پاک بزمِ احباب میسعید قطر۔۔۔۔سانول عباسی

٢٨ جولائی ٢٠١٩ بروز اتوار پاک بزمِ احباب قطر نے پاکستان سے تشریف لائے بہترین عالمی شہرت یافتہ شاعر، ادب نواز سماجی شخصیت لاہور ادبی تنظیم “قرطاس” کے سربراہ جناب توقیر احمد شریفی صاحب کے اعزاز میں شعری نشست اور پرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا جسے جناب شریفی صاحب نے اپنی تشریف آوری سے شرف قبولیت بخشا۔

اس خوبصورت محفل کا سہرا پاک بزمِ احباب قطر کے جنرل سیکریٹری، پاکستانی کمیونٹی قطر کے ہردلعزیز اور میسعید پاکستانی کمیونٹی کے روحِ رواں جناب فرقان احمد پراچہ کے سر ہے جن کی انتھک کاوشوں سے اتنے قلیل وقت میں اس قدر بہترین پروگرام کا انعقاد ممکن ہوا۔

جناب توقیر احمد شریفی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں آپ پاکستان میں ادبی سرگرمیوں کے سرخیل اور کئی ادبی و سماجی تنظیمیں آپ کی سرپرستی میں نمو پا رہی ہیں۔

پاک بزم احباب قطر کی طرف سے جناب فرقان احمد پراچہ، جناب نواز اکرم، جناب محمد اقبال بھٹی نے انہیں پھولوں کا گلدستہ اور شیلڈ یادگار کے طور پہ پیش کی۔

جناب شریفی صاحب نے انتہائی خوبصورت لفظوں میں قطر کی ادبی تنظیموں کو اردو ادب کی خدمات کے حوالے سے انکی محبت خلوص و انتھک کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے قطر کو جزیرة العرب میں اردو ادب کے حوالے سے تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال زرخیز خطہ قرار دیا اور اردو ادب کے حوالے سے دنیائے ادب میں قطر نمایاں مقام رکھتا ہے انہوں نے خاص طور پہ اس بات کا ذکر کیا کہ اردو ادب کی ترویج کے لئے جو کام قطر میں ہو رہا ہے شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے اسی وجہ سے انہوں نے ادبی سرگرمیوں سے وابستہ تمام لوگوں کو دنیائے ادب کا بہترین سرمایہ قرار دیا۔

انہوں نے مختلف سماجی پہلوؤں پہ اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک مومن کی زندگی مسلسل جدوجہد ہے ہمیں ہر قسم کے اختلاف سے بالاتر ہو کر ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ انسانیت کی اولین شرط احساس ہے اور جو شخص احساس سے عاری ہے اسکی انسانیت اپنے آپ میں سوالیہ نشان ہے۔

اس کے بعد جناب شریفی صاحب، جناب فرقان احمد پراچہ، اور راقم(ساؔنول عباسی) نے اپنے منتخب کلام سے محفل کا لطف دوبالا کر دیا۔

پڑھے گئے اشعار میں سے منتخب کلام

“توقیر احمد شریفی صاحب”

مستطیل سوچوں سے دائرہ نکالوں گا

چھان کر لکیروں کو حاشیہ نکالوں گا

 

مٹ گئیں لکیریں گو ہاتھ ملتے رہنے پر

اب میں اپنے پیروں سے زائچہ نکالوں گا

 

سانس میں پرو لوں گا آرزو شہادت کی

پھر میں آبِ گریہ سے مرثیہ نکالوں گا

_______

اس نے یاد کرنے کا شکریہ بھی لکھا ہے

اور بھول جانے کا مشورہ بھی لکھا ہے

 

شہرِ دل کے مینو میں ذکر ہے اضافی یہ

اس کے شیریں ہونٹوں کا ذائقہ بھی لکھا ہے

 

عشق تم کو ہو جائے میری ہیلپ لے لینا

میں نے تو محبت پر جائزہ بھی لکھا ہے۔

 

“فرقان احمد پراچہ”

وہ کوئی شہزادی تھی کسی جادو کی نگری کی

ملائم پھول سا لہجہ معطر تن گلابوں سا

نگاہوں میں تھیں قندیلیں ستارے جیسے ہوں آنگن

وہ پہلی چاند لہروں پر بکھیرے صندلیں لمحے

لٹائے وصل کے موتی

شناسا جس نے کر ڈالا مجھے رمزِ محبت سے

انوکھے خوبصورت ریشمی لفظوں کی ڈوری سے

کچھ ایسے روح کو باندھا

تفاخر کا مجھے میٹھا سا اک احساس دے ڈالا

گلابوں میں گندھے جذبوں کا سر پہ تاج پہنا کر

مجھے احساس دے ڈالا

کہ پریوں کی کہانی کا کوئی کردار ہے

میں اب وہ لفظ چن چن کر سرِ آغوش رکھتا ہوں

ہواؤں کے گزرتے قافلوں کو روک لیتا ہوں

کچھ اپنا درد کہتا ہوں پھر ان سے پوچھ لیتا ہوں

کہاں اس کا بسیرا ہے کہاں اس کا ٹھکانہ ہے

بنے  جو میری شہزادی

کسی جادو کی نگری کی

 

“ساؔنول عباسی”

اتنی مدّت فراق میں گزری

ایک شب کا وصال دو گے کیا

 

عشق اب کے ہے جان کے درپے

اس مصیبت کو ٹال دو گے کیا

 

میں نے دیکھا ہے خواب میں تم کو

تو یہ آنکھیں نکال دو گے کیا

 

چار پھولوں کا قرض ہے تم پر

آ کے تربت پہ ڈال دو گے کیا

 

اس محبت کو جیسے جھیلا ہے

کوئی ایسی مثال دو گے کیا

Advertisements
julia rana solicitors

 

آخر میں پاک بزمِ احباب کی طرف سے جناب فرقان احمد پراچہ صاحب نے تمام دوستوں کی آمد اور اپنی مصروفیت میں سے بیش قیمت وقت ہمارے ساتھ گزارنے پہ شکریہ ادا کیا اور تمام مہمانوں نے پرتکلف ظہرانے کا لطف اٹھایا۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply