حکایت3:خالہ اور خادم۔۔۔محمدخان چوہدری

خادم کے لئے اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی یا خاتون کی عشوہ طرازی اور ہلکی پھلکی دست اندازی کوئی نئی بات بالکل نہیں تھی۔ بچپن سے وہ اپنے   سے بڑی عمر کی کزنز کے ساتھ کھیلتا آیا تھا۔ لیکن خالہ کے بارے میں اس کے ذہن میں اسکی بیٹی سے انسیت کی وجہ سے مادری ساس کا تصور پنہاں تھا، جو اس روز عملیات کی کتاب لیتے عود کر سامنے آ گیا۔
گھر پہنچ کر اس نے کتاب تو چھپا کے رکھ دی لیکن اس کا ذہن پراگندہ ہو گیا۔
اب اس کی قسمت کہ اگلے ہی روز ان کے گھر میں چھتوں کی لپائی کا کام شروع ہو گیا۔ دن بھر دو بیل گاڑیوں میں دندی کی مٹی آتی رہتی، وہ اور چار مزدور اسے صحن میں ڈھیر کرتے رہے، اگلے دن تالاب سے گدھی پر جندری پہ گھڑوں اور کاندھے پر وانگی میں ٹین سے پانی لا کے مزدوروں نے گھانڑی بنائی۔ شام کو اس میں گوبر اور بھوسہ مکس کیا گیا۔ تین چار دن گھانڑی کی کٹائی اور ملائی ہوتی رہی۔ پھر اس کی لپائی میں تو پانچ دن لگ گئے، چھت کے بنیرے کی
مرمت  بھی کرنی پڑی، یوں دو ہفتے خادم مزدوروں کے ساتھ اتنا مصروف رہا کہ گھر سے نکلنے کا سوال ہی نہیں  تھا۔
پڑسانگ ،گرمالے، تکاریاں اور دوسرے اوزار جن سے مانگے    انہیں واپس دے چکے تب فراغت ہوئی۔

عملیات کی کتاب وہیں پڑی رہی۔

اس ساری مصروفیت میں خادم کے دماغ میں خالہ، اسکی بیٹی اور کتاب گدگدی کرتی رہیں۔
رات کو جب سب گھر والے سو گئے تو اس نے ٹیبل لیمپ کی لائیٹ میں عملیات کی کتاب نکال کر کھولی تو اس کی
حسیات بیدار ہو گئیں۔ سوچ آئی کہ وہ اس چکر میں کیوں پڑے ۔ کتاب بند کر کے واپس رکھی۔ لائیٹ بند کی لیکن نیند غائب۔
اس نے ارادہ کر لیا کہ کتاب نہیں  پڑھنی۔ خالہ کے گھر سے نہیں گزرنا ۔ بس آخری بار کتاب واپس کرنے جانا ہے۔
اس شد مد میں سو گیا،
صبح تیار ہو کے کالج پہنچا۔ جہاں چھٹیوں کے بعد دو دن کلاسیں ہو چکی تھیں۔ کلاس میں کچھ پرانے دوست ساتھ تھے۔
کچھ نئے دوستوں سے تعارف ہوا۔ پروفیسرز نے بھی پوچھ گچھ کی۔ چھٹی ہونے تک وہ کالجیٹ بن چکا تھا۔
واپسی پہ دوستوں کے ساتھ شام کو بھون چوک میں ہوٹل پہ چائے پینے اور گرامو فون پر گانے سننے کا پروگرام طے کر کے گھر آیا ۔
کھانا کھایا تو امی نے اسے دو نئے کھیس دیئے کہ نانکے محلے میں آپاں شاداں کو ان کی ڈوریاں بٹنے کو دے آئے۔
خادم نے کتاب بھی کھیسوں میں لپیٹ لی۔ شاداں کو کھیس دیئے ۔ اس کے گھر سے چھت پہ  جا کے وہ خالہ کے گھر جا سکتا تھا لیکن آج وہ گلی کے راستے چکر کاٹ کے گیا۔
اتنے دن خالہ پر بھی مشکل گزرے ۔ اسے خادم سے بے تکلفی کی حد کراس کرنے کا سخت ملال تھا، اپنے آپ سے اس کی بھی لڑائی ہر وقت ذہن میں جاری رہتی۔ اوپر سے خادم کا آنا بھی نہ ہوا۔ کئی بار سوچا کہ  ان کے گھر کا چکر لگا کے خادم کا پتہ کر آئے۔ پر دل کا چور اسے ڈرا دیتا۔
اب اس کی ڈیوڑھی کا دروازہ بند رہنے لگا ، کنڈی نہیں لگائی ہوتی پر کواڑ پہلے کی طرح وا نہیں رہتے تھے۔
ہاں چھت پر ممٹی کا دروازہ شاید پہلی بار بڑی مشقت سے بند کر کے اسے پکی کنڈی لگا دی تھی۔
خادم نے گلی کا موڑ مڑتے سامنے خالہ کا دروازہ بند دیکھا تو حیران تو ہوا۔ وہاں پہنچ کے اسے دکھیلا تو دروازہ کھل گیا۔
لیکن سامنے چھت کو جاتی سیڑھیوں کے آگے چارپائی پھنسا کے راستہ بند دیکھ کے پریشان ہو گیا۔
ڈیوڑی میں کھڑے اس نے کھنگورا مارا۔ صحن میں داخل ہوا تو خالہ سامنے کمرے سے نکل آئی، خادم کو دیکھ کے اس کے چہرے پر کئی رنگ آئے گئے۔ وہ دوپٹہ سنبھال کے برآمدے میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ خادم بھی کتاب چارپائیپہ  رکھ کے حسب سابق چارپائی پر ہی ساتھ بیٹھنے لگا تو خالہ اٹھ کر ساتھ پڑے مُوڑھے پر جا بیٹھی
بیٹی کو آواز دی۔ وہ آئی تو اسے کہا۔ بھائی جان کو سلام کرو اور چائے بناؤ،
خادم کو جیسے بجلی کے شاک پہ  شاک لگ رہے تھے۔ وہ سوچ کے آیا تھا کہ بس کتاب واپس کر کے بھاگ نکلے گا
یہاں ماحول ہی بدل چکا تھا۔
خالہ کتاب اٹھا کے کمرے میں رکھ آئی اور اندر سے میز لا کے خادم کے سامنے رکھی۔
کچن سے پلیٹ میں بسکٹ لا کے میز پہ رکھتے ہوئے کہا، خادم بیٹا یہ کھاؤ۔ اتنے دن نہیں آئے۔ خیریت تھی ؟
آپا کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں ؟
خادم نے ایک لمبی سانس لی۔ مصروفیت بتائی۔ چائے پی۔ اجازت لی تو خالہ ساتھ چلتے ڈیوڑھی کے دروازے تک آئی۔ وہ جیسے ہی باہر نکلا۔ خالہ نے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی کہ جیسے خادم واپس ہی نہ آ جائے
واپس کمرے میں جا کے وہ آواز دبا کے روئی۔ پھر جاء نماز بچھا کے دو نفل پڑھے،
خادم کالج اور دوستوں میں مصروف ہو گیا۔ دو سال گزر گئے نہ اس دوران خادم پھر کبھی خالہ کے گھر کی چھت پھلانگنے گیا۔ نہ اب اس کی امی پہلے کی طرح اپنے میکے محلہ بھیجتی۔

یہ اس زمانے کے ماحول کی خوبصورتی تھی کہ نازک ترین صورت حال پر بھی بغیر کوئی  بات کہے سب فریق
عمل سے قابو پا لیتے تھے۔ خالہ کی بیٹی نے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کر کے کالج میں داخلہ لیا
تو خادم جسے اس چوٹ نے زندگی کرنے کا سبق دے دیا تھا۔ پوری توجہ پڑھائی پر رکھے ایف اے میں کالج سےٹاپ کر کے لاہور یونیورسٹی میں داخل ہو گیا۔
زندگی کی پگڈنڈی ہو یا پختہ گلی ، کوئی ہمسفر نہ ہو تو بندہ عرفان حاصل کر لیتا ہے ! ٹھوکر لگتی ہے ۔سنبھلتا ہے،پھر چلتا ہے، نئی ٹھوکر لگنے تک ۔۔ یہ ٹھوکریں ہی تو منزل پہ  لے جاتی ہیں۔
ورنہ ہمسفر ہو ،ہم نوائی نہ ہو تو زیست ریل کی پٹڑی کی طرح متوازی چلنے میں بسر ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس تحریر نوٹ۔
یہاں خالہ اور خادم کی حکایت تمام ہوئی۔ یہ کہانی ہماری داستان زیست ۔ سوانح حیات، خود گزشت ، آپ بیتی
یا جو بھی نام دیں۔ زیر تالیف کتاب کا دیباچہ ہے۔ مقصد اس زمانے کے ماحول سے قارئین کو متعارف کرانا ہے۔
داستان زیست واحد متکلم صیغہ میں بیان ہو گی۔اس کی ابتدا پہلی ملازمت کے دوران سے شروع ہو گی،
اس میں پیش آنے والے واقعات و حادثات کو ہم نے کیسے لیا اور کیا ردعمل دیا !
اس کے لئے یہ خاندان کی بیک گراؤنڈ ،بچپن کے ماحول ، اور تربیت کا احوال اُس داستان کےناوک و نعل سمجھنے میں معاون ہوں گے ۔۔۔۔۔۔
ہم سکہ بند لکھاری نہیں ہیں۔ عمر حساب کتاب اور ٹیکس کی وکالت میں گزاری، جو فرصت ملی وہ کاشتکاری میں۔گھوڑی،گائے بیل پالنے،اور کراہی داند بھگانے میں صرف کی،
اب فارغ ہیں۔ سوشل میڈیا پہ  ہاتھ سیدھا کرتے لکھنے لگے، کوشش کریں گے کہ داستان زیست یہاں قسط وار
پبلش ہوتی جائے گر مکمل ہوئی اور آپ کو پسند آئی تو اسے کتاب کی شکل شائع کرنے کا ارادہ تو ہے ہی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply