• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • میریٹل ریپ(Marital Rape)، نفسیات اور اسلامی تعلیمات: ایک تنقیدی جائزہ۔۔۔۔۔حمزہ زاہد

میریٹل ریپ(Marital Rape)، نفسیات اور اسلامی تعلیمات: ایک تنقیدی جائزہ۔۔۔۔۔حمزہ زاہد

نوٹ:اس تحریر کوشائع کرنے مقصد ایک نقطہ نظر کو سامنے لانا ہے،ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں ،اگر آپ میں سے کوئی اس تحریر کے رَد میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہے،تومکالمہ کےصفحات حاضر ہیں ۔

اس تحریر کو شروع کرنے سے پہلے، سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ اگر آپ لبرل ہیں، سیکولر ہیں، دین بیزار ہیں  یا ملحد ہیں تو اس تحریر کو یہاں ہی ختم کر دیجیے، کیونکہ یہ تحریر نہ آپ کیلئے ہے اور نہ  ہی یہ آپ کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر آج کل ایک اصطلاح، میریٹل ریپ (Marital Rape) کا بہت چرچہ ہے اور بہت جوش و خروش کیساتھ اس ٹرینڈ کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ میریٹل ریپ کو سمجھنے سے پہلے ہمیں ریپ (Rape) کو سمجھنا ہو گا۔ ریپ کہتے ہیں کسی لڑکی سے اس کی مرضی کے بنا زبردستی جنسی تعلق قائم کرنا۔۔۔ اور میریٹل ریپ ہوا، بیوی کی مرضی کے بنا اس سے جنسی تعلق قائم کرنا۔ یہ بات پڑھ کر سب سے پہلی بات یہی ذہن میں آتی ہے کہ اگر مرد نے بیوی سے پوچھ کر ہی اس سے جنسی تعلق قائم کرنا ہے تو اسے بیوی کی ذمہ داری اُٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر بیوی کو بھی منانا ہی ہے، اس کے ترلے  منتیں کرنی  ہیں کہ براہِ مہربانی مجھے جنسی تعلق قائم کرنے دیں تو ضرورت ہی کیا ہے شادی کی؟ کیا یہ بات آسان نہیں کہ انسان باہر جا کر اپنی ضرورت پوری کر لے؟ پیسے تو لگنے ہی ہیں، چاہے شادی اور بیوی کے خرچوں پر لگا لے یا باہر کی کسی عورت پر ،وہ بھی ذمہ داری کے بنا۔ ایک عقل و شعور والا انسان کون سی راہ اختیار کرے گا؟ ظاہر ہے  باہر جانے کی راہ کو۔۔۔ اور بالکل یہی بات ہمیں مغربی معاشرے میں نظر آتی ہے۔ وہاں مرد، عورت کی ذمہ داری نہیں لیتا۔۔۔ عقل مند ہے، اپنی خواہش ہی پوری کرنی  ہے نا، ہو جائے گی۔ جس طرح بندہ سبزی، پھل، دودھ باہر سے لے آتا ہے گھر میں فصل نہیں اُگاتا، گائے بھینس نہیں پالتا، اسی طرح اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کیلئے بھی گھر میں بیوی پالنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور آپ کو معلوم ہے کہ مغربی معاشرے میں عورت کی وقعت کیا ہے؟ یقینا آپ سب جانتے ہوں گے کہ وہاں صرف عورت کو استعمال کیا جاتا ہے، اُسے اپنایا نہیں جاتا اور نہ  اُ س کی ذمہ داری اُٹھائی جاتی ہے۔

اب مسلم معاشرے، خاص طور پر پاکستان میں بھی اس سوچ کو بڑی کمال خوبی کیساتھ پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں ”میرا جسم، میری مرضی“ کے نعرے بہت دلفریب ہیں خواتین کیلئے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اس سوچ کے اس معاشرے پر کیسے اثرات پڑیں گے؟ نہیں۔۔۔

یہ سب سوچنے کا کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہماری پاکستانی خواتین کا المیہ یہ ہے کہ وہ حقوق اسلام والے مانگتی ہیں اور آزادی مغرب والی۔۔۔ جو کہ ظاہر سی بات ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک اسلامی معاشرہ ہے، اور اسلام نے شوہر کو بیوی کے جسم پر پورا حق دیا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے اس نوجوان نسل کا جس کا تعلق اسلام کیساتھ صرف کلمہ طیبہ پڑھنے کی حد تک ہے اور اوپر سے سوشل میڈیا کی “میرا جسم میری مرضی کی “برین واشنگ پورے دھڑلے سے جاری ہے۔ ایک مرد، اللہ کے کلمات کیساتھ اور ذمہ داری اُٹھانے کے وعدے کیساتھ عورت کا جسم اپنے اوپر حلال کرتا ہے، اپنی بساط کے مطابق اسے ہر سہولت دینے کی کوشش کرتا ہے، گھر کی چار دیواری میں تحفظ فراہم کرتا ہے، زمانے کی اونچ نیچ دھوپ چھاؤں سے بچاتا ہے۔ سارا دن اپنا آپ خوار کر کے رات کو جو گھر واپس آئے تو اسے پھر بھی لطف کے چند لمحات کیلئے بیوی کی اجازت کی ضرورت ہے؟ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے؟

اب کوئی ایسا بندہ، جس کا اسلام سے نام کا بھی کوئی تعلق نہ  ہو، عقل اور منطق سے کام لیتا ہو، کیا وہ یہ صورت ِ حال برداشت کرے گا؟ کبھی بھی نہیں کرے گا۔بھئی اگر عورت کو اپنے جسم پر اتنا ہی ناز ہے تو وہ جا کر اپنے جسم کی اور دوسری  مادی ضروریات بھی خود ہی پوری کر لے۔ جب مرد ہی اپنی ذمہ داریوں سے باغی ہو جائے گا تو عورتوں کا کیا بنے گا؟ چلیں آپ کو اس کی بھی تصویر دکھا دیتے ہیں۔۔۔

خواتین پھر خود صبح شام نوکریوں کے چکر میں خوار ہوں گی، بیماری کی حالت میں اس خاتون کا کوئی ذمہ نہیں اُٹھائے گا، جب تک جوانی ہو گی تو شاید باہر کے مرد کسی لالچ میں آگے پیچھے پھرتا رہے گا لیکن جیسے ہی 30-35سال کی عمر کے بعد جوانی ڈھلانا شروع ہو گی کوئی ایک نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرے گا،باہر کے مرد کو خوش کرے گی لیکن اپنے شوہر کو اس کا حق نہیں دے گی، اولاد ہو گی نہیں جو بڑھاپے میں سہارا بنے گی، بڑھاپے میں بھی درد ر کی ٹھوکریں کھائے گی۔ پھر آخری عمر میں بیٹھ کر یہی سوچے گی کہ ہاں مرد کو اس کے جسم پر اللہ نے اختیار کسی وجہ سے ہی دیا تھااور اگر میں اس کا یہ حق مان لیتی تو شاید آج میری زندگی آسان ہوتی اور یہ عمر میں اپنی اولاد کیساتھ عزت و احترام کیساتھ، بزرگی کے مقام پر فائز ہو کر گزارتی، اپنے گھر میں ہوتی جہاں میری پرواہ کرنے والے لوگ ہوتے۔

اسلام دینِ فطرت ہے، اس کا ہر ہر حکم فطرت ہے۔ اسلام سے انحراف کا مطلب صرف اور صرف تباہی و بربادی ہے۔ اگر تو کوئی عورت روز ِ قیامت پر یقین نہیں رکھتی، گناہ ثواب پر یقین نہیں رکھتی، جنت اور جہنم پر یقین نہیں رکھتی تو وہ جو چاہے کرے۔۔۔ ہاں اس کا جسم ہے جس طرح مرضی استعمال کرے، کوئی پابندی نہیں۔۔۔ لیکن یہ بات بھی یاد رہے باہر کی دنیا بھی پھر کسی ضابطے کو نہیں مانتی۔میرا جسم میری مرضی کہہ کر نقصان صرف عورت کا ہے۔ مرد تو باہر جا کر کسی کا بھی جسم خرید لے گا، اسے کس چیز کی فکر ہے۔ اگر پیسہ ہی دین ایمان ہے تو مرد پیسہ کما کر بہت جسم خرید سکتا ہے۔ لیکن، اگر یہاں کوئی مسلمہ مومنہ ہے، تو وہ یہ بات اپنے دل و دماغ پر راسخ کر لے کہ اس کے جسم پر اس کے شوہر کا حق ہے، اللہ نے اسے یہ حق دیا ہے، اسی اللہ نے جس نے آپ کو یہ جسم دیا ہے اور حقوق کی ادائیگی سے انکار پر آپ کا کوئی حق نہیں۔ ہاں جب کوئی عورت شرعی طور پر معذور (حیض، نفاس، شدید بیماری)ہے تو پھر وہ اپنے شوہر کو انکار کر سکتی ہے۔ لیکن اگر بنا کسی شرعی عذر کے وہ اپنے شوہر کو انکار کرے گی تو خود بھی گناہ گار ہو گی اور اگر اس کے انکار کے باعث شوہر باہر جا کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے تو اس کا وبال بھی اس کی بیوی پر ہے۔ یوم ِ قیامت اور عذاب کوئی مذاق نہیں ہے، یہ ایک اٹل حقیقت ہے جو کہ ہو کر رہے گی۔ ہم جوانی کے خمار میں چاہے اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھیں لیکن 50-60سال کی عمر کے بعد ہم نے بہرحال مرنا ہی ہے اور اس خالق و مالک کو جا کر جواب دینا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا نہیں خیال کہ عورت کے میزان میں بروز قیامت اس  سے بڑا کو ئی گنا ہ ہو گا کہ اس نے شوہر کے حقوق ادا نہیں کیے۔ اللہ نے شوہرکو بہت عظمت عطا فرمائی ہے۔ اللہ اگر کسی اور کو سجدے کا  حکم  دیتا تو بیوی کو شوہر کو سجدہ کرنے کا کہتا۔ جہنم میں عورتوں کی تعداد اس لئے بھی زیادہ ہو گی کہ وہ کفر (شوہروں کی ناشکری) کرتی تھیں۔ جس رات بیوی بنا شرعی عذر شوہر سے  جنسی تعلق سے انکار کر دے اور شوہر ناراض سو جائے تو جب تک شوہر راضی نہیں ہو گا تب تک اس عورت پر اللہ کی لعنت ہے، اور جس پر اللہ کی لعنت ہو اس کا کیا بنے گا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ شوہر کا حق اتنا ہے کہ اگر شوہر کے زخموں سے بہنے والی پیپ کو بھی چاٹ جائے تو شوہر کا حق ادا نہ  ہو۔۔۔ یہ ساری باتیں من گھڑت نہیں ہیں، صحیح احادیث ہیں اور مسلمہ سچ ہیں۔ تحقیق ہر کوئی خود کر سکتا ہے کیونکہ سچ تو سامنے آ ہی جانا ہے چاہے وہ بروزِ قیامت ہی کیوں نا ہو، لیکن تب تک تلافی کرنے کیلئے بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اس لئے خواتین سے گزارش ہے کہ یا تو پوری کی پوری اسلام میں آ جائیں یا پوری طرح لبرل سیکولر بن جائیں۔ آپ اپنے راستے چننے کیلئے آزاد ہیں لیکن خدارا اسلام کو اپنی مرضی پر مت چلائیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف جا کر آپ صرف اور صرف اپنی تباہی پر مہر لگا رہی ہیں، لیکن کم سے کم دوسروں کو گمراہ مت کریں۔ جس مغرب کی Feminismکی راہ پر آپ چلیں گی، اس راہ کے آخر میں کوئی آپ کا ذمہ نہیں لینے والا۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین۔

Facebook Comments

حمزہ زاہد
پیشے کے لحاظ سے پروفیشنل اکاونٹنٹ ہیں، اکاونٹنگ اور فائنانس کے شعبے میں ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اُردو زبان میں ابلاغ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ راقم کچھ سال ماہنامہ گلوبل سائنس ، کراچی سے بھی قلمی تعاون کرتے رہے ہیں۔اس کیساتھ ساتھ فلسفہ، اسلامی موضوعات، حالات حاضرہ اور بین الاقوامی سیاست و تعلقات سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”میریٹل ریپ(Marital Rape)، نفسیات اور اسلامی تعلیمات: ایک تنقیدی جائزہ۔۔۔۔۔حمزہ زاہد

  1. ایسا کیوں کہ صرف مرد کو ہی یہی سہولت حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرلے اور بیوی کو نہیں, کیا عورت کے اندر خواہشات موجود نہیں ہیں کیا وہ ایک جیتی جاگتی انسان نہیں ہے. خاوند نے اپنی عورت کو پیدا تو نہیں کیا کہ وہ اس کو ایک باندی بنا لے , ان کے درمیان نکاح کا معاہدہ ہوتا ہے جس کی رو سے وہ ایک دوسرے پر ہلال کر دیے گئے ہیں اور یہ معاہدہ برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے ناکہ آقا اور کنیز کی بنیاد پر.

Leave a Reply to حمزہ ابراہیم Cancel reply