لو جی دانشور بن گیا میں بھی۔۔۔۔منیب پاکستانی

تو بات کچھ ایسے ہے کہ کشمیر کا ایشو   آج کل بڑے شوق سے ،درد سے اور خوف۔۔الغرض نفرت سے بھی موضوع بنا ہوا ہے ۔
مختلف قسم کے دانشور مختلف قسم کے قاری ،مختلف آراء پیش کر رہے ہیں ۔کچھ تو ایسے سادہ بھی ہیں جن کو یہ ہی نہیں پتہ کشمیر کا اصل مسئلہ کب شروع ہوا تھا اور وہ بھی پاکستان کے خلاف اپنی زبان کو زحمت دے رہے ہیں ۔اور کچھ ایسے 45 فیصد دماغ والے ہیں جن کو بس یہ ہی پتہ ہے پاکستان نے غلط کیا، مطالعہ پاکستان غلط ہے، ان دو جملوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔۔کچھ ایک دو دن اچھلتے ہیں،پھر انکی آنکھ کھل جاتی ہے ۔
کچھ سادہ سے ہیں، جو بولنے سے پہلے سوچتے ہیں، کہیں کچھ ایسا نہ بول دے،جس سے  ملک کی بد نامی ہو،اور کچھ ایسے ہیں جو حق   سچ کی بات کرتے ہیں ۔

موضوع ہے کشمیر پر مودی کا وار ۔۔۔ اجیت دوول کی ڈاکٹرئن۔
اجیت دوول کی مودی کی نظر میں وہی حیثیت ہے جو ایک جمائی کی اپنے سسرال میں ہوتی ہے ،اور پاکستان کی نظر میں ایسے ہے جیسے بہو، ساس کی نظر میں ۔خیر کچھ 45 فیصد والوں کا کہنا ہے کہ ملک کو بیچا جا رہا ہے ، تبھی کشمیر پر خاموشی ہے،حالانکہ حکومت کچھ نہ کچھ تو کر رہی ہے لیکن ان کو وہ نظر نہیں آتا ۔
بات ایسے ہی سمجھ لیں  جیسے کبوتر کو بلی نظر نہیں آتی ۔۔کچھ کو لگ رہا ہوگا کہ میری تحریر بچگانہ ہے۔اور کچھ کے  نزدیک ایک منفرد انداز ِ بیان ہوگا۔

پاکستان کے پاس آپشن کیا ہیں ۔
امریکہ پاکستان کی مدد کیوں کرے،
روس کہاں کھڑا ہے۔
چائنہ کیا کر سکتا ہے ۔
اقوام متحدہ کیوں  ٹھنڈائی پی کر سوئی ہوئی ہے ۔
انڈیا اب کیا کچھ کر سکتا ہے ۔
اور سب سے اہم ۔۔ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں ۔
کیا کشمیر کو بیچ دیا گیا ہے ۔

اقوام متحدہ کے ضمیر کو خواب غفلت سے بیدار کیا جائے ۔
امریکہ کے ساتھ دو ٹوک بات کی جائے ۔
اب سوال  یہ پیدا   ہوتا ہے کہ یہ آپشن تو پہلی حکومتوں کے پاس بھی تھا۔ وہ بھی عمل کرتی تھیں۔ ۔ نیا کیا ہے؟
نیا یہ ہے کہ امریکہ کو اب پاکستان کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے شادی میں نکاح کے لیے مولوی کی۔ ہمارے بغیر طالبان اور امریکہ کے درمیان رشتہ نہیں بن سکتا ۔ اخےےے ہم نے تو افغانستان کو تباہ کیا تھا دانشور بولیں گے تو ہم کیوں بچا رہے ہیں ۔ سادہ  سے جواب بِلو سانڈے (فنی قیدی) والے انداز میں کہ “شوق ہے ہمارا بس” اخےےے ہم افغانستان کی مدد ہی تو کرنے جارہے ہیں دانشوروں خوش ہونا چاہیے کہ ہمیں کوئی ویلیو دے کر بلا رہا ہے ۔ اور ہم اس میں بھی خامیاں تلاش کرتے ہیں ۔
اب دوسرا نقطہ کہ اقوام متحدہ کیسے جاگے گی۔ اس کے لیے ہمیں اب چائنہ کی ضرورت ہے،چائنہ کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہیں اور کشمیر سے صرف پاکستان کو ہی فائدہ نہیں بلکہ چائنہ کو بھی ہے ۔ہم چائنہ امریکہ کی مدد سے اقوام متحدہ کے کان پکڑ کر قریب کریں اور سب باتوں سے آشنا کریں ۔
خیر میں شاید دیوانوں  کے خواب دیکھ رہا ہوں لیکن ناممکن خود ہی تو کہتا ہے کہ  بھئی میں تو ممکن ہو ں ۔
بھائی سادہ  سی بات ہے ،ہمیں اب دیگر ملکوں کو اپنا مرید بنانا ہے۔ اور شاہ جی کو تو یہ طریقہ پیدا ہوتے ہی سکھا دیا گیا تھا ۔اب ہمیں روس کی طرف دیکھنا ہے کہ وہ کس طرف دیکھ رہا ہے ۔
حالیہ بیان سے تو روس انڈیا کی سپورٹ میں لگ رہا ہے ۔ لیکن عالمی دنیا کے یہ شاہکار کسی ایک کے نہیں ہوتے ۔ بقول ایک دکھی دانشور کے کہ یہ ” وہاں بھی ہوتے ہیں جہاں کوئی نہیں ہوتا” جہاں انکا مفاد ہو وہاں یہ زبان باہر نکال آتے ہیں ۔اب بس ہمیں ایسا کرنا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تھنک ٹینک کو سوچنا ہوگا کہ ہم روس کس طرح سے راضی کر سکتے ہیں اور کس طرح سے امریکہ کے ساتھ بھی بنی رہے اور ہم یہ پہلے بھی کر چکے ہیں مشکل نہیں کام، بس مخلص پن چاہیے ۔
اب تیسرا مین کام کریں ۔ اجیت دوول والا کہ خالصتان کے ریفرنڈم 2020 کو سپورٹ کریں ۔ ہم انکو سپورٹ نہ بھی کریں تو الزام پاک پر ہی آنا ہے جب الزام آنا ہی  ہے تو پھر بدنامی کا ڈر کیسا ۔ یہ مجھ سے بہتر تھنک ٹینک جانتا ہوگا کہ اسکو کونسا پتہ کہاں استعمال کرنا ہے ۔ بس وہ پتے استعمال ضرور کرے کہیں وہ سوکھ نہ جائیں ۔ مقابلے میں انڈیا بلوچستان اور گلگت میں وار کرے گا اور ہمیں بس اپنا اب دفاع کرنا ہے ۔ جتنا نقصان ہونا تھا وہ ہم کروا چکے ہیں ۔ اب باری ہے نقصان کے ازالے کی۔ حکومت سے یہ ہی گزارش ہے کہ یہ قوم تو بڑے بڑے سانحے ہفتے دو ہفتے میں بھول جاتی ہے خدارا تم مت بھولنا ۔ ورنہ کسی نے الیکشن کے دنوں میں یاد کروایا نا  تو شریفوں جیسا حال کرے گی یہ عوام ،پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی ۔مودی اس فیصلے کے بعد بیک فٹ پر ہے تبھی کہتا ہے کہ پاکستان کو تعلقات بحال کرنے چاہئیں۔
بس ہمیں اب فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنا ہے ۔ ہمیں مہذب معاشرے کی مہذب عوام کو بھی بیدار کرنا ہے ۔ عوام بیدار ہوگئی تو حکومتیں خود بخود بیدار ہوجاتی ہیں ۔
سعودیہ پلس ایران کے ساتھ تعلقات کو بھی چیک کرنا پڑے گا کہ یہ ویسے تو اُمہ اُمہ کرتے نہیں تھکتے ۔ جب بات اکٹھے ہونے کی آئے یہ یزید کی گود (انڈیا) میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں ۔
جب پاکستان کچھ کردے تو دانشوروں کو اُمہ اسلام۔سیاست کے اصول یاد آتے ہیں
ہمیں اب دشمن کو جواب دشمن کی زبان میں دینا ہے ۔
تاریخ یا تو عمران خان لکھے گی یا پھر نیازی 2 لکھ کر قلم توڑ دے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply