وی آئی پی بلاک ۔۔عید اسپیشل/علی اختر

میرے والد ایک خاندانی رئیس تھے ۔ آنکھ کھلی تو ابا کا بزنس سارے ملک میں پھیلا دیکھا ۔ بچپن سے ہی بڑا محل نما گھر ، گیراج میں کھڑی نئے ماڈل کی گاڑیاں اور نوکروں کی قطاریں دیکھیں ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ  دولت مند افراد کا مذہب سے تعلق واسطہ  نہیں ہوتا ۔ یہ بات صریحاً غلط ہے۔۔ مذہب اور اسکے احکام سب کے لیے یکساں ہیں ۔ ساتھ ہی مذہب پر عمل کرنے یا نہ کرنے سے دولت کا کوئی  تعلق نہیں ہوتا ۔ ہم دولت مند تو ہیں لیکن ساتھ ہی مذہبی احکامات پر بھی عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ ہر سال فیملی میں سے کوئی نہ کوئی حج پر جاتا ہے ۔ رمضان میں ضرورت مندوں کی مالی مدد کا خاص اہتمام ہوتا ہے ۔ کئی ٹرسٹ اور ہسپتالوں کی عمارتیں ہمارے ڈونیشنز سے تعمیر ہوئی  ہیں اور انشاللہ آگے بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا ۔

جیسا کہ  آپ سب کے علم میں ہے عید الاضحی کی آمد آمد ہے ۔ میں چاہے جتنا بھی مصروف رہوں عید الاضحی کے موقع پر ہمیشہ ہی پورے اہتمام سے قربانی کا فریضہ سر انجام دیتا ہوں ۔ ہر سال بذات خود جانور لینے مویشی منڈی جاتا ہوں ۔ مجھے آج بھی یاد ہے بچپن میں جب اپنے والد کے ہمراہ میں منڈی جایا کرتا تھا ۔ میری خواہش ہوتی کہ  خوب موٹا تازہ بھاری سا بیل خریدا جائے ۔ اپنی ضد کے آگے کسی کی نہ چلنے دیتا ۔ جانوروں اور خریداروں کی بھیڑ اور مشکل راستوں کے باوجود والد کے ساتھ پوری منڈی کا چکر لگاتا تھا لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ بہت آسانی ہو گئی ہے ۔

کئی  سال سے منڈی کے شروع میں ہی وی آئی  پی بلاک بنا دیا جاتا ہے جہاں پورے سال پالے گئے بھاری اور خوبصورت جانور صاف ستھرے اور روشن ٹینٹ لگا کر رکھے جاتے ہیں ۔ اب مجھے اور میرے ہی طرح کے اور بہت سے لوگوں کو گاڑی سے اتر کر میلوں کا سفر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہماری پسند و منشا کے جانور بہت سہولت سے مل جاتے ہیں ۔ ساتھ ہی جانور بیچنے والوں کو بھی سہولت رہتی ہے ۔ اصل میں اب اتنے مہنگے جانور عام لوگ تو لیتے نہیں ۔ ہاں منڈی میں ہر طبقے کے لوگوں کے لیے جانور لائے جاتے ہیں جس کی  جتنی حیثیت ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق ہی فریضہ ادا کرتا ہے ۔ میں نے بھی پچھلے سال ایک مشہور کیٹل فارم کے ٹینٹ سے “ٹائیگر” نام کا بیل خریدا تھا جسکی قیمت ستر لاکھ تھی ۔ اس سال انشاللہ بجٹ میں دس لاکھ کا اضافہ کر لیا ہے ۔ اب خود ہی بتائیں بینکوں میں کروڑوں روپیہ پڑا ہو اور آدمی وہی حصے کے سوکھے سڑے جانور میں دس ہزار کی قربانی کرے تو دین کے حکم کے ساتھ انصاف تو نہ ہوا نا ۔

ویسے یہ بڑے اور مہنگے جانوروں کا رواج اور ملکوں میں نہیں ہوتا ۔ بڑے سے بڑا ، امیر سے امیر آدمی بھی وہی چھوٹا سا دنبہ قربان کر کے قربانی ادا کر لیتا ہے ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ ہر کوئی  اپنی مالی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرے یہ زیادہ بہتر طریقہ ہے ۔ جب اللہ نے دیا ہے تو اسکے راستے میں بھی دل کھول کر خرچ کیا جائے ۔

کچھ شرپسند اور دین کی تعلیمات سے نابلد افراد اس تقسیم کے خلاف بھی بات کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ  یہ سب مہنگے مہنگے دیوہیکل جانور دکھاوا ہیں ،ریاکاری ہیں ،مالی بنیاد پر دینی احکامات کواس قدر تقسیم کرنا درست نہیں ۔ میں ان  سے پوچھتا ہوں کہ  جب مالی بنیادوں پر تعلیمی ادارے ، رہائشی علاقے ، علاج کے مراکز ، کھانے کے ہوٹل ، شاپنگ سینٹرز وغیرہ کو تقسیم کیا جا سکتا ہے تو دینی معاملات میں کیوں نہیں اور ویسے بھی اس شہر میں دینی یا معاشرتی حلقوں کی جانب سے کبھی بھی اس وی آئی  پی بلاک کے جانوروں پر کوئی  خاص اعتراض نہیں کیا گیا جو کہ  اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ قدم شرعی اور معاشرتی تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔

یہاں میں ایک اور بات کرنا چاہونگا ۔ مجھے ایک پریشانی لاحق ہے ۔ ممکن ہے مذکورہ بالا تقسیمی فارمولا میرے اس مسئلے کا بھی حل ہو ۔ مسئلہ کی تفصیل کچھ یوں ہے ہم ہر ماہ ایک خطیر رقم علاقے کی مسجد کو دیتے ہیں ۔ ماربل کے فرش اور نئے وضوخانے کے ساتھ ساتھ ہم نے شہر میں ہونے والی گرمی کے پیش نظر کچھ سال پہلے مسجد کے مرکزی ہال میں ایئر کنڈیشن بھی لگوائے تھے ۔ ابھی پچھلے ہفتے جب میں جمعہ کی نماز ادا کرنے مسجد گیا تو مجھے ہال میں جگہ نہ ملی ۔ رش کی وجہ سے نماز صحن ہی میں پڑھنی پڑی ۔ گرمی بھی اپنے عروج پر تھی ۔ جلدی جلدی فرض ادا کیے اور پسینے میں شرابور گھر واپس ہو لیا ۔ گرمی کی وجہ سے نماز بھی دلجمعی سے ادا نہ ہوسکی ۔ سوچیے کہ  آپ اپنی جیب سے اپنی اور سب کی سہولت کے لیے مسجد میں اے سی لگوائیں اور خود گرمی میں نماز ادا کریں ,کس قدر ظلم اور نا انصافی ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

مذکورہ بالا مسئلے کے حل کے تناظر میں، میں یہ چاہتا ہوں کہ مساجد میں بھی وی آئی  پی بلاکس بنائے جائیں جہاں اے سی وغیرہ جیسی سہولیات کا اہتمام کیا جائے ۔ میں مساجد الگ کرنے کی بات نہیں کرتا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہر ایک مسجد میں ہم جیسے افراد کے لیے بس ایک چھوٹی سی جگہ مخصوص کر لی جائے اور کچھ نہیں ۔ آپ اس مخصوص ہال کی انٹری فیس بھی رکھ سکتے ہیں ۔ یعنی پانچ سو ، ہزار روپے ہر نماز پر ادا کرنے ہوں ۔ اب جسکی مالی حیثیت اس فیس کو افورڈ کرنے کے قابل ہو وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھائے ،ٹھیک اسی طرح جیسے ہم ابھی عید کے موقع پر وی آئی  پی بلاک سے جانور خریدیں گے ۔
میں اس مضمون کے توسط سے تمام مقتدر حلقوں سے گزارش کرونگا کہ  میری تجویز   پرغور کریں ۔ شکریہ ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply