• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قربانی!کوئی بتائے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟۔۔۔۔اسد مفتی

قربانی!کوئی بتائے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟۔۔۔۔اسد مفتی

جانور ذبح کرکے گوشت کھاناہی اگر قربانی ہے تو اس کے لیے سال بھر انتظار کر کے اور اہتمام سے عید قربان منانے کی ضرورت کیا ہے؟یہ قربانی تو مسلمان ہر روز کرتا ہے،ہر دن جانوروں کی بڑی تعداد ذبح کی جاتی ہے،اور گوشت کھایا جاتاہے،اسوہ ابراہیمی جس قربانی کا درس دیتی ہے،وہ صرف جانور کی قربانی نہیں ہے،یہ تو قربانی کی علامت ہے اصل مطالبہ تو پورے وجود کی قربانی ہے،جس میں جان و مال،خواہش و مفادات،وقت و جذبات اور تعلقات کی قربانی شامل ہے۔

قومیں ذاتی مفادات کو قربان کرکے قومی مفادات کی تعمیر کرتی ہیں،اور جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان کے افراد ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھاتے ہیں،ہم پاکستانی اس زوال کا شکار ہوچکے ہیں،کہ ہم سے حقیر ذاتی مفادات کی خاطر قومی ترجیحات کوپسِ پشت ڈال دیا ہے۔

اس رویے نے وہ تمام امراض ہمارے قومی جسم میں پیدا کردیے ہیں  جو مفادپرستی کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔خود غرضی،نفس پرستی،حرص و طمع،تن آسانی،حسد و منافقت،احساسِ کمتری،کم ظرفی،بزدلی،کینہ پروری اور دل آزاری،یہ سارے امراض ہمارے معاشرے و سماج میں پھیلے نظر آتے ہیں،یہ اسی مفاد پرستی کے نتائج ہیں،اگرچہ یہ جراثیم نکل جائیں،تو ہماری اخلاقی،سماجی،سیاسی،معاشرتی اور ذہنی صحت بھی بحال ہوجائے گی،وگرنہ صرف ایک جانور ذبح کرکے اللہ کے نزدیک کیسے سرخرو ہوسکتے ہیں۔جانور بے عقل اور بے شعور ہوتا ہے،وہ صرف جسم و جان،گوشت ہڈی کا مجموعہ ہوتا ہے،اس لیے اخلاقی اصول اور مذہبی احکام کےتابع نہیں ہوتا،اس لیے بھی خدا تعالی کا حکم ہے کہ اچھے جانور کی قربانی کرو،ایسا جانور جو تندرست،توانا ہو،اندھا یا لنگڑا نہ ہو،یعنی وہ ہر طرح صحیح سالم ہو،جبکہ انسان تو وعقل و ہوش کا حامل ہے،اخلاقی و سماجی،مذہبی اصولوں کا پابند ہے،بُرے بھلے کی تمیز رکھتا ہے، جس خدا نے بے عیب جانور کی قربانی کا مطالبہ کیا ہے،اس کی حکمتِ عملی اور عدالت قربانی کرنے والے کو بھی اخلاقی عیوب سے پاک و صاف اور امراض سے محفوظ دیکھنا چاہتی ہے۔اگر قربانی کا جانور بے عیب ہو مگر قربانی کرنے والا عیب دار ہو اور جانور تو اپنے مالک یعنی انسان کے لیے گردن کٹوا دے مگر انسان اپنے رب کے حکم پر گردن نہ جھکاسکے تو خود فیصلہ کیجیے کہ بارگاہِ الہٰی میں اس کی قربانی کیونکر قبول ہوسکتی ہے۔؟
جبکہ وہ واضح طور پر اعلان کرچکا ہے (ترجمہ)اللہ تو صرف پاک بازوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔

اس سال لگ بھگ ایک لاکھ ستر ہزار پاکستانی فریضہ حج ادا کریں گے۔حج صرف ایک بار فرض ہے،جبکہ بقایا سارے حج محض نوافل ہیں،جس کے بارے نہ تو کوئی خدا کا فرمان ہے اور نہ ہی حدیث میں اس کی کوئی فضیلت بیان کی گئی ہے۔حتیٰ کہ حضور ﷺنے بذاتِ خودایک مرتبہ ہی حج ادا کیا تھا۔
مجھے یہ کہنے دیجیے کہ جو خواتین و حضرات حقوق اللہ کے نوافل کو فرئض کا درجہ دیتے ہیں اور حقوق العباد کو محض ثواب سمجھتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی،گناہ،جرم یاجوبھی کہیے کے مرتکب ہورہے ہیں۔

یہی وہ وجہ ہے کہ امہ میں حقوق العباد یعنی معاشرہ اور سماج اخلاقی لحاظ سے (بلکہ ہر لحاظ سے)کھوکھلا ہورہا ہے،ہوچکا ہے۔
آج حج حج نہیں رہا محض  نمود و نمائش بن کررہ گیا ہے،لوگ”آؤٹنگ”سمجھ کرحج کو جاتے ہیں۔پکنک پر جاتے ہیں،میں ا یسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جن کے لیے یہ “ہنی مون”ٹرپ بن کررہ گیاہے۔ریاکاری سے اس سفر کاآغاز ہوتا ہے۔فوٹوگرافی،نعرہ بازی،گل پاشی،دعوتِ طعام،ہجوم اور میلے سا سماں بندھ جاتا ہے،حالانکہ آدمی اپنے حج کو فریضہ سمجھ کر ادا رکرے اور بلاوجہ نمایاں ہونے سے بچائے،یہ خاص عبادت والا سفر ہے،اسکی تشہیر عبادت کی روح ختم کردیتی ہے،اس موقع پر سیاسی یا مذہبی تقریروں کی بھی ضرورت نہیں،اور نہ ہی اسلامی فریضہ کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے عازمین حج کااستحصال کرنا واجب ہے،
یہاں میں ایک اہم بات کا انکشاف کرتا چلوں۔۔۔۔۔۔
عازمین حج کا گیارہ ارب روپے،زکوٰۃ کے سات ارب روپے اور ویٹنگ لسٹ میں شامل حج کے منتظر لوگوں کے سواچھ ارب موجود ہیں،یہ سب ملا کر تقریباً 25ارب روپے بنتے ہیں۔کیا ان سے ایک کروڑ قحط زدہ پاکستانیوں کے لیے کوئی پروجیکٹ نہیں بنایا جاسکتا؟
کیا بھوک کے ہاتھوں مرنے والوں کی زندگیاں نہیں بچائی جاسکتیں؟
کیا یہ حجِ اکبر نہ ہوگا؟

کہتے ہیں اس سال عرفات میں خیمے نصب کرنے اور دوسرے مذکورہ پروجیکٹ پر 175ارب سعودی ریال خرچ آیا ہے۔جبکہ آج ہی کی ایک یواین او رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ سے زائد قحط میں مبتلا افراد پائے جاتے ہیں۔
آج حاجیوں کی تعداد ہمیشہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ساری دنیا سے لگ بھگ 25لاکھ فرزندان توحید حج کی سعادت حاصل کریں گے،مگر عین اس وقت ساری مسلم دنیا میں پُرتشدد اور دہشت گردی کی تحریکیں جاری ہیں۔حج جیسے موقع نے بھی انتہا پسندی اور تشدد کے واقعات کوکم نہیں کیا،حاجیوں نے ابھی تک اپنے حج سے امن و سلامتی کا سبق نہیں لیا۔

اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ حج کی حقیقت، کو بھول گئے ہیں۔حج کا جذبہ امن ہے۔جنگ نہیں۔۔۔۔۔حج کا جذبہ محبت ہے،نفرت نہیں۔حج کا جذبہ رواداری ہے،تشدد،انتہا پسندی نہیں۔۔۔مگر عجیب بات ہے کہ حج کی یہی خصوصیت آج مسلمانوں میں کہیں د کھائی نہیں دیتی۔
حج کی خصوصیت کہیں بھی موجود ہ مسلمانوں کی قومی پالیسی یا ان کی اجتماعی سوچ کا جُزو نہ بن سکی۔
غور کیجیے توآج مکہ میں ہمیشہ سے زیادہ حاجیوں کی بھیڑ ہوتی ہے،اسی کے ساتھ مسلمان ساری دنیا میں اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلا ف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں،یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

میرے حساب سے اگر مسلمان سچے جذبے کے ساتھ حج کرکے لوٹے توآپ دیکھیے کہ ساری دنیا میں امن و امان کی فضا قائم ہوجائے،اس کے بعد مسلمان ناصرف خود انتہا پسندی چھوڑ دیں بلکہ دہشت گردی سے بھی ہاتھ کھینچ لیں،کہ آج دنیا جنگ،تشدد اور دہشتگردی سے آخری حد تک اکتا چکی ہے۔آج گلے کاٹنے کا نہیں،گلے ملنے کا وقت آن پہنچا ہے۔آج کی دنیا کو”مصلحانہ جنگ”سے بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی مفادانہ جنگ سے۔آج کی دنیا کو ایسے مذہب کی تلاش ہے جو اس کو تشدد،انتہا پسندی اور دہشتگردی کی آگ سے نکالے اور امن کی ٹھنڈی چھاؤں عطا کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر پہ مجھے تاریخ سے واقعہ یاد آرہا ہے۔۔۔حضرت عمربن عبدالعزیز کے عہدِ حکومت میں ان کے بچوں “حسن،حسین اور مریم “نے ایک بار فرمائش کی کہ اس بار عید پرہمیں نئے کپڑے لے کر دیں۔۔آپ نے کہا کہ میرے پاس تو جمع پونجی کچھ نہیں،(کیونکہ اُس وقت جمع شدہ دولت بیرون ملک بھیجنے کا رواج نہیں تھا)اگر مجھے تنخواہ مل گئی تو ضرور نئے کپڑے دلوا دوں گا،چنانچہ آپ نے اپنے وزیر خزانہ جناب اسحٰق ڈار سے درخواست کی کہ مجھے پیشگی تنخواہ ادا کردیں،اسحٰق ڈار نے کہا “امیر المومنین کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ اگلے مہینے تک زندہ رہیں گے،یا برسرِ اقتدار رہیں گے”؟
تو آپ نے نفی میں جواب دیا۔
لہذا وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عرض کیا کہ تب آپ کو تنخواہ پیشگی نہیں دی جاسکتی،
جس پر آپ نے بچوں کو بتا دیا کہ انہی کپڑوں میں عید منانی پڑے گی،
لہذا پیارے قارئین،مفاد پرستی اور قربانی کبھی ایک جگہ ساتھ جمع نہیں ہوسکتے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply