اپوری جان لگا کر وہ جمپ لگاتا ” جیسے” ۔۔چاند پر ہو ،کششِ ثقل سے عاری زمین ،پیر بھی بڑے لمبے تھے اُسکے ۔۔
دھنسنے کے بعد باقی رہتے ،زمین پر قدم اُٹھاتا مگر ۔۔یہ گڑھے جو ہمیشہ اُس کے پیروں کے نیچے ہی رہا کرتے تھے ۔۔اُس کے قدم کھنچ لیتے ،
و ہ اُ چھلتا مگر پھر کسی نہ کسی گڑھے پر اُس کے پیر کھنچ لیے جاتے – ہر قدم پر اُسے نئی طاقت درکار ہوتی ،جو ہر سانس کے ساتھ اُسے حاصل ہوا کرتی تھی ،طاقت کہاں اُس میں تھی۔۔وہ تو حوصلے کے ایندھن سے رفتار بناتا تھا ۔۔
سارے مدار صفر سے صفر تک ،پھر وہی گڑھا ،کبھی جھانک لیتا تو لرز اُٹھتا ۔۔بہت پہلے اُس نے پیروں کے نیچے آجانے والے گڑھے کو غور سے دیکھا تھا ۔۔
وہ اس گڑھے کی حد دیکھنا چاہتا تھا ،آنکھوں کی سواری پر میلوں کا سفر طے ہوا ۔۔
مگر وہ اُس گڑھے کے دوسرے سِرے پر نہیں پہنچ سکا تھا ۔۔
آنکھیں روشن ہوگئیں ۔۔وہ واپس نہ آسکا!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں