• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • نویدِ سحر کا پہلا ادبی محبت نامہ ڈاکٹر خالد سہیل کے نام۔۔۔ فکر اور قلم کو تحریک

نویدِ سحر کا پہلا ادبی محبت نامہ ڈاکٹر خالد سہیل کے نام۔۔۔ فکر اور قلم کو تحریک

کل سے بہت سوچا کہ کس موضوع پر قلم اٹھاؤں۔ اپنی ذات کا تعارف کرواؤں‘مٹی کی محبت میں کچھ لکھوں‘ انسانیت کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر جن منافقانہ رویوں کا سامنا ہے اس کا دکھ بیان کروں‘ سیاست بازی اور اقتدارِ اعلیٰ کی بے حسی کا نوحہ لکھوں‘ عصرِ حاضر میں انسانیت کی عظمتِ وقار اور علاقائی اقدار کو جو زوال درپیش ہے وہ لکھوں یا پھر ادب کے حساس‘ شگفتہ ‘نرم و نازک اور کومل موضوعات کو زیرِ بحث لاؤں اور یا پھر ان تمام اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کروں جن کی فکری شادابی اور اسلوبی آہنگ کی بدولت آج میری فکر کو کئی ذائقے ملے ہیں۔ شوخی و جلال اور متانتِ وقار ملاہے جو میرے گھر کے فرد جیسے ہیں آنکھوں سے اوجھل ہیں مگر میرے دل کے آئینے میں ہیں۔ جو اپنے سرمایہ و تخلیق کی بدولت خاموش لمحوں میں مجھ سے ہمکلام ہیں۔ تنہا شاموں میں میرے ہم جلیس ہیں۔ جن کا لکھا ہوا‘بولا ہوا ناصرف میرے دل کی دھڑکنوں میں ہے بلکہ میرے خون تک میں سرائیت کر گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ گم گشتہ زمانوں سے لے کر عصرِ حاضر تک جس کسی نے بھی جتنا بھی اپنی فکری اور تجرباتی تخلیق کو انسانیت تک پہنچایا ہے اس میں سے جتنا بھی میری ذات کو مقدور ہوا میں اس سے ایک نشے کی سی کیفیت سے لبریز ہوں۔ اپنے آپ کو غمِ دہر کے جھگڑوں سے آزاد محسوس کرتی ہوں اس طویل فہرست میں ایک نام آپ کا ہے
سر ڈاکٹر خالد سہیل۔۔۔

آپ نے میری فکر کے ساتھ میرے قلم کو بھی تحریک بخشی ہے۔
آج قلم اٹھاتے ہی کئی موضوعات نے فکری خاموشی کا فسوں توڑ کر مجھے چونکا دیا ہے۔ ان موضوعات کا ناصرف خارجی رخ بلکہ باطنی زاویہ بھی دکھائی دینے لگا ہے۔ میں نہیں جانتی ان کو تحریر میں لانے کے لیے میں کوئی زیب و زینت والے الفاظ تلاش کر سکوں گی یا نہیں جن کو بازارِ سخن میں وقعت و پذیرائی مل سکے۔
سلام استاد۔۔
نویدِ سحر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالد سہیل کا دوسرا ادبی محبت نامہ۔۔۔۔۔ایک اجنبی۔۔۔
محترمہ نویدِ سحر صاحبہ !
آپ نے جب مجھے فیس بک پر دوست بننے کی دعوت بھیجی تو آپ میرے لیے ایک اجنبی تھیں۔ اس لیے میں نے آپ کی دعوت قبول کرنے سے پہلے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز مجھ تک لے آئی ہے ؟۔ آپ کا جواب آیا ’ آہ سر! ایک پیاس اور طلب جو پیاسے کو کنویں تک لے جاتی ہے۔ مجھے بھی آپ تک لے آئی ہے۔ بہت بہت بہت شکریہ‘
آپ کے اس جواب سے متاثر ہو کر میں نے آپ کی دعوت قبول کر لی۔ پھر ہماری مختصر گفتگو ہوئی۔ اس مکالمے سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ کے اندر‘ ادب‘ نفسیات اور فلسفے سے محبت کی ایک چنگاری موجود ہے جو حوصلہ افزائی کی تازہ ہوا سے شعلہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ میں نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ مجھے ایک خط لکھیں تا کہ آپ کے خیالات‘ جذبات اور نطریات کو تخلیقی اظہار کا موقع ملے۔

تخلیقی زندگی کے بارے میں میرا موقف یہ ہے کہ ادیبوں‘ شاعروں اور دانشوروں میں creativity ایک raw form میں پائی جاتی ہے جو آہستہ آہستہ ساری عمر اپنے اظہار کے لیے ایک مناسب میڈیم تلاش کرتی رہتی ہے۔ میری نگاہ میں غزل‘ نظم‘ ڈرامہ‘ افسانہ اور ناول کے تخلیقی اظہار کے لیے بہت سی فنی پابندیاں اور پیچیدگیاں راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ ان سب کے مقابلے میں خط ایک ۔ free and versatile medium ہے۔ اس کا دامن وسیع ہے۔ خط فورم کی کم از کم پابندیاں عائد کرتا ہے۔

آپ سے گفتگو کے بعد مجھے پوری امید تھی کہ آپ ایک ادبی خط لکھ سکیں گی اور آپ کا پہلا ہی خط پڑھ کر مجھے بہت مسرت ہوئی کہ آپ کا خط ایک ادبی فن پارہ ہے۔ میں ایسا فن پارہ تخلیق کرنے پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اب مجھے آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں کیونکہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ میرے بارے میں بہت کچھ جانتی ہوں اور میں آپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔
میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا میری تخلیقات‘ میرے کالم اور میرے ٹی وی پروگراموں سے کیسے تعارف ہوا اور ان کے بارے میں آپ کا کیا تاثر ہے؟
آپ کے اگلے خط کا منتظر۔۔۔۔سچ کی تلاش میں نکلا ہوا مسافر۔۔خالد سہیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نویدِ سحر کا تیسرا ادبی محبت نامہ۔۔ جستجو کا سفر۔۔۔
بصد احترام !
آپ نے جس فراخ دلی سے میری حوصلہ افزائی کی ہے اور جس طرح میرے حقیر کام کی پذیرائی کی ہے میں اس کے لیے تہہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
آپ ایک ماہرِ نفسیات اور دانا محقق ہیں۔ ایک تجزیاتی انسان ہیں اور زندگی کو تجربات سے پرکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ آپ نے یقیناٌ کئی شخصیات کو قطرے سے سمندر بنتے دیکھا ہوگا۔ میری ذات میں آپ کو کوئی چنگاری نظر آئی ہے تو میں آپ کے تجزیے کو تو جھٹلانے کی ہمت نہیں کر سکتی مگر مجھے اپنے بارے میں ایسا کوئی زعم یا دعویٰ نہیں ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ آپ کی ذرّہ نوازی ہے۔

آپ نے مجھ سے میرا تعارف مانگا ہے جو آپ اپنے اندر ایک مشکل کام ہے (مسکراہٹ اور تشویش) میں الجھن میں ہوں کہ اپنی شناخت کرواؤں یا اپنی شخصیت کے بارے میں بتاؤں جس سے شاید میں خود بھی ناواقف ہوں اور اگر بتانا بھی چاہوں تو عجلت میں لکھے ایک خط میں بتانا نامناسب ہوگا۔

میرے خیال سے کسی بھی انسان کی شخصیت سے تعارف کے لیے تجزیاتی سمندروں کے پانیوں میں اترنا پڑے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ انسان اپنی ذات میں ایک شہر جیسا ہوتا ہے جس کے کئی گلی محلے ہوتے ہیں۔ پُررونق بازار اور دشت و بیاباں ہوتے ہیں۔ اپنے باغ بغیچے‘ اپنی زمینیں اور اپنے موسم ہوتے ہیں۔ ان موسموں کے اثرات‘ حالات و واقعات‘ رویوں کی بدصورتی اور وقت کی گرد سے انسان کی شخصیت  پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ میں جو آج نوید سحر ہوں دس سال پہلے ایسی تھی یا آنے والے دو چار یا پانچ سال بعد میں آج والی نویدِ سحر ہوں گی۔ میرے خیال میں انسان کی شخصیت مسلسل سفر میں رہتی ہے اور تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

میرا نہیں خیال کہ آپ جیسا انسان شناس اور انسان دوست شخص کسی انسان کی ظاہری شناخت سے مرعوب ہوتا ہوگا۔ بہر حال میرے پاس کوئی شناختی عہدہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر میں ایک گھریلو خاتون ہوں۔ میرے چار بیٹے ہیں۔ خاوند ایک شفیق سادہ نرم دل اور مذہبی انسان ہیں۔ پیشے سے انجینیر ہیں۔ اچھا کما لیتے ہیں لہذا میری ملازمت کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ تعلیمی لحاظ سے سائنس کے مضامین اور نفسیات پڑھ رکھی ہے اور یہ سلسلہ ابھی رُکا نہیں ہے۔

میں مختلف اوقات میں مختلف کیفیات کے زیرِ اثر مختلف طرح کے مضامین پڑھتی ہوں۔ تاریخ‘ مذہب‘ فلسفہ‘ نفسیات‘ سائنس اور ادب کو زیادہ نہیں تو کچھ حد تک پڑھا ہے۔ جستجو کا سفر جاری ہے۔
مزاج میں ٹھہراؤ اور طبیعت میں اعتدال نہیں ہے۔ جبلی طور پر سادہ‘ نرم مزاج اور رومانوی ہوں۔ اظہار میں کوتاہ اور سُست ہوں۔

آپ سے تعارف میری علمی جستجو کی ایک کڑی ہے۔ آپ سے تعارف کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یوٹیوب پر کچھ دیکھتے ہوئے آپ ستارہ وار چمکتے دکھائی دیے۔ آپ کا پہلا پروگرام in search of wisdom ڈاکٹر بلند اقبال صاحب کے ساتھ دیکھا۔ آپ کے لہجے کی تمکنت اور شائستگی کے ساتھ مجھے آپ کی علمی اور فکری شادابی نے بہت متاثر کیا۔ میرے لیے پسندیدہ چیز یہ تھی کہ آپ کے موضوعات سطحی نہ تھے۔ جن کتابوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں مجھے زمانے لگتے آپ کے پروگرامز نے وہ دنوں میں کر دکھایا۔ میں نے ایک ایک نشست میں کئی کئی پروگرامز دیکھ ڈالے۔ کتب بینی کا شوق دوبالا ہوتا چلا گیا۔
Family of the heart کا حصہ بننے کی خواہش پروگرام دیکھتے ہی سر اٹھاتی۔ ’ہم سب‘ پر آپ کے کالم پڑھے face book family بننے کا شوق ہوا۔ لہذاٰ آپ کو friend’s request بھیجی اور یوں آپ کا تعارف مجھ سے ہوا۔

آپ نے جس محبت اور اعتماد سے میری حوصلہ افزائی کی میری خواہش اور کوشش ہوگی کہ میں اس کو نبھا سکوں۔
مجھے لگتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے لوگ ہی اس کائنات کی حیات اور بقا کا جواز ہیں۔ بہت شکریہ۔۔۔نویدِ سحر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خالد سہیل کا چوتھا ادبی محبت نامہ۔۔۔ غیر روایتی سوچ۔۔
محترمہ نویدِ سحر صاحبہ !
آپ نے جس خوبصورت انداز سے شناخت اور شخصیت کے حوالے سے خط لکھا ہے اور انسانی شخصیت کو شہر سے تشبیہ دی ہے وہ آپ کے ادبی ذوق کے ساتھ ساتھ آپ کی نفسیاتی بصیرت کی بھی آئینہ دار ہے۔

یہ میری خوش بختی کہ میری تخلیقات کو آپ جیسا قاری اور سامع ملا اور یہ میری خوش قسمتی کہ آپ نے مجھے فیس بک پر تلاش کرکے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
میں انسانی رشتوں میں دوستی کے رشتے کو سب سے زیادہ معتبر ‘محترم اور معزز سمجھتا ہوں کیونکہ اس میں خلوص بھی ہے‘ اپنائیت بھی اور بے تکلفی بھی۔
میرا ایک شعر ہے
؎ آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے ۔۔۔ جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

میں بنیادی طور پر شرمیلا انسان ہوں اس لیے دھیرے دھیرے بے تکلف ہوتا ہوں۔ مجھے یہ فکر رہتی ہے کہ میں کسی دوست کی دل آزاری نہ کروں اس لیے محتاط رہتا ہوں۔

آپ کی طرح مجھے بھی بچپن سے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے پشاور میں چند سالوں میں چند سو کتابیں پڑھ ڈالیں۔ پھر مجھے لکھنے کا شوق ہوا۔ میرا یہ خواب تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کوئی شخص میری کتاب لینے لائبریری جائے گا۔ یوٹیوب جدید عہد کی لائبریری ہے۔ اس لیے آپ جیسی دانشور کا یو ٹیوب پر میرے پروگرام دیکھنا میرے نوجوانی کے خواب کی تعبیر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اپنی زندگی کی شام میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر عہد اور ہر معاشرے میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ Traditional Majorityروایتی اکثریت اور Creative Minorityتخلیقی اقلیت۔ میری نگاہ میں آپ تخلیقی اقلیت کا حصہ ہیں کیونکہ آپ ایک غیر روایتی سوچ رکھتی ہیں۔ تخلیقی اقلیت کی زندگی مشکل ہوتی ہے خاص طور پر اگر وہ روایتی خاندان اور معاشرے کا حصہ ہو۔ آپ تو ایک عورت بھی ہیں اور عورت کو آج بھی معاشرے میں مرد کے برابر حقوق اور مراعات نہیں ملیں۔ میں متجسس ہوں کہ آپ اپنی غیرروایتی سوچ کے لیے کیا قربانیاں دیتی رہی ہیں؟
آپ کے اگلے خط کا منتظر۔۔۔خالد سہیل!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply