• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہالی وڈ کے مایہ ناز اداکار مارلن برانڈو اور ان کا پاکستان میں قیام ۔۔۔۔احمد سہیل

ہالی وڈ کے مایہ ناز اداکار مارلن برانڈو اور ان کا پاکستان میں قیام ۔۔۔۔احمد سہیل

 مارلن برانڈو (Marlon Brando, Jr) بلا شبہ امریکن سینما اور تھیٹر کے ایک بڑے اداکار ہیں ۔ شاید ایسی شہرت صرف لارنس الیور کو ملی انھوں نے 1944 میں براڈوے کے اسٹیج سے اداکاری کی شروعات کی۔۔ اس زمانے میں ان کی اداکاری پر شدید تنقید کی گئی۔ انھوں نے پچاس   سال ہالی وڈ پر حکومت کی ہے۔ یہی نہیں چوبیس  سال کی عمر سے ہی  ذریعہ  ابلاغ نے ان کو اہمت دی ۔ ان کی شہرت امریکی  ڈرامہ نگار ٹینسی ولیم کے ڈرامے A Streetcar Named Desire (1951), پر بننے والی فلم سے ہوئی۔ مارلن برانڈوکی کی ولادت 3، اپریل 1924 میں اکلوہوما کے شہر ” اوماہا” میں ہوئی۔ ان کے والد مارلن برانڈو سینئر کیلشیم کاربونیٹ کے فروخت کار تھے۔ ان کے والدین  شراب نوشی اور نشے کی عادت میں مبتلا تھے۔ مارلن برانڈو نے تین شادیاں کیں، ان کی پہلی بیوی کانام ٹرینا، دوسری کا نام موریٹا، اور تیسری بیوی کا نام انا کاشفی ( پیدائش کولکتہ، بھارت) تھا۔ ان سب کو طلاقیں ہوئیں ۔ اپریل 2002 میں ایک 43 سالہ خاتون کرسٹیان روئس نے مالن برانڈو کے خلاف کیلے فورینا کی عدالت میں 100 ملین ڈالر کا مقدمہ دائر کیا ۔ کرسیٹا روئس کا کہنا تھا کہ ” انکے چودہ  سال تک مارلن بانڈو سے رومانی اور جنسی تعلقات رہے ہیں۔ جن سے ان کی  تین اولادیں بھی ہیں۔ 2003 میں یہ مقدمہ طے پا گیا اور برانڈو نے یہ پیسے ادا کردیے۔ ایمپریل میگزین کی 1995 کی اشاعت میں 100 امریکن سیکسی مردوں کی فہرست میں مارلن برانڈو کا نام بھی شامل رہا۔ ان کے دوست احباب ان کو ” بڈ” (“Bud) اور ” ممبلز (MUMBLES) کہتے تھے یعنی یہ ان کے NICK NAMES تھے ۔ 1972 میں ایک مافیا ناول ” گارڈ  فادر پر بنائی ہوئی فلم پر مالن برانڈو نے بہترین  اداکاری کی اور ان کی شہرت بلندیوں تک پہنچ گئی۔ انہوں نے  امریکہ کی سیاہ فام شہری آزادی کی تحریک میں بڑھ  چڑھ  کر حصہ لیا۔ اور سیاہ فام انتہاپسند تحریک کی مالی مدد بھی کرتے رہے۔ان کی ہمدردیاں اسرائیل کی جانب بھی رہیں، انھوں نے یہودی سیاسی پالیمنٹری گروپ “ارگن” (IRGUN) کو مالی عطیات دیے۔ مگر بعد میں وہ فلسطینی کاز کے حامی ہوگئے تھے۔

پاکستان میں کم ہی کسی کو یاد ہو گا کہ 54  برس قبل ایک مرتبہ مارلن برانڈو پاکستان بھی آئے تھے۔ آئیے یہ قصہ پیرزادہ سلیمان کی زبانی سنتے ہیں:

“ہم میں سے کتنے افراد جانتے ہیں کہ ایک شخص جو کہ اسٹیج اور کیمرے کے سامنے ظالمانہ حد تک حقیقت پسندی کی بدولت ہولی وڈ کے متعدد عظیم اداکاروں کے لیے مثال تھا یعنی بے مثال مارلن برانڈو، نے کبھی کراچی کا بھی دورہ کیا تھا؟ یقیناً بہت زیادہ افراد اس بات سے واقف نہیں، مگر وہ 1965 میں یہاں آئے تھے، یہ ان کی زندگی کا ایسا مرحلہ تھا جو کہ باکس آفس پر کامیابی کی اصطلاح میں کافی کمزور دور کہا جا سکتا ہے۔

مارلن اکیس مارچ 1965 کو بیروت سے کراچی پہنچے۔ اس حقیقت کے برعکس کہ وہ ایک ‘مشکل’ شخص تھے جن پر اکثر ‘خودپسندی’ کا الزام عائد کیا جاتا ہے، انہوں نے یہاں ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں کئی قلمکاروں سے ملاقاتیں کیں۔

22 مارچ کو شائع ہونے والا ان کا انٹرویو کافی دلچسپ تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ مارلن برانڈو نے اپنے جوابات کو شوخی کے تسمے میں باندھا تھا جو کہ انٹرویو کرنے والے میں گم ہوگئے جبکہ کچھ سنجیدہ اظہار رائے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والے فنکار ہیں۔

مارلن کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان میں ایک فلم بنانے کا ارادہ ہے جو کہ ایک ناول پر مبنی ہوگی جسے ابھی انہوں نے پڑھا نہیں، جس کی ہدایات ناقدین کے سامنے خود کو منوانے والے جون ہسٹن اور کو اسٹار رچرڈ برٹن ہوں گے، جبکہ فلم کی شوٹنگ پشاور اور لاہور میں ہو گی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ فلم میں کیا کردار ادا کریں گے تو ان کا جواب حسب توقع تھا ” میں بادشاہ کا کردار ادا کروں گا”۔

جب انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا کہ اس پراجیکٹ میں ہیروئین کا کردار کون نبھائے گا تو دو بار آسکر جیتنے والے اداکار کا جواب تھا ” ہوسکتا ہے کہ وہ خاتون آپ ہی ہوں”۔

کراچی میں مارلن نے قائداعظم کے مزار کا دورہ کیا اور اسے ‘ مسحور کن عمارت’ قرار دیا۔ مارلن کو کراچی شہر ‘نشاط انگیز’ لگا اور تبصرہ کیا ” کراچی کے عوام مختلف قسم کے ہیں، ان کی بات چیت اور لباس پہننے کا انداز مختلف ہے، خواتین برقعہ اوڑھتی ہیں اور اپنے چہرے چھپاتی ہیں جبکہ مرد شرٹوں کو اپنی پتلونوں سے باہر نکال کر رکھتے ہیں”۔

مارلن برانڈو نے ’دی وائلڈ ون‘ ’ سٹریٹ کار نیمڈ زائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ جیسی شہرہ آفاق فلموں میں بھی کام کیا۔

ان کو 2001 میں بننے والی فلم ’دی اسکور‘ میں ایڈورڈ نارٹن اور رابرٹ ڈی نیرو کے ساتھ کام کرنے پر تیس لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یکم جولائی 2004 کو ویسٹ وڈ ، کیلی فورنیا میں 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال نظام تنفس( Respiratory failure) کی ناکامیابی کے سبب ہوا ۔ مارلن برانڈو سے میری یہ ملاقات مادام تساؤ کےمومی عجائب خانے ، ہالی وڈ  کیلے فورنیا میں ہوئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply