عید پردیس۔۔۔ سلمان اسلم

عید قرباں کی نماز جامعہ مسجد الباھیۃ ابوظہبی میں پڑھ کے نکلا تو اک دم سے اپنی مٹی ، اپنوں کےمحبت نے ذہن کو دبوچ لیا ۔ کچھ یادوں نے کچھ باتوں نے سوچوں کا راستہ روک لیا۔ کہنے لگےاوۓہم سے عید نہیں ملوگے کیا ؟ اپنے حصے کی عیدی بھی بن وصول کیےجا رہے ہو ! ایسی بھی ہم سے کیا ناراضگی ؟ لو یہ لو، کہہ کر اپنے پرانے سے جبہ کے جیب میں ہاتھ ڈال کر بہت ساری یادیں اور باتوں کی عیدی میری جھولی میں ڈال کر چل دیے اور کہا کہ اور بھی بہت سوں کو عید ملنا ہے اور عیدی دینی باقی ہے۔

میں ان باتوں اور یادوں کی عیدی سے بھرا دامن لے کر ایک سائیڈ پہ چھوٹے بچوں کی طرح دیوار کو ٹھیک لگا کے بیٹھ گیا اور ان کو ترتیب سے رکھنے لگا ۔ ترتیب واری کے اس عمل میں یادوں اور باتوں کے نئے اور پرانےنوٹوں میں سے نئے نوٹوں کو نیچے رکھتاگیا اور پھٹے پرانےنوٹوں کو اوپر رکھا تا کہ جیب میں رکھنے سے پرانےنوٹ کٹ پھٹ جانے سے بچ جائیں، یہ وہی بچپن کی سیکھی ہوئی ترتیب ہے جو آج بھی ذہن پہ نقش ہے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتےتھے اور عید قریب آتی تھی چاہے چھوٹی عید ہو یا عید قرباں، تو ہم کچھ دن پہلے مشقت اور بھاگ دوڑ والے کھیل کود چھوڑ دیتے تھے۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں ہاتھ پاؤں پہ ایسا زخم نہ آۓ جس کی وجہ سے عید کی خوشی منانے سے محروم  نہ ہو جائیں ، اور ساتھ میں یہ گنتی اور ٹارگٹ بھی متعین کر دیتے تھے کہ کس سے کتنی عیدی اور کیسے لینی ہے ۔ چاند رات پہ نیند بے چاری دور کہیں گم ہو چکی ہوتی تھی اور عیدِ صبح کے انتظار میں بستر پہ بے چینی کی کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔ صبح سویرے جاگ کر ذوق وشوق سے تیار ہو تےعید کی نماز پڑھ کر گھر بھاگ آتے تھے اور اپنے عیدی کے ٹارگٹ کے حصول میں لگ جاتے ، اور عیدی کی ہر حصولی پہ ایک عجیب سی خوشی اور سرشاری چہرے پہ چھا جاتی تھی،اور یوں عید کی خوشی کو عیدی جیسے چھوٹے چھوٹے حصوں میں ہر طرف سے اکٹھا کرتے ہوتے تھے۔

یہ زندگی کے وہ انمول لمحات ہوتے ہیں جو بھولنے سے بھی بھلاۓ نہیں جاتے بلکہ ہر عمر ہر عہد، ہر نسل اور ہر ساز کا بندہ اپنے بچپن کے ان لمحات کو بڑی حسرت سے یاد کرتا رہتا ہے،اور یہی کچھ یادیں کچھ بھولی بسری باتیں کسی کو بہلانے آتی ہیں تو کسی کو رُلانے ۔ یہ تلخ اور کڑوی ہوں یا میٹھی اور شریں، پر اسکی اہمیت اپنی جگہ انمول ہی رہتی ہے۔ یہ اس پالتو جانور کی مانند ہوتی ہے جس کو آپ اپنے ہاتھوں سے پال پوس کر اپنی بھاشہ سمجھا کراپنا ایک معصوم سا راز دان بنا لیتے ہیں,جو کہ بعد میں بڑی تابعداری سےپیش خدمت رہتا ہے اور آپ  سے سرگوشی میں مصروف عمل رہتا ہے۔ یہ یادیں اور کچی پکی باتیں بھی بچپنے کی اس عیدی کی طرح ہوتی ہیں جو ہمیں اپنے رشتےداروں ، عزیزوں سے ملا کرتی تھیں ۔کسی سے کم توکسی سے زیادہ ملتی تھی۔ اور اسی طرح ماضی کی یہ یادیں بھی ہر کسی کے پاس اپنی طرف سے عیدی کی سلامی پیش کرتی ہیں ،پر کسی کو دے کر رُلادیتی ہے تو کسی کو بہلا دیتی ہے۔ جیسے جیسے انسان عمر کے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے ویسے ہی اسکے عادات و اطوار ، خوشی اور غم کانقط نظر بدلتا رہتا ہے ۔ لیکن عید اپنے قد و کاٹھ کے ساتھ ویسے کی ویسی ہی رہتی ہے ۔  عید کا دن رنگوں اور خوشیوں سے بھرا ہوا اپنا یہ لنگر جاری رکھتا ہے ہاں بس بانٹنے اور وصول کرنے والے بدلتے رہتے ہیں ۔

عید جب پردیس میں آتی ہے تو عید بھی پردیس کی طرح عید ملتی ہے اور پردیسی بھی اجنبیت سے عید ملتے ہیں ۔ جسم کا ہر انگ بچپن سے جن کندھوں سے عید ملنے کا عادی ہوچکا ہوتا ہے پردیس میں بھی ویسے ہی کندھے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ جس طرح اک پیاسا اپنی پیاس بجھانے کی خاطر ہر ڈگر کے کنویں میں جھانک کر دیکھتا ہے مگر آنکھوں کی چمک تاریک اندھیرے کے سوا کچھ نہیں دیکھ پاتی ، اور پانی ملنے کی امید پر وہ اگلے کنویں کا رخ کرتا ہے ۔ تلاش کی اس گردش میں اس کی پیاس دم توڑ لیتی ہے پھر بجھ نہیں پاتی ۔ بالکل اسی طرح پردیس میں پردیسیوں کی عید بھی عید ملنے کے لیے اپنے پیاروں کے کندھے اور تھپکی کی تلاش میں اُنکی عید کی مٹھاس ختم ہو جاتی ہے پَر اُنکی عید ، عید ہو نہیں پاتی۔
ہم اکثر سنا کرتے تھے کہ پردیسی اپنے گھر والوں کے لئے اے ٹی ایم مشین کی طرح ہوتے ہیں، جو کہ ہفتے کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے ان کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ وہ اکاؤنٹ سے اُن کی ہی مرضی کے مطابق اُنکے آرڈرکو کیش کرکے خدمت عالیہ میں نقدی کی صورت میں بمعہ پورے حساب و کتاب کے پیش کرتے ہیں۔اس کا احساس آج عید کے دن پہ حرف بہ حرف واضح ہوا۔ جس طرح اے ٹی ایم مشین کے لیے نہ رات ہوتی ہے نہ دن، گرمی نہ سردی ، چھٹی اور نہ عید ہوتی ہے۔ بس وہ تو باباۓ قوم قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کے اس فرمان کے مطابق کام،کام،اور بس کام کا عملی نمونہ بن چکے ہوتے ہیں لیکن غلط وقت اور غلط گام پہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیونکہ اے ٹی ایم کے اندر نقدی موجود ہو تو تب اسکی کچھ وقعت ہوتی ہے ورنہ تو وہ لوہے کے لمبے ڈبے کے سوا کچھ نہیں ۔ اور اسکی یہ وقعت کام ، کام اور بس کام سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اےٹی ایم جیسی مصنوعی مشینوں کی رعایت قبول کر کے ہم اسکی شان سلامت رکھنے کے لئے کاغذ کے چند ٹکڑے تو کما لیتے ہیں جن کی حیثیت تو کچھ بھی نہیں ہوتی مگر یہ کاغذ پتلی سی جان میں اکھڑ بہت رکھتی ہے ۔ اور وہ اپنے اسی اکھڑ کی بابت ہم پر حکمران بن کر ہم سے اپنی اکھڑ کے عوض ہماری خوشیوں کا بھتہ وصول کرتی ہے۔ اور ہم جورو کے غلام کی طرح کاغذ کے غلام بن جاتے ہیں۔ غلامی کے اس تقلد میں اپنی خوشیوں میں قربانی کے جانور کی طرح تندرست اور توانا خوشی کو ذبیحہ کے لیے پیش کرتے ہیں ۔ کاغذی غلامی کے اس چنگل میں اپنی خوشیوں کی یوں بے دریغ قربانی پہ قربانی کرنے سے ایسے پھنس جاتے ہیں ، کہ پھر اپنی خوشیوں کی اک ٹانگ کو آزاد کرنے لگتے ہیں تو آزاد کرنے کی بجاۓ گانٹھ پہ گانٹھ لگاتے جاتے ہیں ۔ اور آخر کار شیر کی طرح جال سے آزاد کرانے کےلیے چوہا موت کی صورت میں کہیں سے آنکلتا ہے وہ غلامی کے اس جال سے آزاد کرا دیتا ہے اور یوں سارا کھیل ختم ہو جاتا ہے۔ نہ عید جیسا صنم ہاتھ آتاہے اور نہ کاغذ کا خدا۔ نہ دیس کے رہ جاتے ہیں اور نہ پردیس کے ہو پاتے ہیں ۔ تبھی تو جب عید جیسا کوئی بھی خوشی کا موقع آتا ہے تو پردیس میں ہر اک دل کی چاردیواری کے اندر صف ماتم بچھی ہوتی ہے ۔ ہر کواڑ کے پیچھے نالہ ، آہ وفغاں کا واویلا ہوتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ غیرت فطری کے تقاضے کی خاطر دل پہ پتھر رکھ دیتے ہیں اور خوش رہنے کی اداکاری کر رہے ہوتے ہیں۔اک بناوٹی مسکراہٹ کے حجاب سے ہر کوئی اپنےدل کا آئینہ چھپارہا ہوتا ہے۔ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے
ہر مسکرانے والے کو خوش نصیب نہ سمجھنا
ہر کوئی ہنستا ہے اپنا غم چھپانے کے لئے
باہر سے دیکھنے والے ہمارے چہروں پہ بناوٹی مسکراہٹ کو ہماری خوش نصیبی سمجھ رہے ہوتےہیں جبکہ وہ مسکراہٹ اپنے پیچھے آنسوئوں کا طوفاں بند کی طرح باندھ کے رکھا ہوتا ہے۔بدقسمتی سے المیہ یہ ہے کہ رزق کا ایسا قحط اپنی زمین پہ یوں پڑچکا ہے کہ جو ایک بار مسافر ہو کر ملک سے چلا جاتا ہے تو پھر رزق کے پیچھے گم ہی ہوجاتا ہے۔ اور اکثر لوگوں میں پھر اپنی مٹی اور اپنوں کا احساس تب ہی جاگ اٹھتا ہے جب عید جیسے موقع پہ کوئی کندھا ملانے والا نہ ملتاہو اور یا پھر عمر کا پودا سوکھ گیا ہو۔ جس کو نہ پھر خزاں سے فرق پڑتا ہے اور نہ بہار کوئی معنی رکھتا ہو۔ آج میرا بھی کچھ یہی حال رہا ۔۔۔ عید کے دن سے لے کر دو دن اسی سوچ میں گم سم گزریں گے۔ کچھ عید نے ستایا کچھ بچپن سے جڑی یادوں نے اور کچھ کسر اپنوں کے اپنے پن کے احساس نے۔ عید تو گزر ہی جاتی ہے پر یادوں کی پھوار پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ پھر بڑی مشکل سے اس ہلکی سی رم جم بارش سے تر ہوئی دل کی زمیں خشک ہوتی ہے ۔ خوشی سے جڑے یادوں کے اس گہرے سیاہ بادل میں چھپے نئی صبح کےسورج کی دھوپ کا پھرانتظار کرنا پڑتا ہے ، جو کہ دل کی تر ہوئی زمیں کو پھرسے پختہ کردے تا کہ نئے آنے والی، یادیں اپنے قدموں کی ہلکی سی جنبش سے ساری مٹی ہی نہ اکھاڑ لے جائیں ۔ بہت مشکل ہوتا ہے خود کو خود ہی تسلی دے کر سنبھالنا ، خود کو خود ہی عید ملنا ، چہرے سے گم ہوئی اپنی مسکراہٹ کو پھر سے واپس لوٹ کے لانا ۔ احساسات اور جذبات کا یہ بندھن بھی بڑا ہی عجیب اور نازک ہوتاہے ۔ ہلکی سی آہٹ سے بھی یہ درخت کے سوکھے پتوں کی طرح زمیں پہ پتہ پتہ گر جاتی ہے۔ پھر ایک نئی بہار کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ نئے پتوں کا ،نئی کونپلوں کے پھوٹنے کا۔  احساسات اور جذبات کا یہ بندھن پھر سے باندھنا پڑتا ہے ۔ یہی پردیس کی عید بھی ہوتی ہے ، عیدی بھی اور عید کا میلا بھی ۔

Facebook Comments

سلمان اسلم
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply