اس سال تقریبا ً25 لاکھ لوگ حج کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔پاکستان سے ایک لاکھ اسّی ہزار کے قریب حاجی سعودی عرب آئےہیں۔ہر سال حج کے دوران حاجیوں کی طرف سے مختلف قسم کی شکایات دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر خبریں چلتی ہیں، جس میں ناقص انتظامات، سہولیات کے فقدان اور کیمپوں میں گرمی جیسے مسائل کا ذکر ملتا ہے۔
پاکستانی حجاج کا یہ مسئلہ آج سے نہیں بلکہ کئی برسوں سے ہے اور اس میں کوئی خاطر خواہ بہتری کی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان کے عمرہ زائرین بھی اسی طرح کے مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔
میں پچھلے دس سالوں سے سعودیہ میں حج آپریشن سے منسلک کمپنیوں کے ساتھ کام کر رہا ہوں ،اس طرح پاکستانی عمرہ اور حج کے لئے جانے والے افراد کی مشکلات سے بخوبی واقف ہوں۔
مسائل تقریباً ایک طرح کے ہیں، پاکستان سے آئے ہوئے عمرہ زائرین جو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال آتے ہیں آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی عمرہ زائرین کی تعداد دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، پاکستانی عمرہ زائرین کو سب سے بڑی مشکل ان کی رہائشگاہ کی حرم سے دوری کی وجہ سے ہوتی ہے ۔کیونکہ زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ اول درجے کا پیکج نہیں لے سکتے اس لیے دوم یا سوئم درجے کا پیکج لیتے ہیں رہائش کے بارے میں بھرپور تسلی دی جاتی ہے کہ یہ حرم سے کوئی چار، پانچ سو میٹر سے زیادہ دورنہیں۔ عمرہ زائرین جن میں اکثریت عورتوں اور بوڑھوں کی ہوتی ہے مکہ پہنچنے پر انھیں رہائش چار سو میٹر کے بجائے دو کلومیٹر دور دکھائی جاتی ہے۔ اگر گرمی کا موسم ہو تو 45 ڈگری کی گرمی میں نماز کے لیے آنا جانا بہت بڑی مشکل کا سبب بنتا ہے۔ حج اور عمرہ عمر بھر کی خواہش ہوتی ہے اس لیے مشکلات اور سختیاں خاموشی سے برداشت کر لیتے ہیں۔
حج میں عام طور پر منی میں مسائل کا سامنا رہتا ہے، پاکستانی کیمپوں میں پانی کی کمی ہوتی ہے، کھانا بدذائقہ اور باسی ہوتا ہے، کیمپ کا ائیرکولر گرم ہوا پھینکتا ہے، کچھ کیمپ بہتر حالت میں بھی ہوتے ہیں تاہم زیادہ تر مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
حجاج کرام حج کے دوران جن مناسک کی ادائیگی کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں تو ٹرانسپورٹ کے لیے بھی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے اور گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے بعض اوقات انہیں چھتوں پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ حاجیوں کی ان مشکلات کی وجہ سے وہ لوگ جو زندگی بھر کی کمائی سے بچا کر حج ادا کرنے آتے ہیں ان کو مشکلات کی وجہ سے حج کے مناسک کو صحیح طریقے سے انجام دینے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔
میں نے ملیشیا، انڈونیشیا، ترکی، انڈیا اور دوسرے کئی عرب اور افریقی ممالک سے بھی لوگوں کو دیکھا ہے۔ان کی سہولیات اور انتظامات بہترین ہوتے ہیں انکی بسیں وقت پر آتی ہیں اور ان کو کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آتی.آپ منی یا عرفات میں ہوں تو آپ کو پاکستان کے کیمپوں اور ان کے ارد گرد کے انتظامات دوسرے تمام ممالک کے کیمپوں کے انتظامات سے خراب نظر آئیں گے، اسی طرح پاکستانی کیمپوں میں انتظامی افراد کی کمی ہوتی ہے اور ایسے افراد نظر نہیں آتے جو ہر وقت حاجیوں کی خدمت کیلئے موجود ہوں۔
پاکستانی حاجی تعداد میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں اور تعداد کے حساب سے پاکستانی رضاکار جو حاجیوں کی خدمت کے لیے جاتے ہیں وہ شاید پہلے نمبر پر ہیں، لیکن حکومتی سطح پر انتظامات انتہائی ناقص ہوتے ہیں سال میں ایک دفعہ اس فریضہ کی انجام دہی کے لئے آنے والے افراد کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جاتے۔ پاکستانی حکومت ان سے خطیر رقم وصول کرتی ہے اور بدلے میں کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔
پاکستان میں جتنے بھی ایجنٹ حج اور عمرہ کے انتظامات کرتے ہیں وہ جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہیں اور وہ اس دینی فریضے کی انجام دہی کے لیے جانے والے لوگوں کو بھی نہیں بخشتے۔
کیا پاکستانی حکومت دوسرے تمام اسلامی ممالک کی طرح سال میں ایک دفعہ ہونے والے اس فریضے کے لیے لوگوں کو خطیر رقم ادا کرنے کےعوض سہولیات اور کھانے پینے کے انتظامات نہیں کرسکتی؟
عمرہ اور حج کے مسائل دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومتی اور پرائیویٹ ادارے جو حج اور عمرہ کے کام سے منسلک ہیں وہ زیادہ پیسے بچانے کے چکر میں حاجیوں اور عمرہ زائرین کے لئے کسی بھی طرح کے سٹینڈرڈ انتظامات کی کوشش نہیں کرتے اور اس مذہبی فریضہ میں بھی جھوٹ اور فریب سے کام لیتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں