• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیکولرازم کا متبادل نہیں بتایا جاتا اور بتایا جانا ممکن بھی نہیں۔۔۔اسد مفتی

سیکولرازم کا متبادل نہیں بتایا جاتا اور بتایا جانا ممکن بھی نہیں۔۔۔اسد مفتی

کسی بھی نظریہ پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریے کے خلاف زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے،مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ آج کے دور میں چیزیں ،جذبے،سوچیں ،اتنی گڈ مڈ ،اُلٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہوگئی ہیں کہ،یہی وجہ ہے کہ آج مجھے میر غوث بخش بزنجو شدت سے یاد آرہے ہیں ۔ اگست کا مہینہ پاکستان سے زیادہ غوث بخش بز نجو کی یاد دلاتا ہے ۔ ہر سال 11اگست کے دن میرا دھیان میر بخش بزنجو کی طرف چلا جاتا ہے،اس نام کے ساتھ ہی ذہن میں ایک طویل جدوجہد ابھرتی ہے،پہاڑوں ،ساحلی چٹانوں ،اور سبزہ زاروں کی سیاست کے رزمیہ نغموں کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے

آج اصل نقل میں امتیاز کرنا مشکل تر ہوگیا ہے ۔ اور آج پاکستانیوں کو اپنی بصارت اور بلاغت میں اضافے کی اشد ضرورت ہے،اتنے جھگڑے،اتنے ہیر پھیر،اور اتنے وَل چَھل پڑ گئے ہیں کہ سیاست ہو یا ادب،سماجیات ہو یا صحافت،آرٹ ہو یا ثقافت،کہ جسے سب حالتوں کی حالت کہنا چاہیے ۔ بے یارومددگار اور مخدوش الصفات رہ گئی ہے،ان حالات میں غوث بخش بزنجو کی یادیں دامن گیر ہوجاتی ہیں ،

کہتے ہیں ،علم کے ساتھ تھوڑا سا عمل زیاد ہ نفع دیتا ہے،جبکہ جہل کے ساتھ زیادہ عمل بھی منافع نہیں دیتا ۔

11اگست 1989کو جب مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میرے ذہن میں دھماکہ نہیں بلکہ دھماکے کے بعد جو سناٹا پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس نے میری سوچ کو گھیر لیا ۔ ۔ ۔ کتنا کرب تھا اس سناٹے میں ،جس نے ہر آواز کا گلا گھونٹ دیاتھا ۔ ہر سسکی اپنا مفہوم کھو چکی تھی ۔ اور ہر چیخ غیر ضروری ہوگئی تھی ۔ بزنجو صاحب کو کیا معلوم کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں ،ان کے لیے تو دکھ یا پریشانی کی کوئی بات نہیں مگر ہم ۔ ۔ ۔ ۔

میر بخش بزنجوسے میری واقفیت کا آغاز عوامی نیشنل پارٹی سے ہوا،یہ واقفیت ذاتی نہ تھی،بلکہ پارٹی کے حوالے سے تھی ،انہی دنوں وہ لاہور آئے تو پروفیسرامین مغل اورنگل، شمیم اشرف سے میرا تعارف کرایا ،اس شناسائی نے مجھ پر ایسا انمٹ نقوش چھوڑا جو پارٹی میں میرے تمام تر کام کے دوران محو نہ ہوسکا ۔ ولی خان ،عطا اللہ مینگل،خیر بخش اجمل خٹک ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جب میں میر صاحب کی سادگی ،سچائی،جمہوریت پسندی ،انقلابی خیالات اور سرگرمیوں سے واقف ہواتو میں نے محسوس کیا کہ بزنجو صاحب ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل انسان ہیں ۔ میری نظر میں وہ نیشنل عوامی پارٹی کے محض راہنما ہی نہ تھے بلکہ بانی بھی تھے ۔ اس لیے کہ وہی ہماری پارٹی کے عوامی نطریات،پارٹی کی عوامی ماہیت،اور اس کے فوری تقاضوں سے واقف تھے،جب کبھی میں نے ان کا مقابلہ اپنی پارٹی کے دوسرے رہنماءوں سے کیاتو ہر بار دوسروں کے مقابلے میں بزنجو صاحب نے نہ صرف ایک راہنما بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کے راہنما گویا ایک شاہین تھے ۔ ،جنہیں پلٹنا،جھپٹنا،جھپٹ کر پلٹنے میں کوئی خوف نہ محسوس ہوتا ہو ۔ ۔ ۔ جو پاکستان میں انقلاب کے اَن دیکھے راستے پرپارٹی کی جرات مندانہ انداز میں رہنمائی کیا کرتے تھے،بزنجو صاحب سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی، میں اپنی پارٹی کے اس رہنما سے ملنے کا مشتاق تھا،اس عظیم انسان نے جو نہ صرف سیاسی اعتبارسے عظیم تھا بلکہ خود کو ذہنی طور پر بھی ان کے بہت قریب پاتا تھا ۔

ان دنوں بھی اسلام پسند یا رجعت پسندیا دائیں بازو یا کچھ بھی کہہ لیجیے،صحافی،نیشنل عوامی پارٹی کی تمام ت لیڈر شپ میں زیادہ تر بزنجو صاحب کی انقلابی سوچ کے خلاف زہر اُگلتے تھے،جن میں نوائے وقت ،مشرق اور اردو ڈاءجسٹ وغیرہ پیش پیش تھے،ان نام نہاد صحافیوں نے حکومت وقت سے مل کر بزنجو اور ان کی عوامی سیاست کے ساتھ وہ سلوک کیا جیسا کہ روایتی طور پر ایک جن نے اپنے مہمانوں کے ساتھ روا رکھا ۔ وہ بظاہر بڑے خلوص و احترام سے اجنبی مسافروں کو اپنے ہاں قیا م کرنے کی دعوت دیتا ،پر جو اس کی چارپائی سے چھوٹا ہوتا وہ اس کے پیٹ کا ایندھن بنا جاتا،اور جس کا قد چارپائی سے بڑا ہوتا وہ بھی اس پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ۔ یوں ہر انسان کو کھا جانا اس جن کی فطرت بن گئی،اور بہانہ یہ بنا رکھا تھا کہ آدمی یا تو چارپائی سے بڑا نکلا یا چھوٹا ۔ ۔ یعنی چارپائی کو پیمانے کی حیثیت دے دی گئی تھی ۔ ۔ اور بدقسمتی سے عوامی نیشنل پارٹی اس چارپائی پر فٹ نہ بیٹھتی تھی ۔

نیشنل عوامی پارٹی میں باچا خان،میاں افتخارالدین،جی ایم سید،حیدر بخش جتوئی،خان عبدالصمد خان اچکزئی،غوث بخش بزنجو،میر گل خان نصیر،عطا اللہ مینگل،ولی خان ،خیر بخش مری اور دوسرے بہت سے ترقی پسند اور انگریز(کالے اور سفید)استعمار کے خلاف سینہ سُپر ہونے والے سیاستدان شامل تھے ۔

نیشنل عوامی پارٹی سے قبل باچا خان کی خدائی خدمتگار ،جی ایم سید کی سندھی محاذ،میاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی،حیدر بخش جتوئی کی عوامی کمیٹی،عبدالصمد اچکزئی کی اور غوث بخش بزنجو کی استھمان گل،ایک الگ جماعتیں تھیں ،پھر سب لوگوں نے مل کر ایک پارٹی تشکیل دی،جس کا نام پاکستان نیشنل پارٹی رکھا گیا،بعد میں مولانا بھاشانی کی شمولیت پر یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کہلائی،جس کا منشور غوث بخش بزنجو کی ذہنی عرق ریزی کا نتیجہ تھا،کہ انہیں یقین کامل تھا کہ مصائب و آلام ،دکھ درد ،غم انسانی زندگی کے لیے ناگزیر نہیں ہے،بلکہ ایسی مکروہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو قطعی  چھٹکارہ حاصل کرنا چاہیے،بزنجو صاحب کے ساتھ کسی بھی مسئلے پر متنازع بحث کی جاسکتی تھی،اور ایسی بحثیں اکثر ہوتی تھیں ،نہ صرف پاکستان بلکہ لندن اور میرے گھر ایمسٹر ڈیم میں بھی،وہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ان کے خیالات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔ اوربڑی توجہ سے دوسرو ں کے خیالات سنتے تھے لیکن وہ ایسی کسی چیز کو،کسی بات کوکبھی نظر انداز نہیں کرتے تھے،جو بنیادی طور پر منطقی طور پر غلط ہو ۔ ۔ اصول کےس سامنے وہ کوئی رعائیت نہ برتتے تھے،

مجھے کل طرح آج بھی یاد ہے،ایمسٹر ڈیم میں میرے گھر پر ایک بار فیض احمد فیض کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا اگر فیض جیسا شخص پیدا نہ ہوتا ،تو ہم انقلاب کے لیے اسے پیدا کرتے ۔ ۔ ۔

بزنجو صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ میرے گھر آئے ہوئے تھے،ہم چند دوست رات گئے تک ان کی دلچسپ باتیں اور سیاسی تبصرے سنتے رہے،سفر کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے تھے ۔ کہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مفتی!مجھے میرا کمرہ دکھاو،نیند آرہی ہے۔ ۔

میں انہیں ان کے کمرے میں لے گیا ۔ ضرورت کی تمام چیزیں پہلے سے کمرے میں موجود تھیں ،پھر بھی میں نے احتیاطاً کہا کہ اب آپ آرام کیجیے،رات کے کسی بھی حصے میں بھی کسی چیزکی ضرورت پیش آئے توبلا تکلف مجھے آواز دے دیجیے گا،

کہنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں !اب میں سووں گا،اور صبح تک سوتا رہوں گا!

بس تم یہ کرنا کہ سویرہ ہو تو مجھے جگا دینا ۔ ۔

میں ہولے سے قدم لیتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا ۔ ۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بزنجو صاحب ابھی آپ آرام سے سوئیے،صبح ہوگی تو میں یا میرے بچے آپ کو ضرور جگا دیں گے ۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply