دائمی محبت۔۔۔۔۔عنبر عابر

اس دن بھی بارش ہورہی تھی۔۔۔
جب وہ کسی بہار کی مانند میری زندگی میں آئی تھی اور میرا سارا وجود معطر کر گئی تھی۔۔۔میں ایک نئی دنیا میں بسنے لگا تھا۔۔۔خیالوں کی دنیا میں۔۔۔رنگ بدل گئے تھے۔۔۔لہجے شبنمی ہوگئے تھے۔۔۔ہر آواز مخمور ہوگئی تھی تو ہر لفظ سرمستی سے ڈگمگانے لگا تھا۔۔۔صبحیں جانفزا خوشبو بکھیرتی ہوئی آتیں تو شامیں رنگین مسکراہٹوں سے نکھری ہوتیں۔۔۔
میں نے اسے دیکھا تھا۔۔وہ موم تھی۔۔میں نے اسے چھوا تھا وہ کانچ جیسی نازک تھی۔۔۔میں نے اسے محسوس کیا تھا۔۔۔وہ میری سانسوں میں لہکتی تھی۔۔۔میری شریانوں میں مچلتی تھی۔۔۔میری آنکھوں میں سرخی بن کر تیرتی تھی۔۔۔
آگ یکطرفہ نہیں تھی۔۔۔۔دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔۔۔نہ میں اسے بجھانے پر قادر تھا اور نہ وہ مجھے۔۔۔آگ کہاں آگ کو بجھا سکتی ہے؟۔۔۔۔ہاں مزید بھڑکا دیتی ہے۔۔ شعلہ بار بنا دیتی ہے۔۔۔


اسے صرف ایک ہی خوف تھا۔۔۔ایک ہی ڈر اسے کھائے جارہا تھا۔۔۔اس خوف کا تذکرہ وہ بار بار کرتی۔۔۔۔ایک بار جبکہ وہ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی یکدم سنجیدہ ہوکر بولی۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں کرب تھا۔۔۔دکھ تھا۔۔فراق تھا۔۔۔
“عنبر! مجھے ڈر ہے۔۔۔۔ہماری محبت ختم ہوجائیگی“ اس کی آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔۔۔
یہ سن کر میرا دل دہل گیا تھا۔۔۔میرے کان سنسنانے لگے تھے۔۔۔ میرے پپوٹے سلگنے لگے تھے۔۔۔ دماغ میں ایک ہی فقرہ گونج رہا تھا۔۔ قہرناک فقرہ۔۔۔ایک سنگین جملہ۔۔دو شاخہ تیز دھار جملہ ۔۔۔”ہماری محبت ختم ہوجائیگی“۔۔۔۔میں لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے قریب گیا۔۔۔ اس کی ٹھوڑی اٹھائی اور بڑی آہستگی سے اس کا رخسار تھپتھپا کر بولا ۔۔
“تم کیوں ایسا سوچتی ہو؟“ میرا لہجہ سرسرا رہا تھا۔۔
وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔۔۔
“مجھے پتا ہے۔۔۔میں جانتی ہوں۔۔۔جب دو دل مل جاتے ہیں تو یا تو بھر جاتے ہیں یا کھٹے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔“
میں آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔اسے سن رہا تھا۔۔۔اسے سمجھ رہا تھا۔۔۔پر شاید میں نہیں سمجھا۔۔۔
“عنبر! کوئی ایسا طریقہ نہیں جس سے ہماری محبت امر ہوجائے۔۔۔یہ آگ جو بڑی مشکلوں سے ہم نے بھڑکائی ہے ہمیشہ ہمیں بھسم کرتی رہے۔۔۔ہم دونوں ہمیشہ سلگتے رہے اور دھواں بن کر ایک دوسرے میں ضم ہوتے رہے “
میں نے اس کا ملائم وجود اپنی بانہوں کی گرفت میں لے لیا۔۔۔میرے پاس اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دن بھی بارش ہورہی تھی جب وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔۔دنیا کی بھیڑ میں گم ہوگئی تھی۔۔۔میں نے اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈا۔۔۔اسے اپنے خوابوں میں تلاش کیا۔۔۔اپنی ہر سانس کو ٹٹولا۔۔۔۔اپنی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔لفظوں میں اس کی خوشبو سونگھی۔۔۔لیکن نہیں۔۔۔وہ سب کچھ ساتھ لے گئی تھی اور مجھے بے آب و گیاہ صحرا میں جینے کیلئے چھوڑ گئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر بارش ہورہی تھی۔۔۔۔عام سی بارش۔۔۔بے رنگ بارش۔۔۔۔کوئی ہلچل مچائے بغیر۔۔۔کوئی سُر نکالے بغیر۔۔۔کوئی راگ الاپے بغیر۔۔۔آج وہ میرے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔وہ شاید بارشوں کے ساتھ آتی۔۔۔بارشوں کے ساتھ جاتی تھی۔۔۔میں نے اس سے شکوہ کیا۔۔۔
“ہم سے زیادہ تو بارشوں سے لگاوٹ رکھتی ہو۔۔۔“ اس کے ہونٹوں پر اداس مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔میں نے اس کے ہونٹ دیکھے۔۔۔جھری زدہ۔۔۔۔شکستہ۔۔۔۔دل گرفتہ۔۔۔
میں نے اس کے سراپے پر نظر ڈالی اور مسکرایا۔۔۔
“بوڑھی ہوگئی ہو“ وہ مسکرا کر تیزی سے اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔۔جوانی کے سے شوخ پن سے۔۔۔مجھے لگا جیسے اسے بڑھاپے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔۔جیسے وہ آج بھی جوان ہو۔۔۔۔۔میں حیران رہ گیا۔۔۔اسے کیوں اپنی ڈھلتی عمر کا غم نہیں تھا۔۔۔۔اپنے سفید بالوں کی فکر نہیں تھی۔۔۔شاید کسی طاقتور احساس نے اس کیلئے وقت کی گردش روک دی تھی۔۔
“کیوں چلی گئی تھی؟“ آخر وہ سوال میری زبان پر آگیا تھا جس نے سالہا سال تک مجھے گھائل رکھا تھا۔۔۔وہ سوال جس نے اس کی یاد کبھی بھلانے نہیں دی تھی۔۔۔ میری مسکراہٹ خون آلود تھی۔۔۔یہ اندر کا زخم تھا جس نے میری ساری شخصیت کو زخمی کردیا تھا۔۔۔وہ دھیرے سے بولی۔۔۔ایک مدھم سی سرگوشی میں۔۔۔ہلکی آنچ سی سرگوشی میں۔۔
“کیونکہ میں جان گئی تھی کہ محبت کیسے امر کرتے ہیں“ اس کا لہجہ گلوگیر ہوگیا تھا۔۔۔شاید اس سوال کا جواب اسے مہنگا پڑا تھا۔۔یہ جواب اسے رلا رہا تھا۔۔۔ میرے کان کھڑے ہوگئے۔۔۔آخر میں بھی تو سنوں۔۔آگہی کے لمحے آگئے تھے۔۔۔شعور کے در وا ہونے والے تھے۔۔۔
“کیسے؟“ میرے ہونٹ پھڑک رہے تھے۔۔۔ضبط کا یارا نہیں رہا تھا۔۔۔
اس کی آواز کانوں میں جلترنگ بجانے لگی۔۔۔
“جو محبت ادھوری رہے وہ یادوں کی صورت امر ہوجاتی ہے“
میں نے اپنے شکستہ ہاتھوں کو دیکھا اور اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔۔۔میرے پاس اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں تھا!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply