شاہی اور آنڈو بکرا۔داستان عشق۔قسط 1

ہم شہری لوگوں کا جانوروں سے بھرپور ٹاکرا سال میں ایک بار بڑی عید پر ہوتا ہے جب ہمارے گلی کوچے جانوروں کے باڑوں میں بدل جاتے ہیں۔ ہر طرف چھن چھن کی آواز ہوتی ہے جو کہ  جانوروں کو پہنائی  گئی  جھانجھروں سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر دوسرا آدمی ماہر حیوانات بن کر جانوروں کے دانت چیک کر رہا ہوتا ہے۔ بعض گیابھن گائے چیک کرنے کے فن میں مشتاق ہوتے ہیں تو بعض منڈی کے بھاؤ تاؤ میں ثانی نہیں رکھتے۔ کچھ بنا باندھے جانور گرانے کا فن جانتے ہیں تو بعض سب کچھ ہو جانے کے بعد ” اس جانور کی قربانی نہیں ہوگی ” کا جملہ کہ کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔

جب ہر طرف جانور ہوں تو لوگوں کی گفتگو کے موضوعات بھی بدل جاتے ہیں ۔ مثلاً آپ کو کچھ ایسے جملے سننے کو ملیں گے۔ “ابے وہ شمسو بھائی  ہیں ناں ان کی بچھیا اترتے ہی جو ریس ہوئی  ہے” ۔۔۔۔ “بھائی آپ یہ بچھڑا دیکھ رہے ہیں، کل رات ناک کی رسی تک تڑا کے بھاگا ہے، بنارس سے پکڑ کر لائے ہیں۔ ابے اپنے چھوٹے لونڈے کو اونٹ سے دور رکھیو، پچھلی بار بھی اونٹ نے گردن سے پکڑ کر اٹھا لیا تھا۔ارے “شیر بانو” میرے کو پتا چلا کہ تیری شنّو باجی کا کوئی”بےبی” نہیں ہے” ” ہاں عینی ان کو نا  پچھلی عید پر پتا نہیں دنبے نے” کج”ّ جگہ “ہٹ” کیا تھا، پورے اورنگی میں ہر ڈاکٹر کو دکھایا ہے لیکن بچّے نہیں ہو رہے”

غرض ہر شخص کی زبان پر جانوروں کے ظلم، جبر، نخوت، تکبر، بے اعتنائی، بے وفائی، بے رحمی، طوطہ چشمی، سنگدلی وغیرہ کی داستان ہوتی ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود ایک جانور ایسا ہوتا ہے جس کی شرافت، معصومیت اور اعلی کریکٹر پر آنکھ بند کر کے یقین کیا جا سکتا ہے ۔ جی ہاں میں بکرے کے بارے میں بات کر رہا ہوں ۔ ریکارڈ پر عید کے دنوں میں سب سے کم شکایات اسی حیوان کی موجود ہوتی ہیں ۔ اسے فارسی میں بُز کہا جاتا ہے اور بُزدل یا بُزدلی کی اصطلاح میں اسی جاندار کا ذکر ہے۔ یعنی کسی جلدی ڈر جانے والے یا کم ہمت انسان کو اس حیوان سے تشبیہ دی جاتی ہے جس سے اس کے بے ضرر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ لیکن بات یہاں مکمل نہیں ہوتی بلکہ اصل فلم یہیں سے شروع ہوتی ہے۔

منڈی میں بکروں کے ریوڑ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ  جہاں 99 فیصد بکرے سرجھکائے جگالی کرنے میں مصروف ہیں وہیں ایک فیصد الگ طرح کی چلبلی مخلوق بھی موجود ہے جو پچھلی دونوں ٹانگوں پر کھڑا ہو کر اگلی دونوں ٹانگیں ہوا میں لہراتے ہوئے زمین کی طرف حرکت کرتا ہے اور اپنے سر سے 150 نیوٹن کی طاقت پیدا کرتے ہوئے سامنے آنے والے کسی بھی ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی گردن کے سخت اور کھڑے بال اور تھوتھنی کے نیچے نوکیلی داڑھی اسے دوسرے بکروں میں ممتاز کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے بکروں کے مقابلے میں یہ “میں میں” کی سریلی اور شرمندہ شرمندہ سی آواز کے بجائے اپنے پھیپڑے اور جگر کی پوری طاقت لگا کر “بو بو” کی سخت اور بیباک آواز نکالتا ہے۔ کھانے میں عام بکروں کی طرح چوکر، چنا، لوسن وغیرہ کھاتا ہے لیکن پینے میں پانی کی جگہ ایک خاص “مشروب مغرب” نہایت شوق سے نوش کرتا ہے اور اسی کی بھینی بھینی مہلک مہک سے دور ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کریکٹر لیس اس قدر ہوتا ہے کہ یہ ایک فیصد اپنی حرکتوں کی وجہ سے اپنے 99 فیصد مزید ہم جنسوں کے خصّی ہونے کا باعث بن جاتے ہیں۔ انہیں عام اردو زبان میں بو بکرا یا آنڈو بکرا کہا جاتا ہے۔

تو آتے ہیں اپنی داستان کی طرف ۔ آپ لوگوں نے وہ مثال تو سنی ہوگی کہ  جب آدمی کی قسمت خراب ہو تو گھر کے غسل خانے میں نہاتے ہوئے آدمی کو بھی مگر مچھ کھا جاتا ہے، بس ایسا ہی کچھ میرے واحد دانشور دوست شاہی کے ساتھ ہوا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply