رگِ جاں،وقت آ پہنچا۔۔۔۔ایم اے صبور ملک

کیا ہم ایک لمحے کے لئے اُ س انسان کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس کی رگِ  جاں یعنی شہ رگ اسکے دشمن کے قبضے میں ہو اور وہ زندہ بھی رہے؟یقیناً  ہر چند لمحوں بعد جب اس شہ رگ کو دبایا جائے گا تو سانس رکنے کی وجہ سے وہ انسان تڑپے گا،اپنی جان بچانے کے لئے اپنی طاقت او ر بساط کے مطابق ہاتھ پاؤں مارے گا،یہ ایک انسان کی مثال ہے،اور اگر ایک انسان کی جگہ کروڑوں انسان ہوں،تو کیفیت کیا ہوگی،کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یہ فقرہ کسی دیوانے کا کہا ہوا نہیں بلکہ بانی پاکستان قائد اعظم ؒ نے کہا تھا،قیام پاکستان کے وقت برصغیر کی تما م ریاستو ں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت کسی ایک کے ساتھ الحاق کر یں یا آزاد رہیں،تما م ریاستو ں میں مذہبی بنیاد پر جہاں مسلم اکثریت تھی انھوں نے پاکستان اور ہندو  اکثریت نے بھارت کیساتھ الحاق کا اعلا ن کیا،ریاست جموں وکشمیر چونکہ ایک مسلم ریاست ہے لہذا اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا ایک فطری عمل تھا،لیکن ریاست جموں وکشمیر پر اس وقت ایک ہندو ڈوگرامہاراجہ ہری سنگھ کا راج تھا،جس کے آباؤاجدا د کو 1846میں جب مغلیہ سلطنت کا زوال ہوا تو انگریزوں نے گلاب سنگھ کو 75لاکھ نانک شاہی کے عوض بیچ دیا تھا۔اور ایک صدی تک یہ مسلم ریاست ہندو ڈوگرا راج کے ظلم وستم کا نشانہ بنی رہی،جس کو قیام پاکستان کے وقت یہ اُمید ہوچلی تھی کہ جبر واستبداد کا یہ دور اب ختم ہو گا اور جموں وکشمیر کے مسلمان آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوں گے،کیونکہ تقسیم ہند کے فا ر مولے کے تحت مسلم آبادی کے تناسب سے کشمیر کی پاکستان میں شمولیت یقینی تھی،لیکن وائسرئے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو تقسیم کے بعد بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنا نے نہایت چالاکی سے کام لیتے ہوئے مسلم دشمنی کی بنا پر باؤنڈری کمیشن کے سربرا ہ سر ریڈ کلف سے ملکر سازش کی اور حد بندی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقوں،ضلع گورداسپور،فیروز ہیڈ ورکس،اجنالہ،زیرا ہندؤوں کی خواہش پر بھارت میں شامل کردئیے،تاکہ بھارت کو کشمیر میں جانے کے لئے زمینی راستہ مہیا ہو سکے، کشمیر ی ڈوگرا مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری مسلمانوں کی خواہش کے برخلاف کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا،جس سے ریاست میں غم وغصے کی آگ بھڑک اُٹھی،اور بھارت نے مہاراجہ کی مدد کے بہانے سے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کردیں،جس پر قائد اعظم ؒ نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنر ل گریسی کو اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرنے کا حکم دیا،جنرل گریسی کی جانب سے لیت ولعل کرنے پر قبائلی پٹھانوں اورغیور کشمیریوں نے ازخود ڈوگرا راج کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے بندوق تھام لی اوربعدازاں پاکستان کی فوج بھی اس جنگ میں کود پڑی، مجاہدین سری نگر تک پہنچا چکے تھے،بھارت نے کشمیر ہاتھ سے جاتے دیکھا توبھارتی وزیر اعظم بھاگا بھاگا یواین او جاپہنچا،اقوام متحدہ کی مداخلت سے یکم جنوری 1949کو دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی ہوگئی اور موجودہ کنٹرول لائن کو سیز فائر لائن قرار دے دیا گیا،اقوام متحدہ نے قرار دیا کہ کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے،بھارت اور پاکستان دونوں اپنی افواج کشمیر سے نکالیں،اور کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت ملناچاہیے،کہ وہ لوگ یہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ،پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارتی پارلیمنٹ میں یہ اعلان کیا کہ میں کشمیر کے لوگوں اور دنیا کو یہ باور کرواتا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی سے حل ہو گا،بھارت کشمیر کا مسئلہ خود یواین او لے کر گیا،اور بعدازاں خود ہی یواین او کی قرارداوں اور اپنے کہے ہوئے اعلانات سے بدل گیا،پنڈت نہرو سے لے کر نریندرمودی تک بھارت کے ہر وزیر اعظم نے کشمیر کے مسئلے پر جو بھی اعلانات کیے،وہ سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں،کانگریس آئی ہو یا بی جے پی،مسلم دشمنی اور مظلوم کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے اور ان کی آواز کو کچلنے میں کوئی ایک بھی دوسرے سے کم نہیں،یکم جنوری 1948کو ہونے والی جنگ بندی کے بعد 5اگست 2019بھارتی آئین میں ریاست کو آرٹیکل 370کے تحت خصوصی حیثیت حاصل تھی،کیونکہ جب بھارتی وزیر اعظم نہر و مسئلہ کشمیر کو یواین او لے کر گیا تو اقوام متحدہ نے کشمیر کو دونوں ملکو ں کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ قرار دے کر سیز فائر لائن کے دونوں جانب اپنے مبصر تعینات کیے تھے،لیکن بھارت نے قوام متحدہ اور اقوام عالم کے سامنے کشمیر یوں کو استصواب رائے کا حق دینے کے تما م وعدوں کو توڑتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی ختم کردی جس سے مسئلہ کشمیر دوبارہ 1947کی سطح پر چلا گیا کیونکہ مقبوضہ کشمیر کبھی بھارت کاحصہ ہی نہیں رہا،یہ تو ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے 1947میں زبردستی بزور طاقت اپنی فوجیں داخل کرتے ہوئے اپنے قبضے میں لیا تھا،کیونکہ ریاست جموں وکشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق نہیں کیا تھا،اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی  حکومت اور فوج قائداعظمؒ کے اس فرمان کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور جنرل گریسی کو جو کشمیر میں فوجیں داخل کرنے کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل کرنے کاوقت آگیا ہے،یہ وقت بیانات دینے،سوشل میڈیا پر لفاظی جنگ کرنے یا پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر تقریریں کرنے کا نہیں،گزشتہ 72سال سے ہم نے کشمیر کے مسئلے بھارت کے ساتھ تین جنگیں کیں،اپنے لوگوں کا پیٹ کاٹ کر دفاع کو مضبوط کیا،ایٹمی صلاحیت حاصل کی،لاکھوں جانیں قربان کیں،کیا اس دن کے لئے کہ بھارت ایک دن میں ہی ہماری ساری قربانیوں کو کھوکھاتے لگا دے گا،مرنا تو ایک دن سب نے ہے،اگر یہ جان کسی مقصد کے لئے قربان ہوجائے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی سعادت نہیں اور   مقصد بھی ایسا کہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی آزادی کے لئے جہاد کرنا،بھارت کو بندوق کی زبان میں سمجھانے کا وقت آگیا ہے،اب اگرپاکستان نے قدم نہ بڑھایا تو شاید پھر قیامت تک یہ مسئلہ حل نہ ہوسکے،کیونکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے اگر بھارت ساری دنیا اور یواین او کی قراردادوں سے پھر سکتا ہے تو پاکستان کو کیا مجبوری ہے کہ وہ ہاتھ باندھے روایتی انداز میں اقدامات کررہا ہے،یا د رکھیں یواین او کا ادارہ ہو یا اقوام عالم، پہلے کون سا کشمیر کے مسئلے پر ہماری بات پر کسی نے دھیان دیا ہے جو اب دے گا؟مکار بنیامار کھا کر ہی عقل کرے گا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply