نہتی لڑکی۔۔۔روبینہ فیصل

1988میں جب بے نظیر صاحبہ ایک طویل جلا وطنی کے بعد پاکستان تشریف لائیں تو عوامی شاعر اور باغی حبیب جالب نے اُن کی جمہوریت کے لئے کوششوں اور قربانیوں کو خراج عقیدت ایک نظم کی صورت پیش کیا:
ڈرتے ہیں بندوقوں والے اک نہتی لڑکی سے۔۔۔۔

یہ نہتی لڑکی جو پچیس سال کی عمر میں آمریت کے آہنی پنجوں میں جکڑی جا چکی تھی، باپ، پھانسی پر جھول گیا، اور بھائی انتقاماً  دہشت گرد بن گئے تھے، ماں، نیم پاگل سی ہوچکی تھی اور ایک بہن ملک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جا چکی تھی۔۔ یہ تھی آکسفورڈ کی پڑھی لکھی، شاہی خاندان اور پاکستان کے سابقہ وزیر ِ اعظم کی بیٹی۔۔ عبرت کا نشان بنی ،ننگے پاؤں اور خالی ہاتھوں کھڑی تھی۔۔نہتی لڑکی۔

تو آمر کی موت کے بعد جب یہ لڑکی واپس لوٹی تو ایک گرجتی ہو ئی مضبوط لڑکی تھی،جس کے خلاف عام جماعتی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے آئی جے آئی کھڑی کر دی، جس کا نعرہ تھا “نو ستارے بھائی بھائی۔۔بے نظیر کی شامت آئی۔”۔ اس کا سربراہ ذولفقار علی بھٹو کا ساتھی اور بے نظیر کا انکل غلام مصطفیٰ جتوئی کو بنا کر گویا اس لڑکی کو جذباتی طور پر بھی نہتا کرنے کی کوشش کی گئی۔۔ یتیم لڑکی، جس کے بھائی مفرور اور پرانے انکلز بے وفا ہورہے تھے۔۔ دھوپ میں کھڑی تنہا لڑکی نے اسٹبلیشمنٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی تھیں،جس کا ایک بڑا فعال حصہ ضیاالحق کے لے پالک نواز شریف تھے، جنہیں میاں شریف نے غلام جیلانی کو یہ کہہ کر سونپا تھا کہ یہ میرا بچہ نکما ہے اسے سیاست میں کہیں کھپا دیں،میاں شریف کو کیا خبر تھی کہ یہ کھوٹا سکہ کتنی ترقی کرے گا اور بڑا ہو کر کتنے ایمپائرز کھڑے کر دے گااورکتنے اربوں کھربوں کا مالک نہ صرف خود بنے گا بلکہ کئی نسلوں تک ان کے پیدا ہونے والے بچوں کا بے بی شاور بھی ڈ الرز میں ہوا کرے گا۔ آج شریف خاندان کے پھیلے اثاثوں اور بھرے پرے بنک اکاؤنٹس دیکھ کر تاجر میاں شریف کا سر آسمانوں میں موجود تمام تاجروں کے سامنے فخر سے بلند ترین ہوگا۔ اور آجکل اس کے علاوہ فخر کے لئے والدین کچھ اورچاہتے بھی نہیں۔۔ نہ کردار، نہ انسان دوستی نہ وفاداری۔۔کاٹو، مارو، گراؤ، توڑو اور آگے بڑھتے جا ؤ۔۔

بات اس نہتی لڑکی کی ہو رہی تھی۔۔جسے آج کی ایک نہتی لڑکی (لڑکی کی” نئی تعریف” پوتے پوتیوں والی خاتون ہے)کے جیتے جاگتے والد محترم نے سیاسی مخالفت میں تضحیک، تذلیل اور توہین کا نشانہ بنایا تھا ۔بے نظیر کو یہودی لابی اور بھارت، امریکہ کا ایجنٹ کہا گیا، اور یہ تاثر دیا گیا کہ انہیں حکومت ملنے کا مطلب ملک کے دفاع پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔اس کے علاوہ بھی جس طرح بے نظیر کی کردار کشی کی گئی، کس کم بخت کو نہیں پتہ ہوگا؟

بیٹی کی حرمت، اور ان کی غلطیوں کا پردہ رکھنے کا فرمان جاری کرنے والے آج کے” بے بس” کل کے انہی لغویات کے “موجد “تھے۔
میں ذرا اولڈ سکول آف تھاٹ کی ہوں، مجھے مکافات عمل یا کارما پر اندھا دھند یقین ہے۔۔ آج آپ کی وہ بیٹی اپنے آپ کو خود ہی نہتی لڑکی کہہ رہی ہے حالانکہ نہ تو وہ لڑکی (پہلے وضاحت ہو چکی ہے اور نہ نہتی۔۔ وہ ادبی اور سیاسی دونوں طرح سے اسلحہ سے لیس ہے)۔۔۔ کیسے؟ میں بتاتی ہوں۔پہلے ادبی طور پر اس لفظ کا پوسٹ مارٹم کر لیتے ہیں۔۔ اور ادب بھی انگریزی اور انگریزی میں بھی کلاسیکل۔۔الیگزینڈر پوپ کی موک ایپیک” دی ریپ آف دی لاک” کا 1712 کوپہلا اور1717کو ایڈیڈ ورژن منظر عام پر آیا۔یہ ایک حقیقی شاہی گھرانوں کی لڑائی کا حال تھا جسے پوپ نے اپنے دوست جان کیریل کے کہنے پر، ایک لمبی نظم، ایپیک، کو مزاحیہ انداز میں بیان کر کے دونوں گھرانوں کے درمیان تلخی کم کرنے کی کوشش کی تھی، جو ناکام رہی۔گو کہ نظم کو عالمگیر شہرت اور ادب میں نمایاں اور منفرد مقام ملا گیا۔

اس طویل نظم میں جو ہیروئن بلینڈا ہے، وہ اس شاہی اور کھوکھلے پن کی تصویر ہے جو ہمیں سترہویں اور اٹھارہویں صدی کی انگلش سوسائٹی اور آج کے پاکستان میں نظر آتا ہے۔ وہ کھوکھلا پن،خود پرستی،خود نمائی اور منافقت، جس کی مماثلت ہم آج کے امرء اور شرفا ء میں دیکھ سکتے ہیں۔ جھوٹا غرور اور جھوٹی شان۔۔۔ بلینڈا جب آئینے کے آگے کھڑی ہو کر تیار ہو تی ہے تو اس کے ڈریسنگ ٹیبل کا جو نقشہ، پوپ نے اپنی لفاظی سے کھینچا، اس میں جھلکتا ہے ۔

اس نظم میں شاعر مزاحیہ انداز سے یہی سمجھا رہا ہے کہ عورت جب میک اپ سے لیس ہو جاتی ہے تو وہ نہتی نہیں رہتی۔۔ تب جنگ کی تیاری، آج جلسے کی تیاری،(کہاں کہاں مماثلت نہ ملے گی)۔۔ بلینڈا آئینے کے سامنے کھڑی پلاننگ کر رہی ہے کب چہرے پر بلش لانا ہے،کب مسکرانا ہے، کب روزی چیکز کرنی ہیں،کب نظر جھکانی ہے اور کہاں بال جھٹکنے ہیں اور کہاں ابرو کو اٹھا کے نظر کو نشیلا کر کے سامنے والے کو تکنا ہے۔ یہ سب تیاری اس فنکشن میں جانے کی ہے جہاں تاش کی بازیاں لگتی ہیں۔۔سُپر نیچرل مشینری اس کی پاسبان ہے۔۔ ڈریسنگ ٹیبل، جیولری، پرفیوم، کاسمیٹکس سے بھرا پڑا ہے۔ بلینڈا کو خوبصورت گاؤن پہنایا گیا ہے اور بال سنوارنے کے لئے خادمائیں کھڑی ہیں۔۔۔

(بلینڈا کی تیاری پڑھتے پڑھتے اگر مجھے ایک واقعہ یاد آجائے تو میں آپ لوگوں کے ساتھ شئیر کر سکتی ہوں۔۔ حال ہی میں، پاکستان سے لوٹے، میرے بھائی، نے مجھے ایک سوٹ تحفہ دیا اور مجھے اس سوٹ کی قدر کروانے کی کوشش میں جتلایا کہ یہ 36000روپے کا ہے، میں ظاہر ہے حیران ہوئی۔۔ایسا کیا؟ جواب تھا:ڈیزائنر کا ہے اور وہ بھی وہ والی جس کی ہر لاٹ پہلے مریم نواز کے پاس جاتی ہے، انہیں جو سوٹ پسند آتے ہیں، وہ رکھ کر باقی عام خلقت کے لئے کھول دئیے جاتے ہیں۔۔ اور عام خلقت بھی کوئی عام والی نہیں)۔

سترہویں صدی کی انگلش سوسائٹی کی وہ وینیٹی، جہاں کافی پینے سے انسان کی دانش کا اندازہ لگایا جاتا تھا،پاکستانی سوسائٹی میں آج بھی فخر سے سر اٹھائے  کھڑی ہے۔اگرچہ پرانی صدی میں خوبصورتی کو میک اپ سے ہی اجاگر کیا جاتا تھا اب تو ہزار قسم کے لیزر ز سے نہ صرف خوبصورتی کو اجاگر کیا جاتا ہے بلکہ خوبصورت نہ بھی ہو تو بنایا جاتا ہے، خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جوانی کو بھی خدا کی رسی کی طرح مضبوطی سے تھام کر رکھنے کے لئے سو قسم کی مشینیں منہ پر چلوا لی جاتی ہیں۔۔۔ یعنی کہ پرانے وقتوں کی نسبت لڑائی، سخت اور اسلحہ جدید ہو چکا ہے۔۔ سو اس ادبی حوالے سے ثابت ہوا کہ لڑکیاں کبھی نہتی نہیں ہو تیں۔۔جب سب ملازمائیں اور خدائی فوجدار،بلینڈا کو تیار کروا کے کارڈ یا اومبر گیم کے لئے روانہ کرتے ہیں تو ایک ہوائی مخلوق، اس کے کان میں کہتی ہے کہ دھیان سے رہنا آج کچھ گڑ بڑ ہو سکتی ہے۔۔وہی ہوا، بلینڈا سے تاش کی بازی ہارنے والے لارڈ پیٹر نے انتقاماً  پیچھے سے اس کی بالوں کی ایک لٹ چپکے سے کاٹ لی۔۔۔ ہنگامہ بپا ہو گیا۔۔ اوراس کے ساتھ ہی دو جماعتیں آمنے سامنے آکھڑی ہو گئیں، ایک بلینڈا کے ہمدرد اور دوسرے لارڈ کے۔۔ لڑائی کا منظر۔۔ قابل ِ مطالعہ ہے۔لڑائی کے لئے خواتین (لڑکیوں) کو کسی ہتھیار کی ضرورت نہ تھی، ان کے ہتھیار، ان کی نظریں اور ادائیں تھیں۔۔ غصے سے دیکھتیں تو سامنے والے پھڑک کر مر جاتے، تھوڑا مسکرا کر دیکھتیں تو مرتے مرتے پھر سے جی اٹھتے، بھنوئیں اٹھاتیں تو تڑپ اٹھتے، جھکاتیں تو پُرسکون ہو جاتے۔۔ بالوں کی پن گر جاتی اور لٹ کھل جاتی تو تباہ ہو جاتے، بندھے رہتے تو شاد آباد رہتے۔۔ جگتوں اور گانوں سے بھی مار دیا جاتا تھا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزاحیہ انداز سے لکھی گئی یہ ایپک اس زمانے کی انگلش سوسائٹی کی منافقت اور کھوکھلے پن کا تو پردہ چاک کرتی ہی ہے، آج کی نہتی لڑکی کا مفہوم بھی خوب سمجھاتی ہے۔۔۔ اوور لوڈڈ میک اپ  زدہ خاتون اوور لوڈڈ گن کی طرح ہے اسے نہتا کہنا، ان نہتی لڑکیوں کے ساتھ  زیادتی ہے جو حقیقت میں نہتی ہیں۔۔۔لڑکی کا نیا مفہوم بچوں کی نانی تو ہوسکتا ہے مگر نہتی کا مفہوم نہتی ہی رہنے دیا جائے۔۔ دانش پر اتنا بوجھ ڈالا تو کافی کی جگہ لسی پینے والوں کو بھی دانشور مانا جانے لگے گا۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نہتی لڑکی۔۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply