اصغر سودائی: جنھیں ہم بھولتے جارہے ہیں۔۔۔احمد سہیل

پروفیسر اصغر سودائی  کا اصل نام محمد اصغر تھا ۔ لازوال نعرۂ پاکستان، “پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہٰ الا اللہ” کے خالق، ماہرِ تعلیم اور شاعر جو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔  17 ستمبر 1926 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ 18 مئی 2008ء کو سیالکوٹ میں عارضہ قلب کے سبب وفات پا گئےاور وہیں پیوند زمین ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد دین اپل جبکہ والدہ کا نام اللہ رکھی تھا۔۔۔ وہ ادیب شاعر اور ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ افسانہ نگار بھی تھے۔ دوران تعلیم اسلامیہ کالج لاہور میں بھی اصغر سودائی نے پاکستان کے لئے نمایاں کام کیا۔ اسلامیہ کالج ان دنوں تحریک پاکستان کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ اسلامیہ کالج کے جلسوں میں اصغر سودائی اپنے ولولہ انگیز کلام سے لوگوں کے دلوں کو گرماتے۔ انہیں حضرت قائد اعظم سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ تحریک پاکستان کے زمانہ عروج میں جب نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ مسلمان تضحیک کے انداز میں پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کیا ہے؟ تو آپ نے اس سوال کا جواب 1944ءمیں جبکہ آپ ایف اے کے طالب علم تھے، ”ترانہ پاکستان“ کی صورت میں دیا جس کو تمام اسلامیانِ  ہند نے خیبر سے لیکر راس کماری تک حرزِجاں بنا لیا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا، آپ اسلامیہ کالج، سیالکوٹ اور علامہ اقبال کالج، سیالکوٹ کے پرنسپل کے طور پر کام کرتے رہے اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزی کونسل کے رکن بھی رہے۔جب دوسری جنگ عظیم  کے دوران ہائے ہٹلرہائے ہٹلرکے نعرے بلند ہونے لگے تھے۔ اوپر سے’ پروفیسراصغر سودائی کے نعرے نے’ جلتی پر تیل کا کام کیا۔
آپ تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم رکن تھے اور مذکورہ نعرہ ان کی ایک نظم “ترانۂ پاکستان” کا ایک مصرع ہے اور اس مصرعے نے اتنی شہرت حاصل کی کہ تحریکِ پاکستان کے دوران یہ نعرہ اور تحریکِ پاکستان لازم و ملزوم ہو گئے اور یہ نعرہ ہر کسی کی زبان پر تھا اور آج بھی پاکستانی اس نعرے کو استعمال کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا۔۔۔
اٹھ وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ
ہادی و رہبر سرور دیں
صاحب علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں
احمد مرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟
لا الہ الا اللہ

تحریک پاکستان کے زمانہ عروج میں جب نیشنل کانگریس اور ان کے حواری نیشنلسٹ مسلمانوں سے تضحیک کے انداز میں پوچھا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا۔۔ تو اس کے جواب میں 1944 کی نظم سنا کر دیتے تھے۔
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح جب تحریکِ پاکستان کے دوران سیالکوٹ تشریف لائے تو انکا استقبال کرنے والوں میں اصغر سودائی پیش پیش تھے اور ان کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر ان کا جلوس نکالا۔
قائدِ اعظم خود بھی اصغر سودائی کے نعرے کی اہمیت کے قائل تھے اور ایک بار انہوں نے فرمایا تھا کہ “تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔” حامد میر نے اصغر سودائی کے حوالے سے یہ واقعہ درج کیا ہے ۔۔۔ “تقریب کے اختتام پر مجھے ایک بزرگ ملے۔ انہوں نے تعارف کروا کر کہا کہ وہ میرے دادا مرحوم کے شاگرد اور اصغر سودائی کے دوست ہیں اور کوئی ضروری بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں ہجوم میں گھرا ہوا تھا لیکن اس بزرگ کے ایک نوجوان پوتے نے مجھے ہجوم سے نکالا اور ایک کافی شاپ میں لے گیا۔ بزرگ کا نام خواجہ قیوم تھا۔ 1975ء میں امریکہ چلے آئے تھے۔ سان فرانسسکو میں کاروبار کرتے تھے۔ عالمِ  شباب میں اصغر سودائی کے ساتھ مل کر مشاعروں میں نظمیں پڑھا کرتے تھے اور میرے دادا عبدالعزیز میر سے اپنی نظموں اور غزلوں کی اصلاح کرایا کرتے تھے۔ خواجہ قیوم نے بتایا کہ وہ اور اصغر سودائی میرے دادا عبدالعزیز میر کے ہمراہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لاہور میں آل انڈیامسلم لیگ کے جلسوں میں شریک ہوتے اور پاکستان کے حق میں نظمیں سناتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد میرے دادا ا ور اصغر سودائی کی سیاسی سرگرمیاں ختم ہوگئیں لیکن خواجہ قیوم صاحب نے پہلے حسین شہید سہروردی اور پھر محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا۔ خواجہ صاحب نے بتایا کہ 1965ء میں انہوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا۔”

محمد وارث اپنے مضمون ” اصغر سودائی, سیالکوٹ” میری تحریریں, یاد رفتگاں میں رقم طراز ہیں۔”سیالکوٹ، علامہ اقبال چوک میں‌ ایک ریسٹورنٹ ہے، ایمیلیا ہوٹل، یہ یوں سمجھیں کہ لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کی طرز کا ریسٹورنٹ ہے کہ جہاں عموماً شعرا، صحافی اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات جمع ہوتے ہیں، مرحوم بھی اکثر وہاں آتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو تحریک پاکستان، قائد اعظم کے سیالکوٹ کے دورے اور اپنے مصرعے کے متعلق دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے اور اسی وجہ سے لوگ ان کو “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا” بھی کہتے تھے۔

میں یہ لکھنے میں انتہائی فخر محسوس کر رہا ہوں کہ سیالکوٹ کے علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، فیض احمد فیض کی طرح پروفیسر اصغر سودائی بھی سیالکوٹ کے ایک ایسے فرزند ہیں کہ سیالکوٹ ان کے نام پر ہمیشہ فخر کرے گا۔

مجھے اصغر سودائی صاحب سے چند بار ملنے کا شرف حاصل رہا ہے، شرافت اور سادگی کا مرقع تھے مرحوم، انتہائی شفقت اور پیار سے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے آخری ملاقات ان سے کچھ سال قبل ہوئی تھی، وہ سیالکوٹ کچہری سے اپنے گھر کی طرف پیدل جا رہے تھے، میں‌ نے ان کو سڑک پر دیکھا تو رُک گیا، بہت اصرار کیا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ آتا ہوں لیکن نہیں‌ مانے، فقط دعائیں دیتے رہے۔
مجھے ان سے شرفِ تلمیذ تو حاصل نہیں رہا کہ میری کالج کی زندگی سے بہت پہلے وہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے لیکن میں ایسے بزرگوں سے ضرور ملا ہوں جو ان کے شاگرد رہ چکے تھے، ان میں‌ سے ایک مغل صاحب تھے، ان کی قمیص کا سب سے اوپر والا بٹن ہمیشہ بند رہتا تھا، میں نے ایک دن پوچھ ہی لیا کہ یہ بٹن بھری گرمیوں میں بھی بند رکھتے ہیں، کہنے لگے یہ اصغر سودائی صاحب کی نشانی ہے کہ جب ہمیں‌ پڑھایا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ وضع داری کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کے سامنے تمام بٹن بند رکھے جائیں، موحوم خود بھی اس عادت کو نبھاتے رہے اور ان کے شاگرد بھی۔”

اصغر سودائی کا ایک شعری مجموعہ “چلن صبا کی طرح” زیادہ معروف نہیں مگر اس میں شامل شاعری کو پڑھ کر اس میں زمانی اور مکانی طور پر انسانی رویوں کا ادراک ہوتا ہے۔ جو وقت کی آواز تھی۔ ان کے ایک صاحب زادے  ہیں سلمان اُپل ،جو کہ کمپیوٹر ہارڈ وئیر ، سافٹ وئیر کے پیشے سے منسلک ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply