چاچی زینب الٰہی۔۔۔ناصر خان ناصر

چاچی زیب الہی ہماری سگی چاچی نہیں تھیں، سچ پوچھیں تو ان سے کوئی خونی رشتہ تو تھا ہی نہیں مگر انہوں نے خون کے سگے رشتوں سے بڑھ کر ہم لوگوں سے پیار نبھایا۔ وہ ابا کے کولیگ جناب صوبیدار نواز صاحب کی بیگم صاحبہ تھیں۔ ہمارے بچپن تک ہر بزرگ خاتون کو خالہ، آنٹی یا چچی جان ہی کہا جاتا تھا اور بزرگوں کو ماموں بنائے بنا ہی چاچا، ماموں یا تایا بنا لیا جاتا۔ یہ بزرگ بھی چھوٹوں سے نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔

ہمیں ان کی گود میں بِتایا ہوا بچپن اب بالکل یاد نہیں ہے مگر امی جان بتایا کرتی تھیں کہ محترمہ چاچی صاحبہ نے بچپن میں ہمیں سچ مچ ہی گویا اپنی گود لے رکھا تھا۔
امی جان فرمایا کرتی تھیں کہ چاچی جان نے ہماری پیدائش پر نہ صرف سگی بہنوں کی طرح ان کی بھرپور نگہداشت کی بلکہ ہمارے گھر بار کا بھی مکمل خیال رکھا۔
دراصل ہم اور ہماری بڑی ہمشیرہ صاحبہ تقریباً  جڑواں ہیں۔ ہم ان سے صرف سوا سال کے مہین فرق سے عالمِ بالا سے عالمِ فانی میں وارد ہوئے۔ بچپن میں ہم بے حد  بیمار شِمار رہتے تھے۔ کوئٹہ کی سردی اور برفباری کے باعث کئی  مرتبہ ہمیں ڈبل نمونیہ ہوا اور ہم مرتے مرتے بمشکل بچے۔ ایسے میں چاچی جی کی ہمہ وقت معاونت، پیار اور خلوص بھری نگہداشت شاید ہمارے زندہ بچ جانے کی ایک بڑی وجہ رہی ہو گی۔

ہم نے ہوش سنبھال کر پہلی بار چاچی کو “ٹل” میں دیکھا تھا۔ اس سے قبل والد صاحب سیالکوٹ میں تعینات تھے۔ وہاں سے ان کا تبادلہ کوٹلی ہوا اور پھر ٹل۔۔ جو کہ وزیرستان کی سرحد پر تھا۔ ٹل سے آگے کا علاقہ “علاقہ غیر” کہلاتا تھا اور وہاں پاکستان کی حکومت کی علمداری نہیں تھی بلکہ آزاد قبائل کا کنٹرول تھا۔ وہاں جانے کے لیے کوہاٹ سے ایک چھوٹی سی ٹرین لینی پڑتی تھی جس کی بوگیاں انجن اور پٹڑی عام ٹرینوں سے بہت چھوٹی تھیں۔ اس ریل گاڑی کو دو ننھے منے سے انجن آگے پیچھے سے کھینچتے اور دھکیلتے تھے۔ یہ ٹرین شاید درگئی سے ہوتے ہوئے ہنگو تک ہی جاتی تھی۔ اس کے بعد کا سفر سرکاری جیپوں پر کرنا پڑتا تھا۔ ہم بمشکل پانچ برس کے تھے۔ چھک چھک کرتی یہ چھُو چھُو ٹرین ہمیں بے حد اچھی لگی تھی۔
ٹل بے حد خوبصورت پہاڑی علاقہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی بھوری نیلی پہاڑیوں کے پیچھے بلند سربکف پہاڑ۔۔۔ جن پر جب کبھی بارش ہوتی تو جگہ بہ جگہ آبشاریں بہنے لگتیں۔ یہ ناشپاتیوں، بگو گوشوں اور آڑوؤں کے باغات سے گھری ہوئی ایک فوجی چوکی تھی۔ یہاں سانپوں کی بہتات تھی۔ تقریباً روزانہ ہی راہ چلتے ہوئے زہریلے سانپ کہیں نہ کہیں نظر آ جاتے تھے۔ گھر میں بھی ہم سب کو بے حد احتیاط کرنی پڑتی تھی ۔ کئی بار صوفے کا کشن اٹھانے پر نیچے سے سانپ برآمد ہوتا تھا۔ اتنے زیادہ سانپ ہم نے زندگی بھر پھر کہیں نہیں دیکھے۔
ایک ننھا منا سا سرخ سانپ تو ہمارے چھوٹے سے باتھ روم کی پتھریلی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتا تھا۔ ہم جب بھی رفع حاجت کے لیے وہاں جاتے، وہ سوراخ سے باہر نکل آتا۔ ہم اُسے اور وہ ہمیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھا کرتے۔۔۔
دونوں مسحور اور مسرور رہتے۔
وہ اپنی دو شاخہ سرخ زبان لپا لپ بار بار نکالتا تو ہم بھی جواباً جھپا جھپ ویسا ہی کرتے۔۔۔۔
وہ ہمیں کھلونا سا لگتا تھا مگر شاید بے حد زہریلا سانپ تھا۔ ہم نے کسی کو نہ بتایا کہ ہماری ایک سانپ کے بچے سے دوستی ہے۔ شنیدن یہی ہے کہ سانپ بچوں کو کچھ نہیں کہتے۔

ٹل ہی میں پہلی بار ہم نے شیش ناگ بھی دیکھا تھا۔ پگڈنڈی پر شیشے کی طرح چمکتا سیاہ سیال لانبا بدن۔۔۔ عجب والہانہ شان سے پھن اٹھا کر اٹھلاتا ہوا۔۔۔ انگڑائیاں سی بھر کر نہایت پھرتی تیزی سے دائیں بائیں سرکتا جاتا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے عجب چال چلتا ہوا ہماری آنکھوں کے سامنے یوں غائب ہو گیا جیسے کوئی  چھلاوہ ہو۔۔۔
بس اک خواب کا سا منظر اب تک یاد رہ گیا ہے۔
ٹل میں ہماری فیملی کو ملا ہوا سرکاری کوارٹر ہمارا منتظر تھا۔ ہمارے اردلی صاحبان ابھی جیپ سے ہمارا رخت سفر اتار ہی رہے تھے کہ روتی بلکتی اور خوشی سے سرشار ہوتی چاچی جان دوپٹے سے منہ ڈھانپے آ کر ہماری والدہ محترمہ سے لپٹ گئیں۔ ہمیں اپنی گودی میں اٹھا کر بار بار ہمارا منہ چومنے اور ہمیں اپنے سینے سے لگانے لگیں۔
مریم کے مجسمے کی طرح ایک عجیب سی پاکیزگی ان کے انگ انگ سے ٹپکتی تھی۔ نور کا ایک ان دیکھا ہالہ اُن کی ذاتِ اقدس کے اِرد گِرد لپٹا رہتا تھا اور ایک بانکی سی بھینی بھینی خوشبو ان کے سراپے میں ہمہ وقت رچی بسی رہتی تھی۔

چاچی زیب الہی اور چاچا نواز صاحب بے حد پیارے، پُر خلوص لاولد جوڑا تھے، جن کی نیکی، راست بازی اور بے لوث محبتیں ان کی ہر بات سے ٹپک کر ان سے ملنے والوں کو متحیر کر دیتی تھیں۔
ٹل میں ہمیں کھانے کی سب سے پہلی دعوت چاچی جان نے ہی دی۔ وہ بے حد سیدھے سادھے اور اچھے زمانے ہوتے تھے۔ عام لوگوں نے ریا کاری، شو بازی، جھوٹ، تکلف اور دکھاوے کے نقاب ابھی نہیں اوڑھے تھے۔ اخلاق، اخلاص، سادگی اور میانہ روی ہمارے طبقے کے ہر انسان کا خاصہ اور خلاصہ تھے۔
ہم صبح سے بھوکے بچے دوپہر کے بارہ بجنے سے قبل ہی اپنے گھر کے سامنے واقع چاچی جی کے کوارٹر میں پہنچ گئے تھے۔ چاچی جان کی عادت تھی کہ وہ تہجد کی نماز پڑھ کر گھنٹہ بھر قران پاک کی تلاوت فرماتی تھیں۔ پھر شوہر کے لیے ناشتہ بنا کر انھیں رخصت کر کے گھر کے دیگر کام کاج، سلائی کڑھائی میں مشغول ہو جاتیں تھیں۔ چھوٹا سا دو کمروں کا کوارٹر بھی ہمیشہ کسی محل کی طرح صاف ستھرا اور چمکتا پڑا رہتا تھا۔ سلیقہ، صفائی اور سگھڑ پن ان کے سادہ سے جگمگاتے گھر کے درودیوار اور کونے کونے سے ہویدا تھے۔

گھر میں کرسیاں تھیں جو ہاتھ کی کڑھائی والے غلافوں اور ان سے میچنگ کُرتے کشنوں کی بدولت صوفوں کو مات کرتیں تھیں۔ کارنس پر پڑے انگیھٹی پوش پر بھی رنگ برنگے پھول کڑھائی کیے گئے تھے۔ موتی پرو کر کروشیے سے بنائی گئی  جھالر کا ڈیزائن بھی پلنگ پوش سے لے کر ریڈیو کے غلاف اور صندقوں پر بچھائے کور تک پر ایک ہی جیسا تھا۔
ٹی کوزی سے ڈھکی گرم گرم چائے دانی بھی اُسی گھریلو آرٹ کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ یہ فلم سی آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی ہے۔۔۔

چاچی جی نے بڑے پیار سے ہم سب کو پِرچ پیالیوں میں چائے بنا کر دی، جسے ہم بچوں نے پِرچ میں ڈال کر پھونکیں مار مار کر ٹھنڈا کیا۔ شرر شرر کر کے چسکیاں لے لے کر پیا۔ ہم نے مزے لے لے کر تمام بسکٹ چائے میں ڈبو ڈبو کر کھائے۔ ڈبہ ختم کر کے جھاڑا اور چورا نکال کر اپنی مٹھی میں بھر کے کھا لیا۔ پھر اپنی لتھڑی ہوئی  انگلیاں دوبارہ چوسیں۔ چاچی نے مسکرا کر لٹھے کے سفید نیپکن سے ہمارا منہ پونچھ دیا۔
اب چاچی نے اٹھ کر مٹی کی پرات میں تھوڑا سا آٹا گوندھا اور ڈھانپ کر رکھ دیا۔ تیزی سے آلو چھیلنے لگیں اور امی سے باتیں کرنے لگیں۔
گوشت کی ہنڈیا پہلے سے پک چکی تھی۔ اس سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو نے ہماری بھوک مزید چمکا دی تھی۔چاچی جی نے چند منٹوں میں گندھے آٹے سے لپا چھپ چھوٹےچھوٹے پیڑے بنا کر الٹے توے پر سینکے اور پتلے پتلے پھُولے پھُولے پھُلکے بنا لیے۔
ہم چار بچے، پانچویں ہماری والدہ محترمہ اور چھٹی وہ خود۔۔۔ انھوں نے صرف چھ پھلکے ہی بنائے جو ہم بچوں نے دیکھتے ہی دیکھتے منٹوں میں چٹ کر لیے۔

چاچی جی نے حیرت سے ہم سب کو دیکھا، پھر مسکرا کر اٹھیں، دو مٹھیاں بھر کر مزید آٹا گوندھا، فٹا فٹ دو تین آلو چھیل کر شوربے میں جھونک دیے۔ پانچ منٹ میں یہ سب کچھ بھی ختم تھا۔ کسی نے ڈکار تک نہ لی۔۔۔

خدا گواہ ہے کہ یہ عمل کم از کم چار پانچ بار تو دہرایا ہی گیا۔ شاید بے چاری چاچی جی کا پالا ہم جیسے پیٹو بچوں سے عمر بھر کبھی نہیں پڑا تھا۔۔۔
بڑے ہو کر جب کبھی باتیں کرتے ہوئے چاچی زیب الہی صاحبہ کا ذکر خیر چھیڑ جاتا تو یہی قصہ ہماری بڑی ہمشیرہ صاحبہ خوب نمک مرچ چھڑک کر اور مصالحے لگا لگا کر سنایا کرتی تھیں۔ ہم سب لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہو جاتے تھے کہ کس طرح ہم بچوں نے بے چاری چاچی جان کا مہینے بھر کا راشن منٹوں میں چٹم کر کے ختم کر دیا تھا۔
ان کی ہکا بکا اور صمً بکمً رہ جانے والی صورت کا تصور ہی ہمیں اپنے پیٹ پکڑ کر فرش پر لوٹیاں لگانے پر مجبور کر دیتا تھا۔
ٹل میں چاچی جان کئ بار ہمارے گھر تشریف لا کر ہمیں اپنے دولت کدے پر لے جاتیں اور وہاں جا کر سب سے چھپ چھپا کر ہمیں بہت پیار کیا کرتیں۔

جب وہ ہمیں اپنے سینے سے لگا کر چومتے ہوئے سرد آہیں بھرتیں اور لگا تار ٹسوے بہانے لگتیں تو ہم جلدی سے ان سے اپنی جان چھڑوا کر منہ بسورتے ہوئے گھر واپس بھاگ جاتے۔
ہمیں اپنے پڑوس میں بسے اپنے ہم عمر بچوں سے کھیلنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ شمی، تاجی اور اُن کی چھُوٹی بہن “ننھا”۔ ننھا دراصل ہماری ہم عمر بچی ہی تھی۔
صوبیدار اعظم صاحب کی ایک ہی بچی زینت پیدا ہوئی  تھی کہ ان کی بیگم صاحبہ قضاِ الہی سے وفات پا گئیں۔ اپنی اکلوتی بچی کی خاطر ہی انُھوں نے دُوسری شادی رچائی۔ انڈیا جا کر ایک بے حد کم سن لڑکی کو بیاہ لائے، جو زینت سے بمشکل چند سال ہی بڑی ہوں گی۔ ان خاتون سے ان کی تین مزید بیٹیاں پیدا ہوئیں جبکہ انھیں اور ان کی بیگم صاحبہ کو اولاد نرینہ کی ہی خواہش تھی۔ تین بیٹیوں کے بعد چوتھی چھوٹی بیٹی کو انھوں نے لڑکے کی طرح پالنا شروع کر دیا۔ اس کے بال لڑکوں کی طرح کٹوا کر وہ محترمہ اسے لڑکوں کے کپڑے ہی پہناتیں اور ننھا کہہ کر پکارتیں۔ وہ بچی بھی لڑکوں کی طرح ہی باتیں کرتی تھی۔ میں کھاوں گا، جاؤں گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
سوتیلی ماں سب کے سامنے ہی اپنی بیٹی زینت پر ظلم کے ایسے ایسے پہاڑ ڈھائے رکھتیں کہ دیکھنے والے کانپ کانپ جاتے۔ گھر کا سارا کام کاج تو اسی غریب سے کرواتی ہی تھیں، بات بات پر گالی گلوچ، مار کٹائ بھی اسی کا نصیب تھا۔ ازیں سُو راندہ و ازاں سُو درماندہ۔ وہ دکھیا ایک بے حد فرمان بردار اور بے زبان بچی تھی۔ چپ چاپ بنا کوئ شکوہ کیے، اپنی فیملی کی بے لوث خدمت کیے جاتی تھی۔
بیگم اعظم صاحبہ بھی بے حد سلیقہ شعار تھیں۔ اپنی نائیلون کی پرانی ساڑھیاں کاٹ کر انھوں نے شمی اور تاجی کے ڈھیروں بے حد خوبصورت گھیر دار رنگ برنگے فراک سی رکھے تھے، جن کو پہن کر وہ ہمارے ساتھ پینگ کے جھولے جھولتیں۔ ہر ہلارے پر ہمیں یوں لگتا جسے پریاں ہمیں جھولا جھُلا رہی ہیں۔
“ننھا صاحب” اپنا ہیٹ، بو ٹائی، بوشرٹ اور نیکر ڈھاٹے رہتے، زینت صاحبہ پرانے گندے چیتھڑوں میں ملبوس سارا دن ٹاکی سے گھر کے فرش چمکاتی رہ جاتیں اور چاچی زیب الہی صاحبہ ہم بچوں کو کھیلتے، غل کرتے اور شور مچاتے چھپ چھپ کر دیکھتی اور منہ چھپا کر روتی رہتیں۔
پیٹھ پیچھے منہ چھپا کر سب لوگ چپکے چپکے یہی کہتے تھے کہ دراصل چاچی جی بانجھ ہیں، ان کے ہاں بچہ ہو ہی نہیں سکتا۔
چچا نواز صاحب کے سبھی دوستوں نے انھیں دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیا مگر چچا جان اپنی بے زبان گائے جیسی، از حد سگھڑ اور سلیقہ شعار بیوی سے بے حد محبت کرتے تھے۔ انھوں نے ہر بار ہنس کر اس بات کو ٹال دیا۔
چند سال بعد ابا جان کی پلٹن کا پھر تبادلہ ہو گیا۔ ہم لوگ بہاولپور واپس آ گئے۔ رو رو کر سوجی ہوئی آنکھیں لیے چاچی زیب الہی صاحبہ نے ہمیں گلے سے لگایا اور “اب ملاقات کہاں؟۔۔۔ پھر قسمت کے میلے” کہہ کر اپنے میلے دوپٹے سے آنکھیں پونچھنے لگیں۔۔۔
وقت پر لگا کر نجانے کہاں اڑ جاتا ہے؟۔ عرصہ دراز کے بعد چچا جان اور چاچی صاحبہ سے بہاولپور میں آخری ملاقات ہوئ تھی تو ہم میڑک میں پہنچ چکے تھے۔ ہمارے والد صاحب بھی کچھ عرصہ قبل ریٹائر ہو چکے تھے۔ چچا نواز صاحب بھی فوج سے ریٹائر ہو کر علی پور اپنے گاؤں واپس چلے گئے تھے۔ اس تمام وقفے میں ان پیارے لوگوں کا ہمارے خاندان سے بذریعہ خط و کتابت ہمیشہ رابطہ رہتا تھا۔ اس زمانے میں فون اکثر علاقوں میں مکمل ناپید تھے۔ انھیں صرف شہروں میں اور وہ بھی بہت کم استعمال کیا جاتا تھا۔ ضروری اطلاع کے لیے برقی تار دیے جاتے تھے۔ ہمیں چچا جان کا تار ملا تھا کہ چاچی صاحبہ کو کینسر ہو گیا ہے اور انھیں علاج کے لیے بہاولپور کے وکٹوریہ اسپتال میں لے جانے کے لیے وہ ہمارے غریب خانے پر قدم رنجہ فرمائیں گے۔۔۔
چچا جان میں اب بھی کچھ دم خم باقی تھا مگر چاچی جی بہت بوڑھی اور کمزور ہو چکی تھیں۔ کچھ کچھ محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ جیسی بھی دکھتی تھیں، ماتھے پر سیلقے سے گندھی سفید لانبی لٹیں، پاکیزگی کے احساس سے معمور چمکتی آنکھوں والا نورانی چہرہ۔۔۔۔ ان سے ابھی بھی وہی سوندھی سوندھی خوشبو آتی تھی۔ ہمیں ان کے نزدیک آتے نجانے کیوں جھجھک سی آئی مگر انھوں نے آگے بڑھ کر بلائیں لیں۔
وہ لوگ تشریف لائے تو گویا ماضی کے سارے بند پڑے پٹارے کھل گئے۔ والدین فوج کے سب پرانے ساتھیوں، دوستوں اور جاننے والے لوگوں کے مزے دار قصے چھیڑ کر بیٹھ جاتے تو ساری رات باتوں میں ہی بیت جاتی تھی۔

ہمارے والد محترم کے اپنے دوست اعظم صاحب سے کوئی روابط نہیں رہے تھے۔ دراصل یوں ہوا تھا کہ جب والد صاحب ریٹائر ہو کر وطن واپس آنے لگے تو ان سے حسن کارکردگی میں ملے ہوئے ان کے تمام تمغات محترم اعظم صاحب نے کسی تقریب میں پہننے کے لئے ادھار مانگ لیے۔ ہمارے بھولے بھالے والد محترم نے سب کے سب جھٹ پٹ فوراً دے دیے کہ اپنا پرانا یار غار ہے، ترنت واپس بھجوا دے گا!
وہ آج واپس ملیں گے۔
بعد میں اللہ بخشے ان محترم نے شاید اِسی بنا پر یا شرمندگی کی وجہ سے والد صاحب کے لکھے خطوط کا جواب دینا بھی ترک کر دیا تھا اور سارے رابطے ختم کر لیے تھے۔
چچا جان اور چاچی صاحبہ سے ہی ان لوگوں کے تازہ احوال پتہ چلے۔ اعظم صاحب کا ایک بیٹا پیدا ہوا تھا مگر لاڈلہ پوت، کنالی میں مُوت کے مصداق، بے چارہ نکما نکلا تھا۔ پنشن کے بعد ان کی صحت بھی جواب دے گئی  تھی اور معاشی حالات بھی دگرگوں ہو گئے تھے ۔ شمی تاجی اور ننھا صاحبہ سبھی اپنے اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں۔ یہ سن کر دلی مسرت ہوئ کہ محترمہ زینت صاحبہ کی خدا نے قسمت ہی بدل دی تھی ۔ ان کی والدین نے کسی غریب مگر محنتی اور نیک شخص سے شادی کر دی تھی۔ ان کو بھی کڑی مشقت کی بچپن سے عادت تھی، دونوں نے مل جل کر محنت کی تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے چلے گئے۔
زینت صاحبہ نے ناصرف اپنے بوڑھے ماں باپ کو سنبھال لیا تھا بلکہ اپنے سوتیلے بھائ بہنوں کی بھی دل کھول کر امداد کرتی رہتی تھیں۔ اپنے سسرال والوں کے دل تو وہ پہلے ہی ان کی بے لوث خدمت سے جیت چکی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چچا جان اور چاچی صاحبہ تقریبا دو ماہ ہمارے ساتھ رہے۔ ڈاکٹر، حکیم حازق، دم درود، پیر فقیر، گھریلو ٹوٹکے اور ہر طرح کے علاج چلتے رہے۔
پھر ڈاکٹروں نے کورا جواب دے دیا تو دونوں غمزدہ اداس میاں بیوی دل برداشتہ ہو کر اپنے گاؤں واپس لوٹ گئے۔۔۔
تقریباً ایک ماہ بعد ایک روز ڈاکیہ دروازہ بجا کر ایک بڑا سا پیلا لفافہ دے گیا۔
ہم نے دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے اُسے کُھولا تو مسکراتے چہرے لیے چاچی چاچے کی ایک بڑی سی تصویر نکل کر نیچے گر گئی۔۔۔
متبسم چمکتی آنکھیں لیے چاچی زیب الہی کی تصویر کے گرد ایک نورانی ہالہ سا بن چکا تھا۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply