یورونہ بچا تو یورپ بھی نہیں بچے گا۔۔۔۔اسد مفتی

ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک رُتے نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر یورپ میں جلد ہی بڑی تبدیلی نہ آئی تو مورخ کو دنیا کی تاریخ یورپ کے بغیر ہی لکھنی پڑے گی،انہوں نے کہا کہ اگر یورپ متحد رہتا ہے تو تب ہی وہ  طاقتور رہے گا،اگرفرانس اور جرمنی اُٹھ کھڑے ہوئے اور الگ الگ رہے تو یورپ بھی کمزور رہے گا،دنیا یورپ کے لیے انتظار نہیں کرے گی۔
یورپین یونین کی مشترکہ کرنسی یورو کو جب سے بحران کا سامنا ہواہے صورتحال تبدیل ہوگئی ہے،اور وہ بھی بڑی تیزی سے۔جرمن اور ہالینڈ کے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اگر ہورپی یونین کے تمام ارکان اسی طرح سے اپنا طرزِ عمل،طریقہ کار اوررجحان رکھتے جیسا کہ جرمنی کا ہے تو یورو کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔یورپ میں آئر لینڈ،یونان اور پرتگال کی معیشتوں کی تو یورو زون نے مدد کی ہے لیکن اب ان کے سامنے بڑا سوال بلکہ سب سے بڑا چیلنج اربوں یورو کے قرض میں ڈوبی معیشتوں اور یونان اورسپین کو بچانے کا ہے۔قرض میں ڈوبی معیشتوں اور یورو کو استحکام دینے کے لیے فرانس کے صدر عمائیل نے مختلف ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات میں مصروف ہیں،
ایک بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ فرانس اپنی خود مختاری کو نہیں چھوڑے گا،اور اگر یورو زون کی معیشتیں متحد ہوکر نہیں چلتیں تو یورو کا وجود خطرے میں رہے گا۔اور فرانس اس لیے بھی چِلا رہا ہے کہ دنیا میں مستقبل میں یورپ کی آواز سنی جائے گی۔
اگر چہ یورپی یونین کو آج کل کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے لیکن سردست رکن ممالک کی تمام تر توجہ اپنی کرنسی یورو پہ مرکوز ہے،یورو گزشتہ سال سے مشکلات میں ہی گھِراہوا ہے لیکن اب کہیں جاکر یورپ کے یورو بحران کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے دنیا کے امیر اور مضبوط اقتصادیات کے حامل ممالک کے مرکزی بنکوں کی جانب سے اس بحران کے بوجھ کو تقسیم کرنے کے احساس سے ایک امید کی کرن پھوٹی ہے۔اس اقدام سے عالمی منڈیوں میں کاروباری حلقے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اوراربوں ڈالر کے کاروباری سودوں کا ڈول ڈالا گیاہے۔
جرمنی کے بازار حصص میں پانچ فیصد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے،یہی وجہ ہے کہ یورپی سطح کے مسئلوں میں جرمنی کا کردار انتہائی پُراعتماد ہے۔کئی دہائیوں تک یورپ کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط ہیں،تب ایسے یورپ کی خواہش نہیں کی جارہی تھی کہ جس پر جرمنی کی “چھاپ”ہو،بلکہ ایک ایسے جرمنی کے لیے کوششیں کی جارہی تھیں جویورپ کا حصہ ہو،جرمنی کی مخصوص تاریخ اور جنگ دوم کی وجہ سے ہر لمحے یہ خیال کیا جاتا رہا کہ کسی بھی موڑ پر سامراجیت کا شائبہ تک نہ ہو۔
جرمنی کے قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر یورپ کی “روح “متاثر نہ ہو،۔۔۔یہی وجہ تھی کہ ہالینڈ میں رہتے ہوئے بھی مجھے ایسے محسوس ہوتا رہا کہ کئی دہائیوں تک یورپ اور یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں۔بہر حال اب جرمن عوام میں یہ تاثر جنم لے رہا ہے جرمنی کو ان ممالک کی مدد کرنا پڑرہی ہے، جو اپنے مالی معاملات حل نہیں کرسکتے اور جن کی گرفت سے یہ معاملات باہر ہوچکے ہیں۔
ادھر یورپی یونین نے مالی معاملات کے حل کے لیے چین کو بھی درخواست دے دی ہے،یورپی قائدین نے چین سے مطالبہ یا درخواست (جو بھی سمجھ لیں)کیا ہے کہ وہ امدادی فنڈ میں سرمایہ کاری کرنے،بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے صدر کرسٹن لاگارڈ نے وارننگ دی ہے کہ دنیا معاشی بحران کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ان کی یہ وارننگ ایشیائی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے،کہ ایشیا ان مسائل سے مستثنٰی نہیں،جن سے آج یوروزون دوچار ہے،
صدر ارگارڈ نے چینی سنٹرل بنک کے گورنر اور اعلیٰ عہدیداروں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے یورو زون کی حالت زار کا نوحہ کہا اورانہیں یہ دھمکی نما وارننگ بھی دے ڈالی کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کوشش نہیں کریں گے تویورپی دنیا معاشی بحران کی دلدل میں پھنس جائے گی،معاشی کساد بازاری پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی،چین دنیا میں سب سے زیادہ بیرونی زرمبادلہ رکھنے والا ملک ہے،اس کے بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر3.80کھرب ڈالرہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ چین سے درخواست کی گئی ہے کہ یورو زون کو مالیاتی بحران سے نکالنے کے لیے “بیل آؤٹ”کے فنڈ میں سرمایہ لگائے۔چین کو بتایا گیا کہ ہم تمام کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے،ڈوبے توسب ڈوبیں گے،اور ابھرے توسب اُبھریں گے۔لاگارڈے نے روس کا بھی دورہ کیا ہے۔اور روس کو بھی خبردار کیا ہے کہ یورپی معاشی بحران سے اس کی چشم پوشی خطرناک ہوگی،امریکہ اور یورپ نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ چین نے اپنی کرنسی کی قدر جان بوجھ کر کم سطح پر رکھا ہے تاکہ اپنے برآمد کنندگان کوغیر قانونی فائدہ پہنچایا جائے،۔۔۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ امریکہ اور یورپ چین کی مصنوعات اور اشیاء کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
مجھے یورپ کے خستہ مالی حالات دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سرمایہ دارانی نظام ناکافی ہوچکا ہے،میرے ساتھ دنیا کے 45ممالک کے لگ بھگ ایک چوتھائی افراد بھی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں،کہ سرمایہ دارانہ نظام نقائص سے پُر ہے،یہ بات تازہ پول میں سامنے آئی ہے،گلوب سکین کے سروے 36ہزارافراد میں صرف 9فیصد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام صحیح رہا،اور مزید کسی بڑے ضابطے کی ضرورت نہیں،جبکہ 56فیصد افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بری طرح ناکام ہے،اور نئے معاشی نظام کی ضرورت ہے۔لیکن ایک شرمناک،المناک اورافسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ کے علاوہ کشور حسین شاد باد ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں 12فیصد افراد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام بالکل صحیح چل رہا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں آئے اس مالی بحران اور مندی کو دیکھتے ہوئے یہاں کے شہری اپنے مستقبل کے تعلق سے سخت فکر مند ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین ملازمت حاصل کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کا رُخ کررہے ہیں،جن میں سرِ فہرست پاکستان کا ہمسایہ بھارت ہے۔یورپ کے ایک جریدے کے صنعتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ا س وقت 40سے 50ہزار غیر ملکی ماہرین کام کررہے ہیں بھارت میں غیر ملکیوں کو ملازت دلانے والی فرم کے مینجر نے جریدے کوبتایا کہ”چونکہ ہمارا ملک تیزی سے معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے جہاں ملازمتوں کے اعلیٰ مواقع دستیاب ہیں یہ دیکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے ماہرین انڈیا کو ملازمت کے لیے ترجیح دے رہے ہیں،اور گزشتہ سال کے مقابلے میں غیر ملکی ملازمین کی تعداد میں 15سے 20فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے”۔۔۔
بھارت میں امریکی اور یورپی ماہرین بالخصوص بینکنگ،مالیاتی اداروں،آٹو موبائل،فارما،ریٹیل سیکٹراور آئی ٹی ماہرین کو خدمات کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔۔۔ان ماہرین کو بالخصوص آٹی ماہرین کو 40لاکھ روپے سے ایک ارب 25لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ مل رہی ہے۔مغربی ممالک اور امریکہ میں اقتصادی بحران کی وجہ سے وہ نوکریوں کے لیے بھارت کا رُخ کررہے ہیں۔بہت ساری کمپنیوں اور اداورں و آرگنائزیشنز نے بجٹ کی کمی کی وجہ سے اپنے دفاتر بھارت منتقل کرلیے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برصغیر کے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد روزگار اور اچھے مستقبل کے لیے امریکہ اور یورپ کا رُخ کرتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں امریکہ اور یورپ خود معاشی اور مالی ابتری کا شکار ہیں،اب ان ممالک کے تعلیم یافتہ ڈگری یافتہ اور ہنر مند افراد روزگار حاصل کرنے کے لیے بھارت کا رُخ کررہے ہیں،یعنی گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔۔۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ حالات کی تبدیلی کے بعد حالات کے خلاف شکایت نہ کیجیے،بلکہ نئے حالات کے مطابق اسکا نیا حل سوچیے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply