مذہب اور اخلاقیات۔۔۔۔سعید ابراہیم

عمومی طور پر یہ دعویٰ بڑے ہی الہامی تیقن سے کیا جاتا ہے کہ اخلاقیات مذہب کی دین ہیں۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو یہ دعویٰ بڑے ہی دلچسپ مگر سنجیدہ اعتراضات کی زد میں آجاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ یہ دعویٰ ایسے افراد کی جانب سے کیا جاتا ہے جو صرف اسلام کو ہی درست اور حقیقی مذہب مانتے ہیں۔ ان کے تئیں اگرچہ یہودیت اور عیسائیت بھی الہامی مذاہب ہی ہیں مگر اسلام کی آمد نے انہیں منسوخ کردیا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ ان تین الہامی مذاہب کے علاوہ باقی سب مذاہب ناقص اور ناکارہ ہی نہیں بلکہ سراسر کفر اور شرک کے منبع بھی ہیں۔ سو اب لے دے کے اسلام ہی رہ جاتا ہے جو بہترین اخلاقیات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جہاں تک اولین الہامی مذہب یعنی یہودیت کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ سواتین ہزار سال سے پیچھے نہیں جاتی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک حمورابی نام کا بادشاہ بھی ہوگزرا تھا جسے دنیا کا پہلا قانون اور آئین ساز تسلیم کیا جاتا ہے۔ حمورابی کا مذہب سورج پرستی تھا۔ اس دور کی ایک پتھر کی سلیب بھی دریافت ہوئی جس پر کھدے ہوئے منظر میں دکھایا گیا ہے کہ وہ سورج دیوتا سے ضابطہء قانون وصول کررہا ہے۔ گویا حمورابی کا خدا وہ نہیں تھا جسے آج کے الہامی مذاہب کے حامل لوگ خدا مانتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اولین الہامی قوانین جو حضرت موسیٰ کو ملے وہ بھی پتھروں کی سلوں پر ہی کندہ تھے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ موسیٰ کے مقابلے میں حمورابی اور اس کے قوانین کو حقیقی ماننے کے شواہد کہیں زیادہ مضبوط بلکہ ناقابلِ تردید حیثیت رکھتے ہیں۔ سائنسی اصولوں کی بنیاد پر دیکھا جائے تو حمورابی کے مقابلے میں حضرت موسیٰ کی شخصیت افسانوی دکھائی دیتی ہے تاوقتیکہ اس کے سائنسی شواہد پیش نہ کیا جائیں۔
اب اگر مذہب کو اخلاقیات کی ماں تسلیم کر بھی لیا جائے تو ہمیں ماننا ہوگا کہ مذہب اپنی ابتدا میں وحدانیت پرستی کا حامل نہیں تھا جبکہ اہلِ اسلام اسی بنیاد پر ناصرف غیر الہامی بلکہ یہودیت اور عیسائی مذاہب کو بھی درست اور  آتھینٹک  تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر ان کی یہ دلیل بھی تسلیم کرلی جائے کہ اپنی ابتدا میں یہ دونوں مذاہب حقیقی معنوں میں وحدانیت پرست تھے تو تب بھی ان کی تاریخ سوا تین ہزار برس سے پیچھے نہیں جاتی۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اخلاقیات اور انسانی سماج لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ سو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اخلاقیات کی ابتدا اسی وقت ہوگئی تھی جب انسان نے اولین سماج کی صورت گری کرلی تھی۔غور کریں تو سماجی ضابطوں کی کچھ شکلیں تو ہمیں بن مانسوں کے ہاں بھی مل جائیں گی جبکہ ان کا کسی الہام سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اخلاقیات کی طرح مذہب بھی ایک سماجی پراڈکٹ تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی صورتیں بدلتا چلا گیا۔ جہاں تک وحدانیت کے تصور کا تعلق ہے ،اسے مذہب کے ارتقاء کی بہت بعد میں آنے والی سٹیج مانے بنا کوئی چارہ نہیں۔غور کیجیے تو صرف ڈیڑھ صدی پہلے آنے والا مذہب اسلام ہی ہے جس کے ماننے والے خالص وحدانیت پرست ہونے کے دعویدار ہیں جبکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کا ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو اپنے سوا دوسرے تمام فرقوں کو خالص وحدانیت پرست نہیں مانتا۔

اگر اس دعوے کو درست مان بھی لیا جائے کہ مذہب ہی اخلاقیات کی ماں ہے اور خاص طور پر وحدانیت پرست مذہب تو اس کا عملی ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی اس دعوے پر مُصر لوگوں کے سر ہی آتی ہے۔ مگر افسوس کہ وہ اسے ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب صورتحال یہ ہے کہ نشاَۃ ثانیہ کے پراسیس میں مغرب نے مذہب کو اجتماعی زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیا ہے۔حقائق بتاتے ہیں کہ مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے بعد ہی وہاں ایسے اخلاقی ضابطے اور قوانین وجود میں آئے جن کی خود اہلِ مذہب بھی تحسین کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ وہ معاشرے جو مذہب کو سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں ان کی حالت انتہائی دگرگوں اور شرمندہ کُن ہے۔مذہبی اور غیرمذہبی معاشروں کا یہ فرق خیالی، کتابی یا کلامی نہیں بلکہ چمکتے آفتاب کی طرح حقیقی ہے۔ اس واضح فرق کے باوجود بھی اگر کسی کو مذہب اور اخلاقیات کو لازم و ملزوم کہنے یا ماننے سے تسکین ملتی ہے تو اس کی مرضی مگر یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ حقائق سے روگردانی پر مبنی اس کا تیقن سماج بلکہ خود اس کی اپنی ذات کے بھی کسی کام نہیں آنے والا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply