پیارے طبیب ڈاکٹر خالد سہیل صاحب
آداب و تسلیمات
کافی عرصہ سے آپ کے نام ادبی محبت نامہ لکھنے کی کوشش کررہا تھا مگر جب بھی لکھنے بیٹھتا تو پریشان ہو جاتا یا الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے تھے اور ذہن میں بے ہنگم سوچوں کا سیلاب رواں ہوجاتا تھا۔ پیارے طبیب سوچ کو مرتکز کرنے کا یہ عمل اتنادشوار گزار کیوں ہوتا ہے۔ سائبر دنیا کی بدولت میرا غائبانہ آمنا سامنا وجاہت مسعود صاحب کے پلیٹ فارم (ہم سب)کی بدولت ہوا۔ آپ کا پہلا کالم میری نظر سے گزرا۔ جس میں آپ نے تین سچائیوں کی وضا حت کی تھی کہ دنیا میں تین طرح کے سچ پائے جاتے ہیں۔
پہلا مذہبی سچائی
دوسرا روحانی سچائی
تیسرا سائنسی سچائی۔
اس کالم کو پڑھنے کے بعد میں نے آپ کو سائبر کی دنیا میں ڈھونڈنا شروع کیا۔ جب میں نے آپ کو آپ کی ویب سائٹ پر ڈھونڈا تو اس سائٹ کے ابتدائی جملوں نے ہی مجھے آپ کی طرف راغب کر لیا۔ آپ کی سائٹ کے کچھ ابتدائی جملے یوں تھے۔
(My Creations are my love letters to humanity)
بس پھر کیا تھا کہ آج تک اس وابستگی کی محبت والی میٹھی سزا بھگت رہا ہوں۔ اب تک میں
۱۔ دی سیکرTHE SEEKER
،۲۔ گرین زون لونگGREEN ZONE LIVING
، ۳۔ فرام اسلام ٹو سیکولرہیومنزمFROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM
،۴۔اینتھالوجی فیملی آف دی ہارٹANTHOLOGY OF FAMILY OF THE HEART
، ۵۔ انسانی شعور کا ارتقاء،
۶۔ ادھورے خواب،
۷۔ اپنا اپنا سچ،
۸۔ شیز و فرینیا،
۹۔ ہجرت کے دکھ سکھ،
۱۰۔ کالے جسموں کی ریاضت،
۱۱۔ مغربی عورت، ادب اور زندگی،
۱۲۔ چند گز کا فاصلہ،
۱۳۔ روحانیات کی نفسیات
اور
۱۴۔ دانائی کی تلاش میں۔
آپ کی یہ سب کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ پیارے طبیب آپ کی تحریریں زندگی سے جوڑتی ہیں اور شعوری طور پر زندگی کو سمجھنے کی ترویج دیتی ہیں۔
پیارے طبیب آپ کی محبت اور بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ سے راہنمائی کا طلب گار ہوں۔ شروع سے جب سے شعوری طور پر ادب کو پڑھنا شروع کیا بس پڑھتے ہی چلا جا رہا ہوں۔ لیکن جب بھی کچھ لکھنے کا فیصلہ کرتا ہوں قلم اٹھانے سے پہلے تک ذہن میں کافی مواد پک چکا ہوتاہے مگر جیسے ہی قلم اٹھاتا ہوں تو ایک ڈیڑھ صفحے سے زیادہ نہیں لکھ پاتا اور ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہوں اور دوبارہ پڑھائی کی طرف راغب ہو جاتاہوں۔
پیارے طبیب میری راہنمائی کیجیے میں اس عمل کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ جو کچھ آپ کو لکھا ہے وہ لکھے اورپڑھے جانے کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ مجھے آپ کے ساتھ دوستی پر فخر ہے اور کوشش کروں گاکہ آپ کی تصانیف کے حوالے سے مکالمہ جاری رکھوں۔
از: عبدالستار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب!
محترمی عبدالستار صاحب !مجھے وہ دن یاد ہے جب آپ اپنے دوستوں کے ساتھ مجھے ملنے میاں چنو سے لاہور تشریف لائے تھے اور میرے اور ڈاکٹر بلند اقبال کے لیے میاں چنو سے خصوصی برفی کے ڈبے بھی لائے تھے۔ آپ نے مجھے یہ خوش خبری بھی سنائی تھی کہ آپ اور آپ کے دوست زبیر لودھی ہمارے ٹیلی ویژن پروگرام۔۔۔دانائی کی تلاش۔کو لکھ رہے ہیں تا کہ ایک دن وہ کتابی صورت اختیار کر سکے۔ یہ بہت محنت اور ریاضت کا کام ہے۔
یہ میری خوش قسمتی کہ میری کتابوں کو آپ جیسا سنجیدہ قاری ملا ہے۔آپ نہ صرف کتابیں پڑھتے ہیں بلکہ ان پر غور بھی کرتے ہیں۔
جہاں تک آپ کی لکھنے میں ہچکچاہٹ کا تعلق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے اندر کا لکھاری لکھنا شروع کرتا ہے لیکن ایک صفحہ لکھنے کے بعد آپ کے اندر کا ناقد نمودار ہو جاتا ہے اور لکھاری پر ایسی کڑی تنقید کرتا ہے کہ آپ کے اندر کا لکھاری کچھ حیران کچھ پریشان ہو جاتا ہے اور پھر اتنا نادم ہوتا ہے کہ لکھنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ مسئلہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہر اس لکھاری کا مسئلہ ہے جو نہ صرف اپنے داخلی نقاد سے گھبراتا ہے بلکہ یہ بھی سوچتا رہتا ہے کہ،لوگ کیا کہیں گے۔؟
میرا یہ مشورہ ہے کہ آپ ہر ہفتے کچھ نہ کچھ لکھا کریں اور اپنے دو تین مخلص دوستوں سے شیر کیا کریں۔اس سے آپ میں ادبی خود اعتمادی پیدا ہوگی۔ اگر آپ چاہیں تو آپ میری ایک ایک کتاب پڑھ کر اس پر تبصرہ لکھیں اور مجھے بھیجیں۔ اس طرح ہو سکتا ہے میں بھی آپ کی کچھ مدد کر سکوں اور کچھ ادبی مشورے دے سکوں۔
میرے اس مشورے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟کسی نے کہا ہے
PRACTICE MAKES A MAN PERFECT
اردو میں ہم اس عمل کو۔۔۔ریاض۔۔۔کہتے ہیں۔
آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل۔۔۔۔۲۴ اگست ۲۰۱۹
Facebook Comments
یہ سوال اکیلے عبدالستار صاحب کا نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کا ہے جو لکھنا شروع کرنا چاہتا ہے۔ لیکن عبدالستار صاحب کا مسشکور ہوں کہ انہوں نے یہ سوال اٹھایا جس سے ہم جیسے لوگوں کے لیے سیکھنے کی راہیں نکلی۔