یوم سیاہ بلیک ڈے ۔۔۔ مہر ساجد شاد

یوم سیاہ کیا ہے اور یہ کب شروع ہوا ؟
ہم آج جس یوم سیاہ کو جانتے ہیں اور منا رہے ہیں وہ یوم افسوس یوم دکھ سے آے بڑھ کر یوم احتجاج ہے،
یقینا کسی بھی غلط کام پر ظلم و زیادتی پر احتجاج اس غلطی ظلم زیادتی کی درستگی اور اصلاح کیلئے پرامن راستہ ہے، یہ احتجاج ہی دوسرے لوگوں کو اس مسلۂ کی جانب متوجہ کرتا ہے۔
اس یوم سیاہ کو زیادہ سے زیادہ پر اثر بنانے کیلئے کیا کرنا چاہیے اس پر بات بعد میں کرتے ہیں ابھی یوم سیاہ کی تاریخ جان لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایشیائی اقوام میں بڑی انفرادیت ہے کئی کام یہ دنیا سے بالکل الٹ ہو کر کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں محبت کا تہوار ویلنٹائین ڈے ۱۴ فروری کو منایا جاتا ہے اور سب لوگ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے ہیں لیکن جنوبی کوریا، جاپان، ویت نام، تائیوان اور چین میں ویلٹائن ڈے پر تحفے دینے کی زمہ داری خواتین پر ہوتی ہے پھر ٹھیک ایک ماہ بعد۱۴ مارچ کو یوم سفید وائٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ اس دن تحفے اور چاکلیٹ دینے کی ذمہ داری اُن مردوں کی ہوتی ہے۔
یوم سفیدوائٹ ڈے کے ایک ماہ بعد یعنی 14اپریل کو بھی ایک تہوار بلیک ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے۔ بلیک ڈے جنوبی کوریا میں غیر سرکاری تہوار کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اس دن ایسے تمام کنوارے جنہیں ویلنٹائن ڈے یا وائٹ ڈے پر تحفہ نہ ملا ہو جمع ہوتے ہیں۔ یہ کنوارے سیاہ رنگ کی ایک مخصوص ڈش جسے Jajangmyeon کھاتے ہیں۔ بس یہی بلیک ڈے یوم افسوس تھا جو دنیا میں منایا جاتا تھا،
پھر ۲۴ فروری ۱۸۸۷ کا دن آیا اور یہ دن بلیک ڈے کے نام سے یوم افسوس بن گیا اس دن ہنگامے مار کٹائی ہوئی لیکن کسی کی جان نہیں گئی، اس دن انڈیانا کے گورنر کو امریکی سینٹ کا رکن مقرر کر دیا گیا اور اس وقت اسمبلی میں ہنگامے پھوٹ پڑے جب وہاں کی جنرل اسمبلی کے ممبران نے اس مقرر کئے گئے سینٹر کو وہاں نشست دینے سے انکار کر دیا حالانکہ اس کا حکم اس وقت وہاں کی سپریم کورٹ نے دیا تھا، ان ہنگاموں کا انجام اس قانون سازی پر ہوا کہ کوئی سینٹر مقرر نہیں کیا جاسکتا صرف پاپولر ووٹ سے منتخب ہو کر آئے گا۔
آج یوم سیاہ منانے کا مقصد دراصل دنیا کی توجہ اس ظلم کی طرف مبذول کروانا ہے جو بھارت اپنی آٹھ لاکھ فوج کے زریعے مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے،
آج کے دن ہمیں تین کام کرنا چاہئیں
اوّل : ہر سطح ہر فورم اور ہر لحاظ سے متحد ہو کر کشمیر سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے اور واضع پیغام دیا جائے کہ اس مسلۂ پر پوری قوم ایک ہی موقف رکھتی ہے۔
دوم: حکومتی،ادارہ جاتی اور انفرادی سطح پر ریاستی قومی بیانیہ اپنے بین الاقوامی روابط کو، دوستوں کاروباری اور دیگر امور کے باعث منسلک دوسرے ممالک کے لوگوں کو پہنچایا جائے اس کیلئے تمام دستیاب ٹیکنالوجی کے وسائل کو استعمال کیا جائے۔
سوم: اپنے انفرادی دائروں میں بچوں اور نوجوانوں کو مسلۂ کشمیر کی تاریخ اور مسائل سے اگاہ کیا جائے انکو اس مسلۂ کی اہمیت کا ادراک کروایا جائے۔
جو کام ہمیں کسی بھی احتجاج کے دوران نہیں کرنے چاہئیں ان میں سرفہرست اپنی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا ہے، کسی بھی صورت کوئی جلاؤ گھیراو قابل قبول احتجاج نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply