جہالاوان کی تشویش ناک صورتحال۔۔۔شہزاد سلطان بلوچ

گزشتہ کافی عرصے سے ایک بات زیر بحث ہے جس کا وقتََا فوقتََا میں نے اپنے کالموں میں ذکر بھی کیا ہے کہ مکران تعلیمی حوالے سے آگے ہے یا جہالاوان، اس پر دلچسپ تبصرے بھی ہوتے رہے ہیں مگر سچ یہی ہے کہ مکران اس حوالے سے ہمیشہ آگے رہا  ہے اور شعور میں بھی بہت آگے ہے، اس بات کی درستی کو جانچنے کے لئے اگر ہم معیار بنائیں تو “سیاسی پارٹیاں” بہترین معیار قرار پائے گی۔ جہالاوان میں ہر سردار کے پاس اپنی ایک پارٹی ہے، بلکہ خاندان کے ہر دو تین فرد الگ سے ایک پارٹی بنائے ہوئے ہیں اور چلا بھی رہے ہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی عوام ہے، یہ لوگ سرداروں کے لئے مارنے اور مرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں تو ایک سیاسی پارٹی چلانا کون سی بڑی بات ہے!

سردار نے جیسا بھی فیصلہ کیا لیکن وہ سردار ہے اس لئے اس کے لئے کچھ بھی کریں گے، حالانکہ اللہ تعالی نے دماغ صرف سردار کو نہیں بلکہ ہر ایک کو الگ الگ دیا ہے تاکہ وہ بجائے اتباع کرنے کے خود آگے بڑھیں اور ملت کے فائدے کے لئے قوم کی قیادت کریں۔ نواب نوروز خان اور سردار دودا خان کے خاندان کی کبھی آپس میں نہیں بنی، بلکہ دودا خان کے خاندان کے اندر آپس میں بھی بہت لڑائیاں ہیں، زہری قبیلے کا سردار باتفاق قوم سردار رسول بخش زرک زئی تھا جسے اس کے بھائی نواب ثناءاللہ نے مارا اور سردار بن گیا، پھر جب نواب ثناءاللہ کا بیٹا، بھائی وغیرہ دوران کمپین مارے گئے تو بابو دودا انہی دنوں نواب صاحب کے گھر سے غائب کئے گئے، یہ دودا اسی رسول بخش کا بیٹا تھا جسے نواب صاحب نے مارا تھا، بابو دودا آج تک غائب ہے، کئی قسم کی افواہیں چلیں کہ اس کا قیمہ بنادیا گیا تھا وغیرہ، لیکن ان دعوؤں کی آج تک نہ تصدیق کی جاسکی نہ کسی نے تردید کی اور نہ ہی کسی کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ بابو دودا کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟

اور سب سے حیرت انگیز بات یہ کہ وہی نواب صاحب بلوچستان کے سینئر وزیر اور وزیر اعلی بھی بنے۔ نواب صاحب مسلم لیگ ن میں ہوتے ہیں، اس کا بھائی نعمت اللہ زہری باپ کے ساتھ ہے، دو اور بھائی میر اسرار زہری اور میر ظفر زہری کی اپنی سیاسی پارٹی بی این پی عوامی ہے، دیور آغا شکیل درانی باپ کے ساتھ ہیں، داماد میر یونس عزیز جے یو آئی کے ساتھ۔ اس خاندان میں کل ملاکے تین ایم پی اے اور ایک اسپیشل اسسٹنٹ چیف منسٹر بیک وقت موجود ہیں۔ سردار مینگل کے پاس اپنی پارٹی ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی۔ مینگلوں میں بھی دوگروہ ہیں، سابق وفاقی وزیر پٹرولیم میر نصیر مینگل سردار اختر مینگل کے سیاسی حریف ہیں، اب اس کے بیٹے میر شفیق مینگل اس کے جگہ پہ ہیں، یہاں حیرت کی بات یہ کہ سردار صاحب کے سب سے بڑے سیاسی حریف میر نصیر مینگل کا بھائی سردار اختر کے نہ صرف دیرینہ رفیق ہیں بلکہ 2002 اور 2018 میں وڈھ کے سیٹ پر صوبائی وزیر بھی بنے ہیں۔ میر شفیق مینگل اور سردار اختر کے مابین ہونے والی لڑائی نے عام عوام کو بری طرح کچل دیا تھا جس کی مین وجہ اس لڑائی کا محل وقوع مین آر سی ڈی روڈ کا ہونا ہے، جب نال میں ایک لیٹر پٹرول 110 روپے میں دستیاب تھا تو نال کے بغل میں موجود وڈھ میں پٹرول فی لیٹر 300 میں بمشکل ملتا تھا، اور جن لوگوں نے ٹماٹر کی فصل پر محنت کرکے آس لگادی تھی کہ یہ فصل ان کے قرضوں کی خلاصی کا سبب بنے گی ان لوگوں کو پوری فصل سڑک کے کنارے گرانا پڑی تھی کیوں کہ کوئی بھی گاڑی وہاں آنے کو تیار نہ تھی، اور جو آبھی جاتی تو اس کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

اگر نال کی بات کی جائے تو اس ساری صورتحال میں نسبتََا اچھی حالت میں تھی، یہاں کی سب سے اچھی بات یہ کہ علاقے کا سردار بلدیاتی الیکشن میں جے یو آئی کے افراد کے ساتھ اپنے بیٹھک میں بیٹھ کر ہنستے ہوئے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتا تھا، اس سردار کے علاقے میں سیاست کرنا ایک آسان پیشہ رہا ہے کیوں کہ یہاں سیاست کرنے پر پابندی کبھی نہیں لگائی گئی، شاید یہی وجہ تھی کہ بزنجو سردار اور باقی سارے افراد نے نیشنل پارٹی کی طرف سے ہمیشہ سیاست کی، آج اگر ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے امیر ڈاکٹر مالک صوبائی امیر ہے تب بھی ان کی سیاست نیشنل پارٹی کے ساتھ ہے، البتہ گزشتہ الیکشن سے قبل پہلی بار بزنجو کی سیاست بھی بٹوارہ آگیا اور میر خالد بزنجو نے اپنی کشتی باپ سے ملالی۔ اس سب کے برعکس مکران نے ڈاکٹر مالک کی شکل میں نیشنل پارٹی میں سیاست کی، احسان شاہ اور اسد بلوچ کی شکل میں بی ان پی عوامی میں یا پھر حمل کلمتی کی شکل میں بی این پی میں، الگ سے پارٹی بنانے کی روایت ڈاکٹر عبدالحی بلوچ نے ڈالی جس نے اپنا گھوڑا الگ دوڑانے کا فیصلہ کیا اور نتیجے کے طور احسان شاہ نے بھی پارٹی بنائی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک چیز جہالاوان کا طرہ امتیاز ہے، نورا مینگل، سردار رسول بخش ساسولی، گہرام مینگل، نوروز خان زہری، علی محمد مینگل، عبدالرحمان درمانزئی، ایوب مردوئی، مراد جان میروانی، اللہ بخش ساسولی وغیرہ کی شکل میں ہر سامراج سے ٹکر لیا جب بھی یہاں کے حقوق کی پامالی ہوئی یا ناجائز قبضہ کیا گیا، مکران کے پاس اتنے سارے نام نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ جہالاون کی تعلیمی پسماندگی کا سب سے بڑا ذمہ دار کون ہے؟ لیکن بابو نوروز کے بیٹے کے مارے جانے کے بعد جہالاوان ایک بار پھر صف بندی کا شکار ہے، بڑی طاقتیں دھمکیوں سے کام چلا لیں گے اور عوام قربان ہوتی رہے گی، سردار اختر مینگل اور نواب ثناء اللہ زہری صاحب سے درخواست ہے کہ یہ جنگ خود لڑیں، عوام اس سے پہلے اس محاذ پر بہت قربانی کے چکی ہے، اگر اس بار پھر جہالاوان اس جنگ سے متاثر ہوتا ہے تو پھر نوجوان نسل آپ دونوں کی سیاست دفن کرنے کے لئے اپنا جنگ پوری طاقت سے لڑے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply