• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا عمران خان کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا حق ہے؟۔۔۔کامران ریاض اختر

کیا عمران خان کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کا حق ہے؟۔۔۔کامران ریاض اختر

دورہ امریکا کے دوران  وزیراعظم عمران خان نے ایک عجیب بات کہی ہے جس پر پاکستان کے میڈیا میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ عمران خان صاحب نے فرمایا ہے کہ  پاکستان اپنا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ بھارت بھی ایسا ہی کرے۔  اگر نواز شریف صاحب یا آصف زرداری صاحب نے ایسی بات کہی ہوتی تو اب تک ہمارے ہاں انہیں غدار قرار دے کر گردن زدنی کےمطالبے ہورہے ہوتے لیکن چونکہ پرویز مشرف یا عمران خان جیسے صاحبان کی حب الوطنی پر کسی قسم کا کوئی شبہ کرنے کی اجازت نہیں اس لیے وہ اس قسم کی بات کریں بھی تو کسی کو اعتراض کی جرات کم ہی ہوتی ہے۔

خیر یہ تو ایک علیحدہ بحث ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی کی یقین دہانی کرائیں؟ ایٹمی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان بہت سی مشکلات سے گزرا۔ دباؤ ،عالمی مخالفت اور اقتصادی پابندیاں برداشت کیں۔ پاکستان میں کوئی بادشاہت یا یک نفری آمریت نہیں کہ ایک شخص اٹھ کر فیصلہ کرلے کہ ہاں آج سے ایٹمی پروگرام ختم ۔ پاکستان تو ایک آئینی جمہوریت ہے جس میں عوام کی نمائندگی منتخب پارلیمان کرتی ہے۔ وزیراعظم قائد ایوان ضرور ہوتا ہے لیکن آئین کی رو  سے ایسے بنیادی اہمیت کے فیصلے اکیلے کرنے کا اختیار اسے بھی حاصل نہیں ۔ بلکہ اس سے بہت کم اہمیت کے فیصلے بھی اکیلا وزیراعظم نہیں کر سکتا، انکے لیے بھی اسے پوری کابینہ کی منظوری لینا پڑتی ہے۔ کیا عمران خان صاحب نے ایسا اہم پالیسی بیان دینے سے پہلے کابینہ کی منظوری لی؟ کیا پارلیمان میں اس پر بحث ہوئی اور پارلیمان کی اکثریت نے نے عمران خان صاحب کو یہ اجازت دی کہ وہ کسی بھی وجہ سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کی پیشکش کریں؟  بغیر کابینہ کی منظوری اور پارلیمان کی اجازت کے اس قسم کی کوئی بھی پیشکش انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی ایک فرد جماعت، یا ادارے کی ملکیت نہیں۔ اس کے مستقبل کا فیصلہ کوئی ایک فرد نہیں بلکہ مملکت پاکستان کے منتخب نمائندے ہی کر سکتے ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام بھارت کی طرف سے اس شعبے میں پیش قدمی کے بعد شروع ہوا، لیکن اب ہمارے لیے اس کی اہمیت و نوعیت مختلف ہے۔ روایتی فوجی استعداد میں بھارت کو پاکستان پر واضح برتری حاصل ہے اور بھارت کی جانب سے فوجی بجٹ میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے ۔ یہ ایٹمی ہتھیار ہی ہیں جو بھارت کے ساتھ کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں ہمیں برابری کے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں اور کسی بھی بڑی فوجی جارحیت کے مقابلے میں ہماری ڈھال ہیں۔ بھارت کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن اور پاکستانی سرحدوں کے ساتھ بنایا گیا فوجی کنٹونمنٹوں کا جال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کے عزائم پاکستان کے بارے میں کس حد تک جارحانہ ہیں۔ ایسی کسی بھی ممکنہ جارحیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہی ہیں۔ پھر ہمارے لیے اب خطرہ صرف مشرقی سرحدوں کی جانب سے نہیں۔ ایٹمی ہتھیار اور انکے ڈلیوری سسٹم کسی بھی ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے ساتھ ممکنہ کشمکش کی صورت میں ہماری سلامتی کے ضامن ہیں۔ انہیں صرف بھارت کے ساتھ تعلقات سے نتھی کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اگر ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہ ہوں تو کل کو کسی بھی ایٹمی ملک کا لاابالی سربراہ اٹھ کر ہمیں بھی افغانستان کی طرح دھمکا سکتا ہے کہ میں چاہوں تو پاکستان کو ایک ہفتے میں صفحہ ہستی سے مٹا دوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایٹمی پروگرام جیسے معاملات جن سے 22 کروڑ عوام کا مستقبل وابستہ ہے ان پر پارلیمان میں اور پارلیمان سے باہر بحث ہونی  چاہیے اور ان کے بارے میں حکمت عملی عوامی نمائندوں کو ہی اکثریت رائے سے طے کرنی  چاہیے۔ کوئی ایک یا چند اشخاص  چاہے وہ وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھتے ہوں یا سرکاری ملازمت کرتے ہوں، ہرگز اس کے مجاز نہیں کہ وہ خود سے اس بارے میں   کوئی بھی فیصلہ کر لیں۔ ڈنڈے کے زور سے اپنی رائے مسلط نہیں کی جاسکتی۔ اس قسم کے اہم ترین معاملات کا فیصلہ عوامی نمائندوں سے بالا بالا کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک میں شدید انتشار کا باعث بنے گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کیے بغیر اس قسم کی بے سروپا پیشکشوں سے پرہیز کیا جائے۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply