عید قرباں۔۔۔ شاہانہ جاوید

ذی الحج اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے۔ اس مہینے  فرض عبادات کا آخری رکن “حج ” ادا ہ ہوتا ہے، اور تمام مسلمان قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں. یہ عید الاضحٰی کہلاتی ہے قربانی کے ایام دس، گیارہ اور بارہ ذی الحج ہیں. قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور واجب ہے . ہر صاحب نصاب کو قربانی کرنی چاہیئے، اس سنت کو ادا کرنے کے لیے مسلمان حلال جانور کی قربانی کرتے ہیں ،چونکہ یہ مذہبی تہوار ہے اس لیے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے. جانوروں کی خریداری سے لیکر قربانی تک، ایک الگ ہی جذبہ ہوتا ہے۔جانوروں کی منڈیاں لگ جاتی ہیں جس میں بچے، بوڑھے اور جوان سبھی جانور کی خریداری کے ساتھ ساتھ تفریح کرنے بھی جاتے ہیں۔ سب کی خواہش ہوتی ہے اعلیٰ سےاعلیٰ جانور خریدیں. جانور کو خرید کر گھر لانے کے بعد سجانا سنوارنا بھی الگ تفریح ہے، بچوں اور لڑکوں کا مشغلہ بن جاتا ہےکہ اپنا جانور سجا بنا کر رکھیں یہاں تک یہ سب درست ہے لیکن اس فریضے کی ادائیگی میں ہم مسلمان قربانی کی اصل روح کو بھول کر نمود ونمائش میں لگ جاتے ہیں ۔
ہر طرف جانوروں کی بہار آئی ہوئی ہے ا یک مہینہ پہلے سے جانوروں کی منڈی لگ جاتی ہے، وہاں بڑے بڑے اسٹال لگائے جاتےہیں اور باقاعدہ نمائش کا انتطام ہوتا ہے۔ کیا مرد کیا بچے کیا عورتیں سب جوق در جوق جانور دیکھنے اور خریدنے جاتے ہیں ، قربانی کے جانور کی خریداری کے ساتھ نمائش کا ایک رواج چل نکلا ہے۔ ہر گھر کےآگے ٹینٹ لگاکر جنگلے بنائے جاتے ہیں اور جانوروں کو اس میں رکھا جاتا ہے. رات کے وقت بجلی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے. گارڈ بھی ملازم رکھے جاتے ہیں دیکھنے والوں کا ہجوم ایک جگہ سے دوسری جگہ گشت کرتا ہے۔ جو لوگ قربانی کر نے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ یہ دیکھ کر چاہتے ہیں اس سے بھی زیادہ اچھا اور مہنگا جانور خریدیں اور جن کی استطاعت نہیں ہوتی تو صرف دیکھ کر آہ بھرتے ہیں، بچے اپنے ماں باپ سے اس طرح کا جانور خریدنے کی ضد کرتے ہیں۔ یہیں سے قربانی کے مفہوم کی نفی شروع ہوجاتی ہے، قربانی کی غرض وغائت بھول کر ہم مسلمان نمودونمائش کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ سنت ابراہیمؑی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، مہنگے سے مہنگا اور تگڑے سے تگڑا جانور خریدنے کی ریس شروع ہوجاتی ہے ۔اپنی حیثیت اور کمائی بھول کر بچوں کی ضداور جوانوں کی پسندپر قربانی کا جانور اپنی حیثیت سے بڑھ کر خریدا جاتا ہے. ہفتہ دس دن تک جانور کی نمائش ہوتی ہے۔ کسی کے چاند بیل کی دھوم ہے، کوئی سبی کا جانور لایاکہیں آسٹریلیا سے گائیں آئیں ہیں کوئی پہاڑی بکرے لایا، کوئی پنجاب کے گھر کے پلے بکرے، غرض جانوروں کی بہار ہوتی ہے اور بڑے زور شور سے نمائش کی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

اسی گہماگہمی میں قربانی کا دن آجاتا ہے صبح سب سے پہلے نمازپڑھنے کی جلدی ہوتی ہے, کہاں سب سے پہلے نماز ہوگی ، نماز کے بعد قصائی کی تلاش شروع ہوتی ہے، قصائی الگ نخرے دکھاتے ہیں کچھ موسمی قصائی بھی ہوتے ہیں وہ صرف اس سیزن کے لیے ہی قصاب کا چولا پہنتے ہیں .اس مشکل مرحلے سے گذرنے کے بعد گوشت بانٹنے کا مرحلہ آتا ہے .حالانکہ سیدھا سادا اسلامی اصول ہے کہ گوشت کے تین حصے کیجئے, ایک خود رکھیں، ایک تقسیم کریں ,ایک غریبوں کو دیں لیکن یہاں بھی ہوس کی وجہ سے لوگ زیادہ سے زیادہ گوشت ڈیپ فریزر میں محفوظ کرلیتے ہیں، یہ دعوت کے لیے ، یہ باربی کیو کے لیے، اس کا ہنٹر بیف بنے گا ۔الاماں ،اب بچا کیا ؟چکنا گوشت اور چھچھڑے۔۔ یہ خیرات کردو . جس کے ہاں سے گوشت آئے گا اس کے ہاں بھیجوتاکہ رعب پڑے جن کے ہاں قربانی نہیں ہوئی ان کو مناسب بھیجو کونسا وہ واپس بھیجیں گے۔ یہ ہے سطحی سوچ جو عام ہے۔
قربانی ہوگئی۔ اب سکون سے سوچئے اور تجزیہ کیجئے قربانی کا مفہوم کہاں پورا ہوا ؟کہیں نہیں۔ کیا یہی قربانی ہے؟ نہیں یہ سراسر دکھاوا ہے، خدارا اپنے اندر سے دکھاوا ختم کیجئے اور اپنے آپ کو قربانی کی شرائط پر پورا اتاریے، تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوں، عید قرباں پر قربانی کا تصور اللہ اور اس کے رسولؐ کو راضی کرنے کے لیے ہے، ہمیں چاہیے اپنی حیثیت کے مطابق جانور خریدیں اور نمائش سے پرہیز کریں۔ اپنے بچوں کو بھی سادگی سکھائیں اور خود بھی سادگی اختیار کریں۔ ہم میانہ روی اختیار کریں گے تو ہمارے بچے بھی یہی سیکھیں گے۔قربانی میں نمائش کا پہلو بالکل اجاگر نہ ہونے دیں تاکہ اللہ ہم سے راضی رہے۔قربانی کا اصل مقصد ہی اللہ کی راہ میں قربانی ہے، نہ کہ دنیا والوں کو دکھانے کے لیے۔ ہم کیوں دکھاوے میں پڑ کر اپنے آپ کو اس ثواب سے محروم کردیں جو قربانی کا مقصد عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت ابراہیمی کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق دے ۔۔آمین۔۔

Facebook Comments

شاہانہ جاوید
لفظوں سے کھیلتی ہوئی ایک مصنف

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply