بجلی کی بندش کے دوران ہمارے گھروں میں اکثریت اپنے اپنے کمروں سے نکل کر صحن میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ٹی وی کمپیوٹرز بند ہوجاتے ہیں تو ماحول میں عجیب سا سکون عود کر آتا ہے۔
ایسی ہی وہ شام بھی تھی جب اچانک محلے کے اک گھر سے چیخنے کی آواز آنی شروع ہوئی، آواز کی جانب دوڑیں لگیں تو معلوم ہوا کہ فہد کے حال سے بے خبر گھر کا ہر فرد اپنے اپنے کام میں مصروف تھا بیوی، بھابھی ڈرامے اور بھائی صاحب کمپیوٹر پر مشغول تھے ۔
ایسے میں فہد جانے کس وقت دل میں کتنے ارمانوں کی رسی سمیت پنکھے سے جھول گیا۔۔۔۔
ابھی تین ماہ پہلے ہی تو اس گھر سے شہنائی کی آواز آرہی تھی رمضان سے پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی ۔۔۔
بلوچ فیملی کا یہ خوبرو جوان ناصرف اپنے گھر کا بلکہ محلے کا بھی حسین ترین نوجوان تھا بس کمی تھی تو پیسے اور ملازمت کی کہ لڑکی والے حسن، عادت، اطوار اور عمدہ اخلاق پہ مرکر بھی معاشی حالت دیکھ کر ہی آگے بڑھنے سے پہلے پیچھے ہوجاتے ۔۔
ایسے میں خاندان ہی کی لڑکی ملی گرچہ اس کے ظاہری طور پر جوڑ کی نہیں تھی کسی بھی لحاظ سے کالا رنگ ،لاغر سا وجود غربت کے ستائے بھائی کی بہن جو اپنے بچوں سمیت اک بہن اور باپ کی خدمت کو بھی بار سمجھتا ۔۔۔۔
لیکن پھر بھی شادی کے بعد رفتہ رفتہ اسے اپنی محبت سے محبت کا داعی بناگئی۔۔۔۔
فہد چھوٹا تھا تو کسی نے کبھی کچھ تقاضا نہ کیا سارا سارا دن بھتیجوں کے سنگ کھیلتا اسکول لاتا لےجاتا بھابھی کے سارے کام کرتا جو تھوڑا بہت کماتا بھابھی کے ہاتھ پر رکھتا۔۔
بیوی کے آنے کے بعد باقی مردوں کی طرح یہ بھی زیادہ وقت اپنے کام اور نئی نویلی دلہن کے ساتھ گزارنے لگا جس سے بہت سے کام گھر کے رہ جاتے ۔
کان سے کان بھرتے دیر نہیں لگتی روز روز کے رن مریدی کے طعنے شروع ہوئے تو بڑھتے بڑھتے جب بھائی نے بھی کہا کہ خود تو کھاتا ہی ہے اب بیوی کو بھی ہم ہی کھلائیں گے کیا ۔۔۔۔
وہ باپ جیسے بھائی کا طعنہ برداشت تو کرگیا لیکن ساتھ سب اجاڑ بھی گیا ۔اس روز صبح اٹھ کر ہی دوست سے موبائل کا سودا کیا اور آکر بیوی کو اپنے ساتھ لےگیا خوب گھمایا خوب کھلایا اور کہا کہ بھائی بھابھی کی باتوں کی وجہ سے مجھ سے ناراض تو نہیں ہو ناں؟
ڈاکٹر کے پاس لےجاکر تسلی کی کہ کہیں کسی معصوم کو یتیم نہ کرجاؤں جب ڈاکٹر نے ٹیسٹ میں کسی امید کی نفی کی تو گھر آکر سب بھتیجے بھتیجیوں کو پیار کیا بھابھی اور بھائی سے معافی مانگی ۔اور اپنے کمرے میں آرام کرنے کیلئے لیٹ گیا ۔بیوی نے کہا چائے بنادوں ۔۔۔تو کہا دو گھڑی بیٹھ جاؤ پاس اور کچھ نہیں چاہیے ۔
عورتیں بھلا کب سنتی ہیں بھابھی کی بچی روئی تھی اسے چپ کرانے کیلئے باہر گئی۔پھر وہیں کی ہوکر بیٹھ گئی، جب بجلی گئی اور اس نے کمرے میں جاکر دیکھا تو کچھ دیرپہلے محبت سے گود میں رکھا ہوا سر پھندے میں جھول رہا تھا ۔
بات یہ نہیں کہ کسی لاابالی جوان نے پنکھے سے لٹک کر جان دے کر کچھ انہونی کردی ۔۔دکھ اس بات کا تھا کہ اس کی لاش پہ روتی بیوی کو جب بھابھی نے جھٹک کر پیچھے کردیا یہ کہہ کر کہ اسی کی وجہ سے خودکشی کی ہے ۔وہ بیچاری تین ماہ کی دلہن اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ رکھ کر بار بار کہے جارہی تھی نہ بھابھی میرا فہدمجھ سے بہت پیار کرتا تھا ۔بہت چاہتا تھا مجھے ۔۔۔۔۔
اور یوں جانے والا تو چلاگیا زندہ لوگوں کو آگ میں جھلسا کر لیکن کچھ زندوں کی عادت کہ اپنے طعنوں سے ایک جان لیکر بھی کلیجے میں ٹھنڈ نہ پڑی اور بہت بےدردی سے دوسری جان لینے کے درپے ہوگئے ۔صرف اس لئے کہ عورت کیلئے دوسری عورت کو گناہنگار قرار دیکر خود نیک پروین بننا دنیا کا سب سے آسان ترین کام ہے جو مرد حاجی بن کر بھی نہیں کرسکتا ۔
بچپن سے سنتی آئی تھی کہ عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے ۔پر میں کبھی اس بات کی گہرائی کو محسوس نہ کرسکی جو اس سامنے پڑی میت پہ یہ جملے سن کر محسوس کررہی تھی۔
کہنا صرف یہ چاہ رہی ہوں کہ لاشوں پہ سیاست ملکی سطح پہ ہی نہیں گھریلو سطح پہ بھی ہوتی ہے ۔بس وہاں بے گناہی دنیا جانتی ہے یہاں بےبسی تک دنیا نہیں جانتی۔
کاش کہ زخمی کلیجوں کو لفظوں کی کاٹ سے مزید چھلنی کرنے سے پہلے ہی وہ زبانیں رک جائیں ان کے ضمیر بیدار ہوجائیں یا پھر رب العالمین ان کی قوت گویائی ہی سلب کردے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں