پاکستان کا متبادل بیانیہ۔۔۔ظفر ندیم داؤد

یہ بات ہی غلط ہے کہ پاکستان ایک نئی ریاست ہے انگریزوں نے 1849 میں جس خالصہ ریاست پر قبضہ کیا تھا وہ اور سندھ کی تالپور ریاست اور نواب آف قلات کی ریاستوں کو ملا کر ایک ریاست قائم کی گئی، تبادلہ آبادی کا کوئی پروگرام نہیں تھا مگر بدقسمتی سے برصغیر کے اقلیتی صوبوں کے مسلمان قافلوں کی صورت میں پاکستان آنا شروع ہوگئے تو پاکستان کے علاقوں سے بھی غیر مسلم لوگوں کو دیس نکالا دیا گیا۔

پاکستان کا نام دینے والے نے باقاعدہ یہاں کے علاقوں کے ناموں کے پہلے الفاظ جوڑ کر ملک کا نام تجویز کیا تھا اس نے باقاعدہ جغرافیائی حدبندی کی بات کی تھی جو برصغیر کے دوسرے علاقوں سے الگ ہو، مفکر پاکستان نے بھی شمالی ہندوستان کے علاقوں میں ایک الگ ریاست کی بات کی تھی 1940 کی قرارداد میں باقاعدہ ریاستوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔
ان علاقوں کی باقاعدہ تاریخ تھی بدقسمتی سے قائد اعظم شیخ عبداللہ، سکھ راہنماؤں اور باچا خان سے ملاقات نہیں کر سکے وگرنہ ایک متحدہ پنجاب اور وادی کشمیر کا پاکستان میں شامل ہونا ممکن ہوتا، حتی کہ راجہ آف بیکانیر سے ملنے کوئی نہیں گیا جو پاکستان میں شمولیت کا خواہش مند تھا۔

یہ کہنا کہ پاکستان کے علاقے اس سے پہلے کبھی علیحدہ حیثیت میں نہیں رہے تھے غلط ہے، لودھی دور سے پہلے یہ دہلی کی سرکار سے زیادہ تر الگ ہی رہے ہیں بہلول لودھی نے جسرت کھوکھر کا قتل کر کے ان علاقوں کو دہلی کا باقاعدہ حصہ بنایا اس کے بعد مغل دور زوال میں پہلے ابدالی کی سلطنت میں تمام پاکستانی علاقے شامل تھے بعد میں تاجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں شامل تھے یہ 1849 میں انگریزوں کا قبضہ ہوا۔
یہ قطعی طور پر کوئی نیا ملک نہیں تھا سوائے ان لوگوں کے لیے جو بھارت سے نقل مکانی کرکے آئے یہاں کے باشندے ہزاروں سال سے یہیں  رہ رہے تھے۔
اس لئے یہ کوئی نئی  جغرافیائی حدبندی نہیں تھی۔
ابدالی تک تو یہ ساری حدبندی ابدالی سلطنت کا حصہ تھی اور سکھ دور میں بھی بیشتر علاقے ایک حدبندی میں شامل تھے۔۔ اس کی اپنی تاریخ تھی اس میں شامل علاقوں کی الگ زبانیں، ہزاروں سال پر محیط تاریخ، ثقافت اور روایات موجود تھیں ۔

اس علاقے میں رابطے کی زبان 1849 تک فارسی رہی تھی علامہ اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ فارسی میں تھا پنجابی اشرافیہ کا خاصا حصہ فارسی سے واقف تھا اب ضرورت یہ تھی کہ یا تو انگریزی زبان کو جاری رکھا جاتا یا فارسی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جاتا جو کہ ایک غیر جانبدار زبان تھی مگر ہماری ریاست نے اردو جیسی متنازعہ زبان کا انتخاب کیا جس سے پہلے سال سے ہی ملک میں تنازعہ پیدا ہوگیا
اگر قدیم تاریخ سے جوڑا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان سپت سندھو کا نیا نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں قومی بیانیہ کی جگہ ریاستی بیانیہ کو تخلیق کیا گیا اور ریاست کو آئین اور قانون کی بجائے ریاستی اداروں اور ریاستی طاقت کے استعمال سے چلانے کی کوشش کی گئی۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں بلکہ میری زندگی لکھنے پڑھنے سے وابستہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”پاکستان کا متبادل بیانیہ۔۔۔ظفر ندیم داؤد

  1. ایک بہترین تجزیہ،
    پاکستان جن حالت میں وجود میں آیا اس نے جہاں ہندو مائنڈ سیٹ جس نے مسلمانوں کو behind the lines یہ پیغام دیا کہ اب ہندو اکثریت میں ہونگے اور مسلمان ایک اقلیت ، جہاں جمہوری سیاست میں اکثریت ہی فیصلہ کن کردار ادا کرے گی، کا مقابلہ مسلمانوں کیلئے اایک علیحدہ مملکت کی صورت میں کیا وہیں پنجاب کی تقسیم اس بندوبست کا حصہ بنا کر ایک ایسے علاقے کو انتہائی سفاک طریقے سے کاٹا گیا، جو ہزاروں سال سے ایک ممتاز تہزیب، ممتاز ثقافت اور اپنی زبان رکھتا تھا، اس لحاظ سے نئی مملکت میں جو
    vivisected province اپنی خطہ پٹی صورت میں بجی سب سے بڑا صوبہ تھا مگر اسی صوبے کو اس کی اپنی زبان، اپنی وحدت، اپنی تہزیب اور اپنی ثقافت کی قربانی کی صورت میں دیا گیا، دیکھا جئے تع و نئی مملکت میں آج بجی defectors حکومت ہنگاموں ہی ہے مگر سے زیادہ نقصان بجی. یہی صوبہ اٹهایا رہا ہے،
    i
    on

Leave a Reply