میں بولوں کہ نہ بولوں ؟۔۔۔عزیز خان

فالواپ!

میرے ایک دوست ہیں جو بنک سے سینئر وائس پریزیڈنٹ ریٹائر ہوئے ہیں، یہ اُن کی کہانی ہے، میرے یہ  دوست بُہت پڑھے لکھے ہیں  اور ان کی پوری زندگی ایمانداری اور ڈسپلن سے گزری ہے۔

کہانی کُچھ یوں ہے کہ مُلتان کے ایک بہت بڑے وکیل صاحب کے بھائی  کے جنازے میں میرے دوست شریک تھے جنازہ ختم ہوا تو پتہ چلا آٹھ دس  لوگوں کی جیب سے قیمتی موبائل فون نکال لیے گئے، جن میں سے ایک میرے دوست بھی تھے فوری طور پر تھانہ شاہ رکن عالم فرنٹ ڈیسک پر رپٹ درج کرائی گی جس پر اُنہیں ایک سلپ ہاتھ میں پکڑا دی گئی ،یہ مورخہ 11 اپریل 2019 کا واقعہ ہے۔

میرے بنک منیجر دوست کیونکہ پڑھے لکھے ہیں اور پوری زندگی آفس ورک میں گزری ہےتو ان کو   لگا تین دن بعد دروازہ پہ بیل بجے گی اور ایس ایچ او مُسکراتے ہوئے ان کا فون لیکر دروازے پر کھڑے ہوں گے۔

تین دن بعد تشویش ہوئی تو تھانے  گئے، بڑی مُشکل سے ایس ایچ او سے مُلاقات ہو ئی، کمال آدمی تھے ایس ایچ او  انہیں فرشتہ معلوم ہوئے، چائے پلائی گئی، اور فرمایا یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں جلد چور پکڑے جائیں گے۔۔میرے دوست نے عرض کیا ،اگر  ایف آئی آردرج ہو جاتی تو اچھا ہو جاتا ایس ایچ او  مسکراتے ہوئے بولے، آپ نے آم کھانا ہے یا پیڑ گننے ہیں تو کیونکہ میرے دوست کو آم پسند ہیں تو اُنہوں نے آم کا انتخاب ہی کیا۔۔۔

اسی دوران مسجد/جنازہ گاہ کے CCTV کی فوٹیج مل گئی، جس میں صاف طور پر دو اشخاص لوگوں کی جیبوں سے موبائل فون نکالتے صاف نظر آرہے تھے، فوری طور پر تمام تصاویر اور فوٹیج USB میں ڈال کر ایس ایچ او  کو دیے تو اُنہوں نے تمام چیزیں رکھ کر فرمایا۔۔۔پیوستہ رہ شجر سے اُمید ِ بہار رکھ!

میرے دوست کو کسی نے بتایا کہ اگر تصاویر نادرہ کو بھجوائی جائیں تو آپ کے چور پکڑے جا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ایف آئی آر  ضروری ہے لیکن ایف آئی آر  تھی کہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔میرے دوست کا یہ قیمتی فون اُن کے بیٹے نے انگلینڈ سے انہیں فادر ڈے پر تحفہ دیا تھا اس لیے وہ اپنے فون کو بھولنے پر بالکل تیار نہیں تھے۔آخرکار مجبور ہو کے میرے پاس آئے اور ساری کہانی سنائی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ملتان میری پوسٹنگ بھی رہی ہے اور میں آئی ٹی  کے بارے میں کچھ بھی جانتا ہوں اور دوست کا دوست پہ حق بھی ہوتا ہے۔

میں نے کہا  مسئلہ ہی کوئی نہیں اور ایس ایچ او  صاحب کو فون کیا ،اُنہوں نے بڑے تپاک سے فون سنا اور بولے سر جلدی چور پکڑ کے آپ کے دوست کا موبائل برآمد کرلیا  جائے گا ،آپ کیوں اتنے لمبے چکر میں پڑتے ہیں، کسی اور مقدمہ میں IMEI بھجوا کر ٹریس کروا لوں گا آپ تھوڑا ٹائم دے دیں۔

ایک ہفتہ بعد دوست کے یاد کروانے پر ایس ایچ او  کو کال کی تو اُنہوں نے فون بزی کر دیا ،مطلب وہ مصروف ہیں، میرے دوست بولے بھائی اگرڈی ایس پی  صاحب کو فون کیا جائے تو ایف آئی آر  ہو سکتی ہے۔چنانچہ ہم نے ڈی ایس پی   نیو ملتان کا نمبر تلاش کیا، ڈی ایس پی   صاحب کے گن مین نے فون اٹینڈ کیا، تعارف پر اُس نے تین چار منٹ بعد بات کروائی تو ڈی ایس پی   صاحب نے فرمایا وہ میلہ بہاراں کے سلسلہ میں ڈیوٹی پر کھڑے ہیں، دوست کو کل میرے آفس بھجوا دیں۔۔۔

تین دن بعد دوست کی کال آئی کہ  آج بڑی مُشکل سے ڈی ایس پی   سے مُلاقات ہوئی ہے اور اُنہوں نے ایس ایچ او کو کال کردی تھی اور جب میں ایس ایچ او  سے ملا تو وہ بہت ناراض ہوئے اور بولے آپ نے میری شکایت کی ہے، مزید بتا یا کہ جب میں نے ڈی ایس پی   کو بولا کہ سر میں فالو اپ میں بہت مضبوط ہوں تو انہیں یہ بات سمجھ ہی نہ آئی اور بولے یہ کیا ہوتا ہے تو میں نے انہیں بتا یا کہ فالو اپ کیا ہوتا ہے اورکچھ ہو جائے، میں جان چھوڑنے والا نہیں۔۔۔

یہ ساری باتیں میرے لیے بڑی توہین آمیز تھیں ،چنانچہ میں نے اپنے ایک دوست ایس پی  کو فون کیا جن کی پوسٹنگ ملتان میں ہے اور میرے بیج میٹ بھی ہیں اُنہیں ساری روداد سُنائی تو اُنہوں نے وعدہ فرمایا کہ مقدمہ درج ہو جائے گا آپ فکر نہ کریں میں نے بینکر دوست کو بتا دیا کہ فالو اپ جاری رکھیں۔تقریباً دس دن بعد دوست کی کال آئی کہ وہ باقاعدگی سے ایس پی  صاحب کے دفتر جاتے رہے ہیں، وہ بہت مصروف ہوتے ہیں، وعدہ بھی فرماتے ہیں مگر ایف آئی آر  نہیں ہوئی آپ ایک دفعہ پھر فون کریں۔۔۔

میرے لیے یہ بات بڑی تکلیف دہ تھی کہ ایک 379pp کی جائز ایف آئی آر  کا نہ ہونے کا  کیا مطلب ہے ؟؟

بڑے جرائم جیسے ڈکیٹی یا گھر کی بڑی چوری پر تو اکثر پولیس والے مقدمہ درج کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں پر عام چوری کا مقدمہ بھی درج نہ کرنا ایک سوالیہ نشان تھا۔

میں نے ایس پی  صاحب کو فون کیا تو اُنہوں نے معذرت کی اور بولے کہ ایس ایچ او  عجیب آدمی ہے میں نے دو دفعہ فون پر اُسے کہا بھی  ہے، پتہ نہیں کیوں مقدمہ درج  نہیں کر رہا۔۔۔آخر کار ہماری کوششیں رنگ لائیں اور 7 مئی کو بلآخرایف آئی آر  درج ہو گئی۔۔۔۔۔اب اگلا مرحلہ نادرہ کے نام لیٹر لکھوانے کا تھا تفتیشی جو کہ کانسٹیبل سےاے ایس آئی  بنے تھے کو فون کر کے سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ لیٹر کیسے اور کہاں سے لکھوانا ہے مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا، مجھے بھی ان کی گفتگو سے اُن کی قابلیت کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ان تِلوں میں تیل نہیں۔۔

ایس ایچ او  کیونکہ مدعی سے ناراض تھے اس لیے اُن سے بات کرنا بےسود تھا۔پھر ہمیں اپنے ایس پی  دوست یاد آئے میں نے اُنہیں کال کی  اور اُن کے آفس ہائیکورٹ سے اُٹھ کر چلا گیا کیونکہ میں   ایڈووکیٹ کی یونیفارم میں تھا پہلے تو مجھے پہچانے نہیں، پھر پہچاننے پر بڑے تپاک سے ملے، اُن کا شکریہ ادا کیا کہ میری عزت رکھ لی ،ایف آئی آر  دلوا کے۔۔۔پھر اُنہیں عرض کیا ایک عدد لیٹر بنام نادرہ لکھوانا ہے، اور اُنہیں بریف بھی کیا ،ایس پی صاحب نے وعدہ کیا کہ تفتیشی کو بلوا کر یہ کام ہو جائے گا ،میرے دوست بڑے خوش تھے میں نے اُنہیں فالو اپ کی ہدایت کی۔

ہمارے ہاں روایت ہےکہ اگر کسی کا کام ہو جائے تو وہ دوبارہ فون نہیں کرتا ،میں بھی بھول گیا، کہ بینکر دوست کا کام ہو گیا ہو گا۔۔۔عید پر دوست کی کال آئی، مبارک کے بعد میں نے کام کا پوچھا تو بہت غمزدہ ہو کر  بولے۔۔ میرےمستقل فالو اپ کے باوجود ابھی تک لیٹر نہیں لکھا جا سکا، دل کو دھچکہ لگا، انتہائی شرمندگی محسوس ہوئی۔۔۔میں نے فوری اپنے دوستایس پی  کو فون کیا تو موصوف بڑی شرمندگی سے بولے حالات ایسے ہوگئے تھے، ماہ رمضان اور پھر عید ڈیوٹیاں آپ کا کام نہیں ہو سکا، عید کے فوری بعد ہو جائے گا۔۔

عید کی چھٹیاں بھی گزر گئیں ،ایس پی  صاحب کی کوئی کال نہیں آئی، نہ  میں نے اُنہیں دوبارہ فون کیا۔۔۔ عجیب سی بے بسی اور شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔میرے بینکردوست کی کال آئی کہ ایک دفعہ پھر Sp کو فون کر لیں اب میرا دل بھی فون کرنے کو نہیں کر رہا تھا، عجیب سے احساسات تھے۔آخر کار دل کو مضبوط کرکے ایک عدد میسیج ایس پی  صاحب کو کیا اور شاید انہیں مجھ پر ترس آگیا،شام کو مجھے میرے دوست کی کال آئی کہ مجھے تھانہ سے کال آئی ہے اور مجھے بلوایا ہے۔اور پھر مورخہ 4جون 2019 کو آخرکار ایک ریٹائرڈ بنک آفیسر ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی   کی محنت اور اللہ کے بعد جنابایس پی  صاحب کی مہربانی سے ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ایک عدد لیٹر بنام نادرہ لکھوانے میں کامیاب ہوپاپا۔

میں خود حیران ہوں کہ اتنے تعلقات اور اسی محکمہ میں اتنی سروس کے بعد یہ عزت ہے ،ایک سینئر سٹیزن کی ۔۔۔۔تو ایک عام آدمی کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہوگا  ان جیسے پولیس افسران کا ؟؟
شاید ہم سب کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
کیا ان سوالوں کا جواب ہے  اور ان پولیس والوں کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟

فرنٹ ڈسک پر رپوٹ کے بعد ایف آئی آر  کیوں درج نہیں ہوئی ؟۔۔۔۔جبکہایف آئی آر  پر تاریخ وقت وقوع 11 اپریل درج ہے اور وقت رپورٹ 7 مئی درج ہے

ایک نالائق پولیس والے کو تفتیش دینا۔۔ایس ایچ او  اور ڈی ایس پی   کا مقدمہ درج نہ کرنا،کیونکہ ان کو کوئی پوچھتا نہیں اس لیے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اب آگے کیا ہوگا ؟؟

لیٹر کے جواب کے بعد ملزمان اگر ٹریس بھی ہو گئے، کون پکڑے گا اُنہیں ؟

اگر پکڑے بھی گئے تو کیا عرفان علی اے ایس آئی  کی اتنی ہمت  ہے کہ اُن سے برآمدگی کر پائے گا ،یاکوئی سیاستدان یا پولیس ٹاؤٹ ان کو چھڑوا لے گا؟

چالان کے بعد اتنی پیشیاں ،وکلا کی ہڑتال جج کی چھٹیاں ،وکلا کی فیس ،جرائم پیشہ افراد کی دھمکیاں ،کیا میرا پڑھا لکھا بینکر بزرگ دوست کر پائے گا یہ سب ؟
آج کے دن تک نہ چور پکڑے گئے ،نہ برآمدگی ہوئی، انصاری صاحب کی اکثر مجھے کالز آتی ہیں ،میں دلاسہ دیتا ہوں وہ بھی شاید صبر کر گئے ہیں۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انصاری صاحب یا اپنا موبائل برآمد کروائیں گے یا فالو اپ سے توبہ کر لے گے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply