شمع جلائے رکھنی ہے۔۔۔عید اسپیشل/رمشاتبسم

اماں۔ ۔ ۔ اماں یہ کیا ہے ؟ سات سالہ احمد اپنی ماں کے سامنے بھاگتا ہوا آیا۔چولہے کا دھواں احمد کا چہرہ چھپا رہا تھا۔
احمد پیچھے ہو کوئی چنگاری تجھ پر پڑ جائے گی۔ احمد کی ماں نے روٹی توے پر ڈالتے ہوئے غصے سے کہا.۔
اماں یہ کیا ہے ؟ احمد نے کاغذ کا ٹکڑا ماں کی طرف بڑھایا۔
رضوانہ نے کاغذ پکڑا اور مٹھی میں دبا کر پھینک دیا۔احمد ماں کے چہرے پر غصہ دیکھ کر تذبذب کا شکار ہوا۔
“اماں یہ”۔ ۔ ۔ ۔
احمد جا ادھر سے روٹی بھی جلا دی تیری حرکتوں نے”۔ رضیہ غصے سے احمد کو دیکھتے ہوئے بول۔۔
“یہ ہماری پھوٹی قسمت کا نشان ہے۔اب سمجھ آ گئی۔۔جا اب جا کر باہر کھیل”۔
احمد دل مسوس کر باہر چلا گیا۔
“رضیہ کیوں بچے کو عید کے دن ڈانٹ رہی ہے”۔بشیر نے رضیہ کو مخاطب کیا۔
بشرے کیسی عید۔۔۔ بتا؟ کیسی عید ہم غریبوں کی، ہماری تو عید عام دنوں سے  زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔کیونکہ ہماری دیہاڑی مر رہی ہوتی ہے ۔کھانے کو آٹا بھی بہت کم ہے میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ آج رات کیا کھائیں  گے ہم؟ روز جو چار پیسے آتے ہیں ان سے بمشکل ہی ہم دو وقت سوکھی روٹی کھا پاتے ہیں۔آج وہ دیہاڑی بھی نہیں کیا کھلاؤں  میں تجھے اور تین بچوں کو” رضیہ کی آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔

بشیر نے لمبا سانس لیا۔اور بولا “جس اللہ نے پیدا کیا ہے روٹی بھی دے دے گا”۔

“ہاں ۔ ہاں۔معلوم ہے یہ لے روٹی کھا، جل گئی ہے”۔

“مجھے لگتا ہے بشیرے یہ چوتھا بچہ جو میری کوکھ میں ہے اس کو پیدا کرنا خود پر بھی اور اس پر بھی ظلم ہے۔ اماں جنت کہہ رہی تھی ابھی کچھ مہینے ہوئے ہیں حمل کو اس کو ہم ضائع کروا سکتے ہیں”۔
“رضیہ خدا کا خوف کھا کچھ “بشر کا نوالہ منہ تک جاتے جاتے،  رک گیا۔

“دیکھ بشیرے۔میں ماں ہوں۔میرے لئے بھی یہ فیصلہ مشکل ہے۔مگر تو بتا آگے تین بچے ہمارے بھٹہ مزدور ہیں۔نسل در نسل ہم یہی کام کرتے آ رہے ہیں۔ دن رات محنت کرتے ہیں پھر بھی آج تک غلامی سے نجات کا ذریعہ نہیں بنا۔ نہ ہی سکون کی روٹی ملی ہے۔ایک اور غلام پیدا کر کے کیا ملے گا؟۔اس دنیا میں ہمارا کوئی ہمدرد نہیں ہم کیڑے مکوڑوں کی طرح جی رہے ہیں عید ہے پر دیکھ ہمارے بچے ننگے سر ننگے پاؤں ،نہ انکی عید نہ ان کی کوئی خوشی”. رضیہ کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں۔

“رضیہ مگر۔۔” ۔۔بشر نے نم آنکھوں کو صاف کیا۔بات ادھوری چھوڑ کر , روٹی رکھ کر باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا جانی دیکھیں میں کیسی لگ رہی ہوں۔ننھی رباب سیڑھیوں سے بھاگتی ہوئی آئی۔۔
“ارے میری گڑیا آپ تو سب سے پیاری لگ رہی ہو”
ارحم نے بیٹی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر بانہیں پھیلا دیں۔
“عید مبارک بابا جانی” رباب ارحم کے گلے لگ گئی
ارحم نے رباب کا ماتھا چوما اور اسے عیدی میں کافی سارے نئے نوٹ دیے۔
“تایا ابو ہمیں بھی دیں”
“ماموں جان ہمیں بھی”
سب بچے بھاگ کر ارحم کی طرف آئے۔
ارحم نے سب سے عید ملی اور نئے نوٹ سب کو دیے۔سب بچے ہنسی خوشی بڑے حال سے باغ کی طرف چلے گئے۔جہاں جانور ذبح ہو رہے تھے۔
رباب کی پھوپھو , ممانی جان ,چچی اور ماما نے سب بچوں کو اندر بھیج دیا تاکہ خون سے کوئی بچہ ڈر نہ جائے۔
بچے اندر آ کر ٹی وی لگا کر بیٹھ گئے۔
ٹی۔وی پروگرام پر ہر طرف عیدِ قربان کا ذکر تھا۔
سب بچے شوق سے سن رہے تھے۔
ایک پروگرام میں بتایا جا رہا تھا کہ  عید قربان اور یوم آزادی تقریباً  ایک ساتھ ہی آ گئے ہیں۔لہذا خوشیوں میں  زیادہ سے  زیادہ غریبوں کو شریک کیا جائے تا کہ عید کے ساتھ ساتھ آزادی کا مزہ بھی دُگنا ہو جائے۔سب بچے بہت غور سے سن رہے تھے ۔
“ہم سب کو اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے تاکہ عیدِ قربان پر کوئی بھی خوشی سے محروم نہ رہ جائے۔ٹی۔وی پروگرام کے ہوسٹ نے الفاظ ادا کیے۔”

اپنے حصے کی شمع؟۔ ۔رباب نے دل میں فقرہ دہرایا اور سب کزن سے مخاطب ہوئی۔آپ سب کو معلوم ہے اپنے حصے کی شمع کیسے جلاتے ہیں؟
“ہاں۔اس میں کیا بڑی بات ہے۔سب اپنی اپنی موم بتی لے آؤ اور جلا لو”۔آٹھ سالہ احتشام بڑے فخر سے بولا
“نہیں ۔مگر اس شمع سے کسی غریب کو کیا فائدہ ہو گا۔یہ تو کچھ دیر تک بجھ جائے گی”۔رباب نے اداس دل سے کہا۔
“ایسا کرتے ہیں دادی جان سے پوچھتے ہیں”۔ معاذ نے ایک مشورہ دیا ۔اور سب کے چہرے خوشی سے چمک گئے۔سب بھاگ کر دادی کے کمرے میں آئے اور ساری بات دادی کے سامنے رکھ دی۔
دادی نے سب کو سامنے بٹھایا۔۔اور کہا،

“عیدِ قربان کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں قربانی کرنا۔اور اس کا گوشت صرف خود نہیں کھانا بلکہ غریبوں میں برابر بانٹنا،اور ہمیشہ جہاں تک ممکن ہو ہر کوئی دوسرے کے کام آ کر اسکی مدد کرے اور اپنے حصے کی شمع جلائے۔اس طرح ایک دن ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی۔اور چونکہ یوم آزادی بھی ہے تو ہمارا فرض دوگنا ہو جاتا ہے کہ  ہمارے پاس جو کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے اس سے دوسروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں۔ یوں سمجھو اگر کبھی آپ اپنا لنچ باکس کسی غریب بچے کو دے دو تا کہ اسکا پیٹ بھر جائے تو یہ آپ کی طرف سے ایک شمع جل جائے گی”۔
دادی جان کی بات ختم ہوئی،ہر بچے کے چہرے پر ایک چمک تھی سب کو ان کے سوال کا جواب مل چکا تھا۔رباب نے دادی جان کےکان میں کچھ کہا اور دادی جان نے اس کا ماتھا چوم کر ہاں میں سر ہلا دیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

رباب اب سارے بچوں کو لےکر بڑے حال میں جمع تھی۔رباب نے فون پر ایک میسج لکھا اور تمام دوستوں کو بھیج دیا۔
“گاڑیاں تیار ہیں”ڈرائیور نے آ کر کہا۔۔
سب بچے اپنا اپنا سامان اٹھا کر گاڑیوں کی طرف بھاگے۔۔ماں باپ بھی بچوں کے ہمراہ تھے۔
*************************
احمد چل اٹھ کر روٹی کھا لے۔دیکھ تیری وجہ سے میں نے بھی روٹی نہیں کھائی۔بشیر نے سڑک کنارے بیٹھے احمد کو آواز دی۔
“ابا مجھے بھوک نہیں”احمد کاغذ کا ٹکڑا پکڑے کھڑا تھا،
“احمد دیکھ تیری ماں پریشان ہے ،تو اسکی بات کا غصہ نہ کیا کر،دیکھ اب چل ورنہ تیری لاڈلی بہن بھی بھوکی بیٹھے رہے گی”۔
ابا۔۔ہماری کیا کوئی عید نہیں؟ہم تو دن رات کام کرتے ہیں پھر یہ بڑی گاڑیوں میں گزرنے والے اچھے کپڑے پہن کر تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ہم سے ملنا تو دور ہمیں دیکھتے بھی نہیں۔کیا خوشیاں صرف ٹھیکیدار جیسے امیروں اور انکے بچوں کی ہوتی ہیں”۔احمد نم آنکھوں سے سوال کر رہا تھا۔
“احمد ہم غریب ہیں ہماری دنیا ایسی ہی ہے۔یہ امیر لوگ ہیں ان کی دنیا رنگین ہوتی ہے،مگر میرا وعدہ ہے، اس بار میلے پر میں تجھے ضرور لے جاؤں گا”
بشیر نے آخری وار کیا جو ٹھکانے پر لگا اور احمد کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔
“میلہ ۔ہاں ابا پچھلی بار بھی تو نہیں لے کر گیا تھا،مگر اس بار ہم جائیں گے”۔۔احمد چیخ کر بولا،
احمد باپ کی انگلی تھامے بڑھ رہا تھا۔جب اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھا اور اس کو پیچھے کی طرف پھینک دیا۔
گاڑیوں کا شور بڑھ رہا تھا۔گاڑیاں رکی۔۔
کوئی باہر آ رہا تھا۔۔
“اوو۔ہیلو۔۔لڑکے سنو” ۔کسی کی آواز آئی تھی۔
احمد نے رک کر پیچھے دیکھا۔چمکتے کپڑوں میں کوئی خوبصورت چہرہ تھا۔
“ابا دیکھ پری آئی ہے”۔
“پری صرف کہانی میں ہوتی ہے، حقیقت میں نہیں”بشیر نے ہنس کر کہا۔
احمد اب بھی پیچھے دیکھ رہا تھا۔
“ہیلو، رُکو۔لڑکے”۔
اب کی بار بشیر نے بھی آواز سنی تھی۔دونوں نے رک کر پیچھے دیکھا۔
ایک خوبصورت بچی انکی طرف بھاگتے ہوئے آرہی تھی،جس کے پیچھے بہت سارے بچے اور افراد بھی آ رہے تھے۔۔
“لڑکے تم نے یہ کاغذ نیچے کیوں پھینک دیا،یہ عام کاغذ نہیں یہ پاکستان کا جھنڈا ہے۔اسکو ایسے کیسے پھینک دیا؟”رباب نے ایک سانس میں پوچھا۔
“میری ماں کہتی ہے یہ ہماری پھوٹی قسمت ہے”۔احمد نے جواب دیتے ہوئے بشیر کی طرف دیکھا۔
ارحم نے احمد کے سر پر ہاتھ پھیرا اور نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوا مخاطب ہوا۔
“نہیں بیٹا ایسے نہیں کہتے۔یہ پاکستان کا جھنڈا ہے ہماری آزادی کا نشان ہے۔ہماری پھوٹی قسمت نہیں بلکہ ہماری خوش قسمتی کا نشان ہے۔اگر یہ نہ ہوتا تو ہم غلام ہوتے۔”
“مگر۔اماں تو کہتی ہے ہم غلام ہیں۔ٹھیکیدار ہمارا مالک ہے۔” احمد نے اداس دل سے جواب دیا۔۔
“نہیں۔ہم سب آزاد پیدا ہوئے ہیں۔اور تم غلام نہیں ہوں اگر تم ارادہ کر لو تو تم اس غلامی کی زنجیر کو توڑ سکتے ہو۔اس کےلئے تمہیں ارادہ کرنا ہوگا۔پڑھنا ہو گا،صرف علم کی طاقت سے تم یہ غلامی سے آزاد ہو سکتے ہو”ارحم کی بات سب بچے دھیان سے سن رہے تھے۔
ارحم اب کھڑا ہو کر بشیر کو گلے لگا کر عید مبارک کہہ رہا تھا۔بشیر کی آنکھوں میں آنسو تھے۔گاؤں کے سارے بچے بڑی گاڑیاں دیکھ کر ادھر بھاگ آئے تھے۔
رضیہ بھی بشیر اور احمد کو ڈھونڈنے ادھر آ گئی۔
“یہ میری گھر والی ہے”۔بشیر نے رضیہ کی طرف اشارہ کیا
“آنٹی۔آپ نے ایسا کیوں کہا کہ  پاکستان آپ کی بری قسمت ہے”۔رباب نے ایک دم پوچھا،
رضیہ نے شرمندہ ہو کر منہ نیچے کر لیا۔۔
“رباب جاؤ بیٹا ۔ جو سامان دادی جان نے بھیجا ہے آپ سب وہ لے کر آؤ “۔۔ارحم نے رضیہ کی شرمندگی بھانپتے ہوئے بات بدل دی
رباب اور اسکے کزنز نے گاڑی سے کھانے کے ڈبے ,قربانی کا گوشت ,جوس, کپڑے اور کھلونے جو وہ گھر سے لے کر آئے تھے نکال کر بچوں میں بانٹنے شروع کیے،ہر طرف چہل پہل تھی۔ہر چہرہ خوش تھا،ہر بچہ چہک رہا تھا۔
تحفے دینے والے چہرے خوش تھے تو لینے والے چہرے بھی چمک رہے تھے۔
احمد کو بھی معاذ نے صاف کپڑے دیئے۔جنہیں احمد نے فوراً  پہن لیا۔
ارحم نے بشیر کو چپکے سے کچھ پیسے دیے۔رباب کی ماما نے رضیہ سے کہا ۔”بہن آپ کا علاج اب سے میرے ہسپتال میں ہوگا۔میں ڈاکٹر ہوں،وہاں سے آپ کو مفت علاج مہیا کیا جائے گا،اور ہم کوشش کر کے آپ کے بچے کا اپنی چیرٹی ادارے سے وظیفہ لگوا دیں گے تاکہ آپ کو اس نئے آنے والے مہمان کی پرورش کی فکر نہ ہو۔۔”
رضیہ کی آنکھ میں آنسو آگئے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نے احمد کی طرف دیکھا جو اب صاف کپڑوں میں کھڑا تھا۔
کچھ گاڑیاں اور آ کر رکیں،گاڑیوں میں سے بچے اور بڑے نکل کر ان سب کی طرف بڑھ رہے تھے۔
ہائے۔رباب کیسی ہو؟عبداللہ بولا۔
مسٹر اینڈ مسزز وسیم آپ سب؟ ارحم نے حیرانگی سے پوچھا ۔
صرف مسٹر اینڈ مسزز وسیم نہیں۔۔ مسٹر اینڈ مسزز اختر بھی ہیں۔ اختر نے پیچھے سے پرجوش انداز میں پکارا۔
اور ہم بھی یہاں ہی ہیں۔ ساجد اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ   ان  ہی کی طرف آتا ہوا بولا۔سب ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش تھے اور بچے پُرجوش تھے۔۔
“ہم سب بھی اپنے حصے کی شمع جلانے آئے ہیں انکل”۔ عبداللہ نے خوشی سے جواب دیا۔
“جی ارحم بھائی۔ سب بچوں کو رباب نے میسیج کیا تھا کہ  قریب کے گاؤں میں سب قربانی کا گوشت اور اپنے کھلونے اور کپڑے لے کر آ جائیں۔بس بچوں کے اس نیک کام میں ہم بھی انکے ساتھ ہیں”۔مسزز وسیم نے جواب دیا۔
ارحم نے رباب کی طرف دیکھا۔جو شرما گئی۔۔
ارحم نے رباب کو گود میں اٹھایا۔”گڑیا آپ سب کی یہ شمع انشا اللہ ہمیشہ روشن رہے گی۔اور ہر کوئی اس روشنی میں اب اضافہ کرتا جائے گا۔آپ سب کی یہ ننھی سی شمع اب ہم سب جلائیں گے۔”
کیوں بچوں۔ٹھیک ہے نا؟
جی ہاں انکل۔سب نے ایک آواز میں جواب دیا۔
مگر شمع ہے کہاں؟ کسی کے ہاتھ میں بھی تو شمع نہیں ہے ۔کیسے جلائیں گے؟احتشام نے منہ بسورتے ہوئے سوال پوچھا۔
سب نے زور دار قہقہہ لگایا اور احتشام کو یہ قہقہہ کافی ناگوار گزرا
“ہم سب اب پوری کوشش کریں گے۔یہ شمع جو بچوں نے جلائی ہے اسکی روشنی تا قیامت  قائم رکھیں اور اس کی حفاظت کر سکیں۔ ہم یہاں ایک سکول اور ہسپتال قائم کریں گے۔ ارحم نے یہ خوشخبری سنائی اور پورا گاؤں آب دیدہ ہو گا”۔
اور احتشام بیٹا یہ محبت کی شمع ہے یہ نظر نہیں آئے گی مگر اسکی روشنی ہر طرف پھیلتی نظر آئے گی۔اختر اب احتشام سے مخاطب ہوا۔
“بڑے لوگوں کی باتیں بھی عجیب سی ہیں” احتشام اب کی بار خود قہقہہ لگا رہا تھا۔
سب لوگ ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔
رباب اور بچوں نے گاڑی سے پاکستان کے جھنڈے اور جھنڈیاں نکالی ۔احمد کے دروازے پر جھنڈا لگایا اور سب بچے جھنڈے لے کر گاؤں میں بھاگنے لگے۔
پاکستان زندہ باد۔ ۔ پاکستان زندہ باد۔
پورا گاؤں پاکستان  زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شمع جلائے رکھنی ہے۔۔۔عید اسپیشل/رمشاتبسم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم!
    اس خوبصورت افسانے نے دل خوش احساس عطا کیا ۔۔بہت ہی دلکشی سے آپ نے حقیقی خوشیوں کے خزانے کی کنجی ہمارے ہاتھوں میں تھمائی ہے ۔۔۔ اب یہ ہم پہ ہے کہ ہم اس سے خزانے کے حصول کے لیے استعمال کریں یا اس کوکسی سمندر کی لہروں کے سپرد کر کے بے حسی کےاندھیروں میں منہ چھپالیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    رمشا جی! اللہ اپنی رحمتوں سے آپ کو نوازتا رہے ۔۔۔ آمین

Leave a Reply