2009ء کے دسمبر یا شاید نومبر کی بات ہے کہ ایک روز مجھے اس دور کا یار دیرینہ دوست محمد عارف زبردستی واہ کینٹ کی نمائندہ ادبی تنظیم صریر خامہ میں لے گیا جہاں واہ کینٹ کے جانے مانے ادیب امان اللہ خان کو افسانہ پڑھنا تھا۔ اجلاس کے بعد واپس جاتے ہوئے میں عارف سے کہنے لگا کہ یار یہ افسانہ ہے تو یہ سب میں بھی لکھ سکتا ہوں لیکن وہ مجھے فنی اسرار و رموز سے ڈرانے لگا۔ اس واقعے کے تیسرے روز میں نے عارف کو فون کیا اور اسے گھر پہنچنے کا کہا اور وجہ یہ بتائی کہ ان دو روز میں مَیں نے ایک کہانی گھڑ لی ہے۔ عارف نے جب میری کہانی سنی تواسے اپنی دانست میں شاہکار افسانہ قرار دیتے ہوئے مجھے اجلاس میں جانے پر مائل کیا۔ اس افسانہ لکھنے اور اجلاس تک پہنچنے میں دو پڑاؤ ہوئے۔ پہلا پڑاؤ محمود ساجد کے ساتھ اور دوسرا مظہر حسین سید کے ساتھ اور یہ دوسرا پڑاؤ ایسا تھا کہ وقت جیسے اسی مقام پر ٹھہر گیا اور محسوس ہوتا ہے کہ میں اور مظہر آج بھی سنگم کیفے کی انہی سرد کرسیوں پر براجمان ہیں۔ فرق پڑا تو اتنا کہ ہماری گفتگو افسانے سے نکل کر سیاست، سماج، مذہب، نظریہ اور ان گنت میدانوں میں داخل ہو گئی۔ مظہر حسین سید کی کتاب آنے کی جو مسرت مجھے ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ شاید مجھے اپنی کتاب کی بھی اتنی خوشی نہ ہو جتنی سکوت کے شائع ہونے سے ہوئی۔ اور اس خوشی کا باعث بجا طور پر شاہ جی کو کئی سالوں سے کتاب پر کیا جانے والا اصرار قرار دیا جا سکتا ہے۔ واہ کینٹ سے امجد شہزاد کی کتاب مجھے دوبارہ اسی خوشی سے ہمکنار کرے گی۔
”سکوت“ کتاب پر کچھ لکھتے ہوئے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا اور اس ہچکچاہٹ کی دو وجوہات تھیں، ایک تو میں شعر سے شعوری طور پر فاصلہ رکھتا ہوں اس لیے میں خود کو شاعری پر بات کرنے کا اہل نہیں سمجھتا اور دوسری وجہ میری اور شاہ جی کی قریب دس سالہ طویل رفاقت جس کے باعث یہ خدشہ بھی موجود ہے کہیں میں اپنے تعلق اور دوستی کے اس سفر کی رنگا رنگی سے ہی متعارف کروانے میں خود کو ہلکان نہ کر ڈالوں۔ لیکن اس کے باوجود مظہر کی شاعری پرلکھنے کی خواہش کو دبا نہیں سکتا کہ میں نے کبھی کسی شاعر سے کلام سنانے کی فرمائش نہیں کی اگر اس اصول سے کسی کو استثنیٰ ہے تو وہ شاہ جی یا واہ کینٹ کا امجد شہزاد ہیں اور لاہور کے چار سال سے طویل قیام میں عابد حسین عابد وہ واحد شاعر ہے جن سے میں نے شعر سنانے کی فرمائش کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے (یہاں میں خصوصیت کے ساتھ شاہ جی کی بات کرونگا) کہ جب پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا عمل شروع ہوا تو شاہ جی ہی وہ واحد شخص تھے جن کے ہاں ایسی خواہشات کا ایک سلسلہ تھا جن کی طلب سے میں بھی خود کو جدا نہیں پاتا تھا
میری خو ہے ندیوں کے ساتھ بہنا جھومنا
تم سڑے ہوئے تالا ب میں بیٹھے رہو
اس کے علاوہ شاہ جی استعمال کردہ لفظیات سے کہیں بھی نامانوسیت محسوس نہیں ہوتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں اگر کبھی شعری پیرائے کو اظہار کے لیے اختیار کروں تو ایسی ہی بات کہنے کا خواہش مند ہوں گا
کہہ دیا ہے محبت کی ضرورت ہے سو ہے
ہم کو اس باب میں تکرار نہیں چاہیے ہے
اوائل تعلق میں مظہر کی شاعری میں جو بات زیادہ متاثر کُن لگتی وہ اس میں موجود تغزل، شعریت اور ایسا اچھوتا پن ہوتا جس کے باعث ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی اور ذہن تا دیر اسی لطف کی کیفیت میں رہتا
بیانِ حسن کو حسنِ بیاں ضروری ہے
کمالِ فن بھی ہے لازم جمالِ یارکے ساتھ
لیکن یہ تاثر اور اثر مستقبل میں اتنا گہرا نہ رہ سکا جب یہ اسرار کھلا کہ شاہ جی دراصل شعر کے لطیف پیرائے کو اختیار کرنے کے باوجود اپنی بات کہنے سے غافل نہیں
ہماری بات پہ جب معترض ہوئے کچھ لوگ
ہم اپنی فکر غزل میں ملا کر لے آئے
اور بات اتنی سادہ نہ رہی جتنی دکھائی دیتی تھی۔ پھر یہ بھی جانا کہ دراصل شاہ جی کے شعر
ہمارے لفظ ہیں ماچس کی تیلیاں مظہر
کوئی دماغ سے رگڑے تو آگ لگ جائے
کے مصداق ہیں۔ لیکن جب تک یہ بات سمجھ میں آئی تب تک شاہ جی اپنی کارروائی مکمل کر چکے تھے اور ہم بھی ان کے اس شعر
مظہر اس کی نیند اڑا دی
ہم نے جس کو خواب دکھایا
کے متاثرین میں شامل ہو چکے تھے۔اور وہ خواب جو نیندیں اڑانے کا موجب ہے کوئی ایسا غیر منطقی یا ناقابل فراموش قسم کا مابعد الطبیاتی نہیں بلکہ وہ خواب ہے مساوات، انصاف اور معاشی ناہمواری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ہے۔ سو جو بھی اس خواب میں مظہر کا شریک ہوا وہ بغاوت کی صدابلند کرنے میں بھی ہم آواز ٹھہرا
لوگ تو خوئے بغاوت کو برا جانتے تھے
ہم نے اس شہر میں اک رسم نئی جاری کی
مظہر حسین سید کی شاعری کا یہ اعجاز ہے کہ وہ کہیں بھی غزل کے بوسیدہ موضوعات سے چپکا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ اس کی شاعری میں بھر پور عصری شعور جھلکتا ہے۔ اس کے موضوعات بھی ہجر و وصل یا سستی رومانیت کی تکرار نہیں بلکہ وہ تمام تر معاصر مسائل چاہے وہ دہشت گردی ہو یا استحصال، نادیدہ قوتوں کی جانب سے مزاحمت کی اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہو یا ایسی آواز بلند کرنے والوں کا اندوہناک انجام ہر پہلو سے مکمل طور پر آگاہ اور ان کا اظہار تخلیقی پیرائے میں کرنے پر قادر ہے
گلے ملو کہ سلامت ہیں آج ہم دونوں
کسے خبر کہ کون یہاں کب جدا ہو جائے
بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ مظہر حسین سید آنے والے وقت کی ہلاکت خیزی سے بھی آگاہ ہے اور جانتا ہے کہ جس راہ پر دنیا اور انسان گامزن ہے اس کا انجام کیا ہونے والا ہے اس لیے وہ آنے والے المیے کی منادی کرتا اور خبردار کرتے ہوئے کھوٹی راہ کو سیدھی کرنے کا مطالبہ کرتا دکھائی دیتا ہے
میں اس کے خوف سے راتوں کو سو نہیں سکتا
وہ سانحہ جو ابھی رونما ہوا نہیں ہے
مظہر حسین کی شاعری میں سماجی ناہمواری اور عدم مساوات کا نوحہ بھی پوری توانائی سے اظہار پاتا ہے
میں نے کھیتوں میں ہل چلایا تھا
جو اگایا تھا سب پرایا تھا
شاعر صرف مسائل کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ وہ ان مسائل کے پس پردہ عوامل کو بھی مکمل طور پر عیاں کرتا ہے جو یقینی طور پر اس کے فکری طور پر بالغ نظر ہونے کی دلیل ہے۔
میرے شعور کو اس طرح ورغلایا گیا
کوئی وجود نہیں تھا مگر دکھایا گیا
۔۔۔
وہ جس کو لیکر میری بستیوں پر چڑھ دوڑے
کسی کتاب سے کچھ ڈھونڈ کر لکھا ہوا تھا
مظہر حسین سید کی شاعری میں ان نا آسودہ خواہشات کا عکس بھی نظر آتا ہے جن کی تکمیل کی خاطر ہم ایسے کئیوں کی زندگی خاک ہو جاتی ہے مگر جاگتی آنکھوں کے یہ خواب کبھی بھی تعبیر نہیں پا سکتے
خط شکستہ میں کچھ ریت پر لکھا ہوا تھا
جو میں نے غور سے دیکھا تو گھر لکھا ہوا تھا
مظہر شاہ کی شاعری کا کمال فن اس کی جدوجہد سے جڑت اور ناامیدی و مایوسی سے دوری ہے۔ تمام تر تلخیوں، حالات کی سفاکیت کے باوجود اس کو اپنے بیانیہ اور حالات و سماج کے تبدیل ہونے پر کامل یقین ہے
وہ اک بات جس کے عوض میں نے اپنی جان دی تھی
اس ایک بات پہ میں آج بھی اڑا ہوا ہوں
مظہر کی بیشتر شاعری ترقی پسندانہ فکر سے تعبیر ہونے کے باوجود ان لفظیات سے استفادہ نہیں کرتی جو ترقی پسند شعراء کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ مثلاً مظہر کی پوری کتاب میں کہیں پر بھی انقلاب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ جبکہ اس کی تمام تر شاعری مزاحمت، جدو جہد کی شکل میں انقلاب کی راہ دکھانے کا فریضہ سر انجام دیتی نظر آتی ہے۔ مظہر اپنی فکر کے اظہار واسطے ان لفظیات، تشبیہات و استعاروں کا استعمال کرتا ہے جو رجعت پسندوں کی پہچان رہی ہیں یوں ان لفظیات کو نئی پہچان دینے کا عمل اسے ترقی پسند شعراء میں بھی منفرد مقام عطا کرتا ہے۔مظہر کے ”سکوت“ میں جو جہاں معانی بند ہے اور اس کی جتنی جہات ہیں، مجھے اعتراف ہے کہ میں ان کی مکمل دریافت پر قادر نہیں اور یہ فریضہ اہل علم مجھ سے کہیں بہتر اور باخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ میں تو یوسف کے خریداروں کی قطار میں کھڑی مائی کی طرح خود کو مظہر کے مداحین میں درج کروانے کا خواہش مند تھا۔ سو اس آخری شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا
کہیں کہیں پہ اندھیرا کہیں کہیں پر چراغ
دعا کرو کہ جلیں ساری سرزمین پر چراغ
شعری مجموعہ ”سکوت“ سے چند پسندیدہ اشعار بھی ذیل میں درج کر رہا ہوں
شجر بنوں گا یہی سوچ کر بڑا ہوں ہوں
اسی لیے تو کڑی دھوپ میں کھڑا ہوں ہوں
۔۔۔
اسی زمین سے پھوٹے گا روشنی کا شجر
وہ قتل کر کے میری لاش بونے والا ہے
۔۔۔
جو مزاآتا تھا باغ لگانے میں مجھے
وہ مشینوں کے چلانے میں نہیں آتا تھا
۔۔۔
ہے اک شریر سا بچہ جو مجھ میں رہتا ہے
خدا کا شکر ہے لیکن بڑا نہیں ہوتا
۔۔۔
کسی طرح بھی نہ آسیب مفلسی اترا
دعا بھی کی گئی تعویز بھی پلایا گیا
۔۔۔
یقین جنات پر آتا نہیں تھا
نہ جانے کیوں پری پر آ گیا تھا
۔۔۔
تمھارا سامنا ہونے سے پہلے
میں جگنو تھا دیا ہونے سے پہلے
۔۔۔
دن کو جگنو کی طلب نے در بدر رکھا مجھے
رات کو تتلی کی خواہش میں نکل آیا ہوں میں
۔۔۔
پاگیا تھا تو یقیناً سچائی کو
یہ ترا جرم ہے گمشدہ آدمی
۔۔۔
خبیث بھیڑئیے شہروں میں دندناتے تھے
اور ان کی کھال پر لفظ بشر لکھا ہوا تھا
۔۔۔
اے خدا میری مدد کر کے یہاں خلق خدا
صرف تصویر میں جلتے ہوئے گھر دیکھے گی
۔۔۔
تمھاری خواب گہ میں شمع بن کر
ہماری زندگانی جل رہی ہے
۔۔۔
وہ سوالات نئی نسل میں جی اٹھیں گے
جن کو بھی زیر زباں قتل کیا جائے گا
۔۔۔
دفعتاً بڑھ گئی ہے تاریکی
آمد صبح کا اشارہ ہے
۔۔۔
جہاں پہ ہم کو اندھیروں نے ڈس لیا مظہر
ہماری نسل جلائے گی اب وہیں پر چراغ
۔۔۔
رنگ و خوشبو سے بھرا خواب نگر دیکھے گی
ہم جو کہتے ہیں وہ دنیا کی نظر دیکھے گی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں