داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط29

ٹیکسات !

فیڈرل بورڈ آف ریونیو جب سی بی آر اور آج کل کا ان لینڈ ریونیو جب محکمہ اِنکم ٹیکس ہوتے تھے، تب سے ہمارا  انکے ساتھ بطور مشیر اِنکم ٹیکس واسطہ اور رابطہ شروع ہوا۔ کیسے جغادری افسروں سے پالا پڑتا ہے۔
مرد افسران تو جو دبنگ افسر تھے سو تھے خواتین افسر بھی کم نہیں تھیں، ایسی ہی میڈم اسلام آباد کے ایک سرکل میں
پوسٹ ہوئیں، ہر عورت تو ویسے ہی خوبصورت ہوتی ہے، اس پر افسرانہ ٹھاٹھ بھی ہوں، پرسنائلٹی بھی رعب دار ہو،لباس پہننے کا سلیقہ بھی ہو، انگریزی بولنے کا طریقہ  آتا ہو، تو شخصیت سہ آتشہ تو ہو گی ہی۔
میڈیم کی دھاک بارے روز سنتے تھے۔ لیکن گوشوارے فائل کرنے کی مصروفیت میں ان کے سامنے پیشی کا شرف حاصل نہیں  ہوا تھا۔ ٹیکس کی وکالت میں نئے ہونے کی وجہ سے گوشوارے بھرنے میں دقّت ہوتی اور وقت لگتا۔۔خیر گوشواروں کا سیزن جیسے ہی ختم ہوا مذکورہ میڈم کے سرکل سے ہمارے دو کیسز میں طلبی کے نوٹس موصول ہوئے۔
متعین تاریخ پہ ہم صبح صبح بن ٹھن کے میڈم کے سامنے پیش ہو گئے۔
ابھی کمپیوٹر اتنے عام نہیں ہوئے تھے، منشی کے لکھے کھاتے پیش کیے، دستاویزات کی کاپیاں آن ریکارڈ کرا دیں،ماحول پُرتکلف اور افسرانہ ، سوال جواب حقائق تک محدود۔ نہ چائے نہ پانی۔۔ گھنٹہ بھر کی پہلی نشست میں پیشی مکمل ہو گئی،کیسز پر بحث ختم اور برائے آرڈر کے ریمارکس لکھے گئے، فائل کی آرڈر شیٹ پہ ہماری حاضری ، نوٹ شیٹ  پربطور مجاز نمائندہ ٹیکس گزار ہم نے دستخط کیے اور چھٹی ۔۔
اب سرکل میں آنا جانا شروع ہو گیا، دو چار مزید پیشیوں میں ہم میڈم کے مزاج کو سمجھنے لگے اور میڈم بھی ہمارے انداز سے واقف ہو گئیں۔ جیسے ایک روز ہم نے کیس پر بات شروع کرنے سے پہلے چائے کی فرمائش کرتے یہ کمنٹ دیا کہ ہم روز کے مہمان ہیں چائے تو ہمارا شرعی حق ہے، اگلی بار میڈم سے یہ پوچھ لیا کہ کلائی میں پہنی سونے کی  چوڑیاں جو اتنی خوبصورتی سے جچ رہی ہیں ، کس جیولر نے بنائی ہیں کہ ہم بھی اپنی زوجہ ماجدہ کو ایسی ہی بنوا کے گفٹ کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
میڈم بہت ہی نفیس ہستی، رکھ رکھاؤ اور اخلاق سے بات کرتی تھیں۔ لیکن ٹیکس کے معاملے میں جبر کرنے پر یقین تھا۔
پہلے کیسز کے آرڈر جب ملے تو ہمارا واقعی تراہ نکل گیا۔ ہمارا سارا مؤقف رَد کرتے ہوئے، دونوں کیسز میں خالص آمدن دو دو لاکھ اسٹیمیٹ کر دی گئی۔
اب بے تکلفی تو ہو چکی تھی، ہم نے بھرپور دوستانہ احتجاج کیا۔ میڈیم نے بڑے سکون سے مسکرا کے جو جواب دیا
وہ ًاُستادی گُر ًتھا۔

میڈم نے کہا، خان صاحب آپ کو کس نے کہا تھا کہ ماہ نومبر دسمبر میں کیس فائنل کرائیں ،جب ہمارے پاس آسمان کے نیچے فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ ہم کیس کی ساری مین میخ چیک کرتے ہیں ، ٹکا کے ٹیکس لگاتے ہیں ۔
آپ کو چاہیے تھا کیس التوا میں رکھتے ،اگلے جون تک کھینچ کے لے جاتے۔ جب ہم پہ  ٹائم بار کا پریشر ہوتا تو،اس ہنگام میں کیس آپ مرضی سے فائنل کرانے کی پوزیشن میں ہوتے ! اب اپیل کریں وہاں سے ریلیف لیں۔
یہ نسخہ کیمیا ہم نے پھر ایسا تعویذ بنا کے رکھا، ہمیشہ کیسز کے فیصلے جون کے آخری ہفتے سے پہلے نہیں  ہونے دیئے۔
اس دوران کمشنر اپیل ، اپیلیٹ ایڈیشنل کمشنر کے ہاں ہماری اپیلیں منظور ہونے لگیں کہ ہم ہر کیس میں حقائق کے گہرے تجزیہ اور لا ءپوائنٹ پر کیس  ڈھونڈنے پر بہت محنت کرتے، دوسرا سینئر وکلا کی رہنمائی اور مشاورت بھی میسر ہوتی۔
میڈم کے پاس سیالکوٹ سے ایک فرم کا کیس بھاری ٹیکس ڈیمانڈ کے ساتھ ، ٹیکس گزار کے مستقل اسلام آباد شفٹ ہونے پر جیورزڈکشن پؤانٹ پر ٹرانسفر ہو کر آیا۔ ٹیکس گزار کی سیالکوٹ میں عدم موجودگی کی وجہ سے کسی بھی نوٹس
کی تعمیل نہیں ہوئی  تھی۔ یکطرفہ فیصلہ ہوا تھا اور اپیل کے تیس دن کیا نظر ثانی کے نوے دن بھی گزر چکے تھے
بظاہر اس کیس میں جائز یا ناجائز ٹیکس ڈیمانڈ جمع کرانے کے سوا کوئی چارہ نہیں نظر آتا تھا۔
ٹیکس گزار ٹھیکیدار فرم تھی، مالک ٹیکس کے محکمے سے تعاون کرنے والے تھے کہ ہر سال ٹیکس کا ریفنڈ لیتے آئے تھے
سرکل کا سٹاف انکی مدد کرنا چاہتا تھا پر قانونی راہ ناپید تھی۔
ظاہر ہے دیگر ماہرین سے مشاورت کی گئی ہو گی اور کسی نے حامی نہ بھری ہو گی جو مجھے سپیشل فون کر کے بلوایا گیا۔
میڈم کے آفس میں ٹھیکیدار صاحب ، دو انسپکٹر اور سرکل سُپر وائزر بھی موجود تھے، جب ہم وہاں حاضر ہوئے۔۔
ہم نے ماحول کی کشیدگی کم کرنے کو میڈم سے اپنے آزمودہ نسخہ کے مطابق کافی پینے کی فرمائش کی ۔۔
فائل پڑھی، فیکٹس یہ تھے کہ تین سال قبل ٹیکس ریٹرن کے ساتھ لف بیلنس شیٹ میں واجب الوصول سکیورٹی کی رقوم، اور ٹیکس ریفنڈ کی رقم درج ہی نہیں تھی، اگلے سال میں یہ وصول، ایڈجسٹڈ ،میں ظاہر کی گئیں۔
اثاثے چھپانے کی اس زمانے کی تعزیری دفعہ 65 کے تحت پچھلے سال کا کیس ری اوپن کیا گیا۔
شو کاز اور دیگر نوٹسز ایشو ہوتے رہے ۔ جب ٹیکس گزار سیالکوٹ چھوڑ چکا تھا تو تعمیل کیسے  ہوتی۔۔
دوبارہ اسیسمنٹ کے آرڈر پرانے ایڈریس پر چسپاں کئے گئے، اس تاریخ سے اپیل ۔ نظر ثانی کرنے کی مدت ختم ہوئے بھی سال ہونے کو تھا ۔
انسپکٹر نے ہلہ شیری دی ، خان جی کوئی حل نکال لیں گے !
ٹھیکیدار صاحب نے پُرامید ہوتے ہوئے  اپنے پیشے کے مطابق فرمایا۔۔ سر آپ فیس بتائیں ،
بغیر سوچے میرے منہ سے نکل گیا ۔ پچاس ہزار !
اس زمانے مطلب 1990 میں کمشنر اپیل کے سامنے پیشی کی اتنی فیس ناقابل یقین تھی، وہ بھی اِنکم ٹیکس آفس میں بیٹھ کے طے کرنا بہت ہی اچنبھے کی بات تھی۔ لیکن جب کہہ دیا تھا تو اس پر بارگین کا سوال ہی نہیں تھا۔
سب حیران ہونے سے فارغ ہوئے تو ہم نے مصدقہ نقول کی درخواست لکھی، نقول کے حصول اور اپیل کی فیس کے بنک چالان بھرے۔ دفتر کے چپڑاسی کے ہاتھ فائل کی فوٹو کاپی اور فیس جمع کرانے ٹھیکیدار کو سُپر مارکیٹ بھیجا۔
شام کو اپیلیں تیار کیں، ٹھیکیدار کو بُلایا ۔ دستخط کرائے ، سیٹ تیار کرائے، وہ پچاس ہزار کا کراس چیک دے گئے۔
ہم نے فیس دینے میں بلڈنگ اور روڈ کنٹریکٹر سے اچھا پے ماسٹر نہیں دیکھا۔
اگلے دن صبح پنڈی گئے، کمشنر اپیل ہمارے علاقے کے ملک صاحب تھے، ان سے فارمل میٹنگ کی ، اپیل فائل کرنے میں تاخیر کی وجہ کہ کوئی آرڈر سی پی سی اور اِنکم ٹیکس کے مطابق نہ پراپر سروس ہوا تھا اور نہ ہی مبینہ سروس بذریعہ افکسچر ۔ یا چسپاں کرنا قواعد و ضوابط کے مطابق تھی، یہ تاخیر کنڈون ہوئی اور اپیل فائل ہو گئی، ساتھ ہی آؤٹ آف ٹرن سماعت کی درخواست بھی منظور ہو گئی،کمشنر ملک صاحب قانون کو لیٹر اور سپرٹ میں اپلائی کرنے کی شہرت رکھتے تھے۔ ہم نے تین دن رات لگا کے کیس کی الف سے ی تک تفصیل ترتیب دی، ہر سٹپ پر محکمے کی لاپروائی اور قوائد سے رو گردانی ثابت کی اور ثبوت پیش کیے۔
سماعت کے دو دن میں دو سیشن ہوئے، کہ باقی اپیل کنندگان کے ساتھ زیادتی نہ ہو، انکو بھی ٹائم دیا گیا۔
اہم ترین ثبوت یہ تھا کہ جس انسپکٹر کو بطور بیلف آرڈر چسپاں کرنا تفویض ہوا ،اسی  نےساری کاروائی اپنے دفتر میں بیٹھ کے پوری کی، موقع  پر موجود دو آزاد گواہان کی موجودگی ، شناخت، وقت فرضی لکھے تھے،
اہم نقطہ یہ بھی تھا کہ جب کوئی نوٹس قانونی تقاضوں کے مطابق پراپر سروس نہ ہونا ثابت ہو جائے تو اس کی بنیاد پر کی گئی کاروائی بھی کالعدم تصور ہو گی، یہاں تو سارے نوٹس ہی ایسے نکلے۔
ٹیکس گزار فرم کی اپیل منظور ہوئی، ڈیمانڈ ختم ہو گئی، ہماری واہ واہ ہوئی۔۔ ٹھیکیداروں میں شہرت ہوئی،اور فیس ہم پہ حلال ہو گئی تو ہم نے وہ چیک جمع کرایا، کیونکہ اتنے دن ہماری ٹانگیں کانپتی رہیں کہ کیس ہار گئے
تو کیا کریں گے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply