرے میں گھس کے بیٹھ گئے اور ہنگامہ برپا کرنے لگے، گلاں کی ماں نے ان سے بات کرنی چاہی کہ اصل صورت حال بتائے وہ اسی پر چڑھ دوڑے ۔ ڈاکٹر کو مجبور کر دیا کہ وہ فوری طور پہ  بلال اور گلاں کی اماں کو برطرف کر دے۔ ڈاکٹر نے وقت ٹالنے کے لئے آرڈر لکھ دیئے،

Advertisements
julia rana solicitors london
سالٹ رینج کا منظر

غلام کے باپ کی طبیعت علاج ہو جانے سے بہتر ہو گئی اسے گھر لے گئے، بلال، گلاں کی ماں، معطلی کی وجہ سے گلاں کے ساتھ ان کے گھر چلے گئے کہ بلال تو صوبیدار صاحب کے مہمان خانے میں مقیم تھا۔ صوبیدار صاحب کی عدم موجودگی میں اس کا وہاں جانا مزید بدمزگی کا باعث ہوتا۔
محکمہ ارضیات والوں کی رائے ہے کہ پوٹھوار میں روزانہ زیر زمین بھونچال کی کیفیت پیدا ہوتی ہے لیکن سطحی تہہ دری کی وجہ سے یہ زمین پہ  محسوس نہیں  ہوتی آج اس گاؤں میں یہ کیفیت طاری تھی، شاید اسی وجہ سے شام کو جب نائب صوبیدار صاحب نے پنڈی واپسی کا قصد کیا تو بیٹھک کے صحن میں برآمدے کے ستون کے سامنے بیل بوٹے لگانے کے لئے بنی کیاری کی نرم مٹی سے بنی منڈیر پہ ان کا پاؤں رپٹ گیا، اور ٹخنے میں موچ آ گئی تو وقتی طبی امداد کے لئے ہیلتھ سنٹر میں کوئی  موجود ہی نہیں تھا، ڈاکٹر صاحب چھٹی کے بعد شہر چلے گئے تھے، ڈسپنسر اور دائی  کو نائب صاحب وہاں سے نکلوا چکے تھے۔ بھلا ہو گاؤں کے جراح نائی  کا جس نے درد کشا تیل کی مالش کی تو وہ جیپ چلانے کے قابل ہوئے اور پنڈی روانہ ہو گئے، ان کی رخصتی پر لگتا تھا پورے گاؤں نے سُکھ کا سانس لیا۔
بلال بھی مہمان خانے میں آ گیا۔
سائیں غلام دن بھر باپ کی تیمارداری میں لگا رہا۔ اس کے اپنے ذہن پر گلاں سے پیار کے ہتھوڑے برستے رہے۔۔کل تک اس کے ساتھ زندگی کرنے کی ساری دلکش خواہشیں اچانک مدہم ہونے لگیں ۔
گلاں بھی باپ کی قبر کی زیارت سے اپنے اندر آتش عشق ٹھنڈی ہوتی محسوس کر رہی تھی،اس نے پہلی بار سائیں غلام کے علاوہ وہ دن بلال کے ساتھ گزارا ۔ ذہن میں ایک رو  سائیں سے پیار کی آتی جو فوری طور پہ  غصے اور پھر الجھن میں بدل جاتی۔ بلال کا سوچتی ! کیا یہ اس کا مرد ہو سکتا ہے ؟ وہ خود سے شرماتی !
سائیں کے ساتھ کھیلنا،کھانا پینا، لڑنا جھگڑنا، کھدر میں بکریاں چرانے کی فلم چلتی تو اس کے ساتھ شہر نہ جا پانے کی ناآسود سوچ کی کالی چادر اسے ڈھانپ دیتی۔ دونوں کے لئے شاید یہ پہلی شام تھی جس میں ملاقات نہ ہوئی۔
بلال نوجوان تھا اسے دن کو ہوئی  بے عزتی کو برداشت کرنے کی دقّت تنگ کر رہی تھی۔ لیکن گلاں کے گھر گزرا وقت اسے بھی تسکین آمیز لگ رہا تھا۔۔۔
اس کشا کش میں رات گزری۔ صبح کو نہ بلال ڈسپنسر اور نہ گلاں کی ماں ہیلتھ سینٹر گئے، ڈاکٹر صاحب بھی شہر سے نہیں  آئے تھے۔ دوپہر کو صوبیدار صاحب واپس پہنچے تو ان کے ساتھ شہر سے تحصیلدار اور محکمہ مال کا سٹاف، گرداور ، پٹواری ،ایک ریکارڈ سے بھری پک اپ کے ہمراہ چار گاڑیوں کا جلوس ان کی بیٹھک پہ  اترا۔۔
اگلے دو دن میں گاؤں کی ساری اراضی بیٹھک میں لٹھے پر زیر بحث تھی، پرانے بندوبست جب کھنگالے گئے تو گاؤں میں فضا پچھلے دن سے زیادہ مکدر ہوئی  اور ماحول میں مزید ٹینشن آ گئی۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply