کمراٹ۔۔۔۔توصیف ملک/قسط6

کٹورہ جھیل کا ٹریک :

ہوٹل پہنچ کر بھوک بھی لگ چکی تھی ، کھانے کا ہوٹل والے کو دوپہر کو ہی آرڈر دے چکے تھے ، اس نے دال چاول اور کڑاکی کی آپشن دی تھیں جس میں سے ہم نے دال چاول کا انتخاب کیا تھا لیکن وہ بھول چکا تھا اور کھانے میں ابھی دیر تھی۔۔
جلدی سے مغرب کی نماز پڑھی ، سردی بڑھ چکی تھی اور بخار کی وجہ سے بھی سردی زیادہ لگ رہی تھی ، ہمیں بھوک سے زیادہ جلدی سونے کی تھی کہ کھائے بغیر نہیں سو سکتے تھے۔
اتنی دیر میں عشاء کا وقت بھی داخل ہو گیا ، جب بخار کی حالت میں باہر نکلا تو شدید کانپ رہا تھا ، مجھے کمرے میں ہی نماز پڑھنی چاہیے تھی جو کہ میٹریس کو ادھر ادھر منتقل کرنے سے ہی ممکن تھا۔

کمرے میں چار میٹریس اور چار ہی رضائیاں موجود تھیں ، میں نے دو رضائیاں اوڑھ لیں ، اسی دوران والدہ کا میسیج بھی آگیا کہ تھکاوٹ ہو گی تو بروفن کی گولی کھا لینا ، کھانے میں توقع سے زیادہ وقت لگ گیا لیکن کھانے کے بعد دوائی کھائی اور ڈبل رضائی لے کر سو گیا
باہر سردی تھی لیکن کمرہ کچن کے بالکل ساتھ ہونے کی وجہ سے قدرے گرم ہو چکا تھا ، تھکاوٹ سے نیند نہیں آ رہی تھی لیکن پتا نہیں چلا کہ کب نیند آ گئی۔۔

صبح جب اٹھا تو بالکل تازہ دم تھا ،بخار بھی اتر چکا تھا اور اب جھیل پر جانے کے لئے بالکل تیار تھا ، خان صاحب کو اٹھایا اور ناشتے کا آرڈر دے دیا ، ناشتے میں انڈے پراٹھے اور چائے دستیاب تھی،ہم نے صرف پراٹھے اور چائے کا آرڈر دیا ، پراٹھے ہوٹل والوں کے گھر سے تیار ہو کر آتے تھے جو کہ تھوڑا سا اونچائی پر واقع تھا۔

آج ساتھ کچھ سامان نہیں لے کر جانا تھا ، دو چھوٹے پلاسٹک بیگ تھے جن میں سے ایک میں کچھ پھل اور پانی کی بوتل تھی جبکہ دوسرے میں بسکٹ اور مرنڈا کی بوتل تھی۔
یہ بات ہمیں اب معلوم ہوئی کہ جب بھی چڑھائی پر جانا ہو تو ساتھ میٹھی چیز جیسے چاکلیٹ یا کھجور وغیرہ ہونی چاہیے ، چڑھائی چڑھتے ہوئے انرجی بہت زیادہ لگتی ہے تو اکثر شوگر لیول نیچے آ جاتا ہے جس سے تھکاوٹ زیادہ محسوس ہوتی ہے ،کچھ لوگ انرجی ڈرنکس جیسے “سٹنگ ” وغیرہ کے استعمال کا بھی مشورہ دیتے ہیں جبکہ مقامی لوگ اپنے پاس کچا پیاز رکھتے ہیں اور آکسیجن کی کمی ہونے پر ایسے ہی کھا لیتے ہیں۔
ہم تقریباً آٹھ بجے کٹورہ جھیل کے ٹریک کے لئے نکل چکے تھے ، پہلے ایک گھنٹے کا راستہ سیدھا تھا ،کہیں کہیں چھوٹی چڑھائی آ جاتی تھی لیکن اجمل خان صاحب پھر بھی آگے رہتے تھے ،کچھ دور جا کر رک جاتے اور میرا انتظار کرتے اور میرے پہنچنے تک پھر آگے بڑھ جاتے۔
مجھے سانس کا مسئلہ ہو رہا تھا جس کی وجہ سے میری رفتار بہت آہستہ تھی ، کئی ٹولیاں پیچھے سے آئیں اور پھر میرے سے آگے نکل گئیں ، ان میں سے ایک یونیورسٹی کے لڑکے بھی شامل تھے ، خان صاحب کی ان سے پہلے بھی دعا سلام ہو چکی تھی اور پشتو بولنے کی وجہ سے یہ دعا سلام دوستی میں تبدیل ہو گئی ، خان صاحب اب میرے بارے مایوس ہو چکے تھے کہ شاید میں راستے سے واپس چلا جاؤں گا اور اسی وجہ سے اب وہ یونیورسٹی کے لڑکوں کے ساتھ آگے چلتے جا رہے تھے اور میں بالکل اکیلا رہ گیا
مجھے تھکاوٹ نہیں تھی صرف سانس کا مسئلہ ہو رہا تھا ، آکسیجن کی کمی اور پھیپھڑوں میں مسئلے کی وجہ سے تھوڑا سا چلنے پر سانس پھول جاتا اور دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جاتی تو مجبوری میں رکنا پڑتا۔
میرا کئی دفعہ حوصلہ ٹوٹا کہ بس بہت ہو گیا اب یہاں سے واپس جاتا ہوں لیکن تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر چلنے لگتا ، اور پھر تھک کر بیٹھ جاتا ، اپنے ارد گرد پہاڑوں کو دیکھتا ، سبز گھاس کو دیکھتا ، دور اپنی منزل کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا اور ایک وقت تو یہ آیا کہ میرا ذہن بالکل خالی ہو گیا اور میں خالی الذہن ہی آگے بڑھتا رہا۔
آگے ایک مکان نظر آیا جس نے حیران کر دیا ، اس ویرانے میں کون رہتا ہو گا ؟۔۔

یہ ایک چرواہے کا گھر تھا جس نے جانوروں کے لیے یہاں ڈیرہ ڈال رکھا تھا ، یہاں سبزہ اور گھاس بہت وافر تھے ، تھوڑا سا مزید آگے گیا تو جانور بھی نظر آئے ، ان میں ایک عجیب بات تھی ، میں پہلی دفعہ ایسے جانور دیکھ رہا تھا ، ان کی جسامت اور بال دنبے کی طرح تھے لیکن دم غیر معمولی طور پر بہت بڑی تھی ،دور سے دیکھنے پر پانچویں ٹانگ کا گمان ہوتا تھا ، یہ ریوڑ تقریباً سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان تعداد پر مشتمل تھا ، یہ جانور پہاڑوں کے عادی تھے اور جس برف کے تودے پر گزرنے سے ہم گھبراتے تھے یہ اس پر دوڑ لگاتے گزر جاتے تھے۔

آخر ایک چھوٹی جھیل نظر آنا شروع ہو گئی ، دو بندے قریب سے گزرے تو اس جھیل کا نام پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اسے چھوٹی کٹورہ جھیل کہتے ہیں ، اس کا نظارہ بھی بہت خوبصورت تھا ، ایک بڑے پتھر پر بیٹھ گیا اور پندرہ منٹ بیٹھا رہا ،یہاں سے جھیل واضح نظر آ رہی تھی۔

جھیل پر جانے کے دو راستے ہیں ،ویسے تو راستہ ایک ہی تھا لیکن ایک اوپر پہاڑ سے گزرتا تھا اور دوسرا نیچے دریا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ، اگر اوپر والے راستے سے جائیں تو 14 گلیشئرز  سےگزرنا پڑتا تھا اور اگر دریا کے ساتھ ساتھ چلیں تو چار گلیشئر سے گزرنا پڑتا تھا
میں نے نیچے والا راستہ اختیار کیا کیونکہ گلیشئر پر چلنا خطرناک تھا ، دھوپ کی وجہ سے برف پر پھسلن ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں کھائی میں گِرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، جب پہلے گلیشئر پر پہنچا تو دیر تک اس کو دیکھتا رہا کہ کیا میں اس کو پار کر سکوں گا ؟
میں بالکل اکیلا تھا ، ایسے موقع پر کسی دوسرے کا ساتھ ضروری ہے جو کہ حوصلہ دیتا ہے اور ایک دوسرے کی مدد ہو جاتی ہے۔

پہلا قدم رکھا تو تھوڑا سا پھسل گیا ، اسی وقت اپنے ہاتھ کی انگلیاں برف میں گھسا دیں جس سے قدم جم گئے ، میں اس جھٹکے سے ڈر گیا تھا لیکن پھر حوصلہ کیا اور آرام آرام سے گلیشئر پار کر ہی لیا۔
سانس کا مسئلہ ہنوز برقرار تھا اور اب تھکاوٹ بھی محسوس ہونے لگی تھی، یہاں اللہ نے مدد فرمائی اور سانس کو قابو کرنے کا طریقہ سمجھ آ گیا ، منہ سے لمبے لمبے سانس لینے پر یہ مسئلہ ختم ہو گیا ، چڑھائی چڑھتے ہوئے میں با آواز لمبے لمبے سانس لیتا جس سے دل کی دھڑکن نارمل رہتی ، آگے ایک پہاڑ پر پہنچا تو ایک نڈھال لڑکا وہاں لیٹا ہوا تھا ، وہ ہمت ہار چکا تھا۔۔

وہ لڑکا اسلام آباد کا رہائشی تھا اور اس کے ساتھی بھی آگے نکل چکے تھے ،میں بھی اس کے پاس ہی بیٹھ کر سستانے لگا ،ویسے تو میں خود بھی حوصلہ ہار چکا تھا لیکن اس لڑکے کو حوصلہ دینا شروع کر دیا کہ اتنی دور آ کر بھی واپس جانا مناسب نہیں لگتا ، اس ترغیب سے مجھ میں بھی ہمت آ گئی ،اتنی دیر میں اس کی ٹیم کے دو ساتھی اس کو آوازیں دیتے ہوئے اس کے قریب آ گئے اور وہ بھی اس کو حوصلہ دینے لگے ، اس کے پاس بیٹھ گئے اور اس کی دلجوئی کرنے لگے اس کو کھانے کو چیونگم دی کہ اس سے شوگر لیول ٹھیک ہو جائے گا ،مجھے بھی چیونگم دی جس کو میں نے فوراً قبول کر لیا اور بدلے میں میرے پاس سبز آلوچے تھے جو میں نے سب کے ساتھ شئیر کیے ،وہ پہلے حیران ہوئے کہ یہ کیا ھلہے ؟ یہ چیری لگتی ہے ،پھر میں نے بتایا کہ یہ مقامی آلو بخارا ہے ،اس وقت اس آلوچے نے بھی بہت مزہ دیا
وہ پڑھے لکھے سلجھے ہوئے نوجوان تھے ،میں نے ان کے ساتھ ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا کہ ایک تو وہ بھی آہستہ چل رہے تھے دوسرا ان کو دیکھ کر مجھے حوصلہ مل رہا تھا کہ ادھر میرے سے بھی ” سُست ” کوئی دوسرا بھی ہے ، میں اٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھنے لگا ، تھوڑی دیر میں وہ بھی پیچھے آگئے ، اب وہ لڑکا بھی ساتھ تھا جو کہہ رہا تھا کہ میں آگے نہیں جا سکتا ، راستہ پُر خطر ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی بہت تھا۔
چھوٹی چھوٹی پگڈنڈی کے ساتھ پیلے اور نیلے رنگ کے جنگلی پھول کِھلے ہوئے تھے جو سبزے پر ایک علیحدہ ہی منظر بنا رہے تھے ، دریا کی پتھروں سے ٹکرانے کی آواز اور بادلوں میں سورج کی آنکھ مچولی ،ارد گرد سبزے اور بڑے بڑے درختوں سے گھرے پہاڑ ،ان پہاڑوں میں نظر آتی، آبشاریں اور برف کے تودے دل میں احساس پیدا کرتے تھے کہ” کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے ”

چلتے ہوئے ایک اور گلیشئر آ گیا ، ابھی اس پر چلنے ہی لگا تھا کہ دو بندے بھی اسے پار کرنے آ گئے ،ان میں سے ایک مقامی تھا جبکہ دوسرا لاہور کا تھا ،مقامی گائیڈ کے طور پر ساتھ آیا تھا ، یہ لاہور کے تین بندے تھے اور گائیڈ تھل سے ہی ان کے ساتھ تھا ، گائیڈ اٹھارہ سال کا لڑکا تھا لیکن ڈیل ڈول اچھا تھا اور بہت اچھا بندہ تھا
میں نے گائیڈ سے کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے کر گلیشئر پار کروا دو ،اس نے کہا کہ لاہور والے بھائی کا ہاتھ پکڑ لو اور خود اس کا ہاتھ تھام لیا ، ہم آگے پیچھے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگے ،گائیڈ ہمارے لئے برف پر جوتوں سے راستہ بناتا اور پھر ہم اس نقش قدم پر پاؤں رکھ کر آگے بڑھتے ، ہم تینوں میں سے اگر کوئی پھسلتا تو دوسرے کے سہارے کی وجہ سے گِرنے سے بچ جاتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا اجمل خان صاحب سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ اس وقت وہ کہاں ہو گے،میں واپس آنے والوں سے اجمل خان صاحب بارے بھی پوچھتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں ، جھیل پر پہنچنے سے آدھا گھنٹہ پہلے وہ مجھے واپس آتے دکھائی دئیے ، وہ اوپر والے ٹریک سے واپس جا رہے تھے جبکہ ہم نیچے دریا کے ساتھ چل رہے تھے ، دور سے سلام دعا ہوئی ، خان صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ میں پہنچ گیا تھا اب وہ واپسی کا کہہ رہے تھے کہ یونیورسٹی کے لڑکوں کے ساتھ ہی واپس جانا ہے۔
جھیل کی سب سے آخری چڑھائی سب سے خطرناک تھی ، میں نے یو ٹیوب پر تازہ ویڈیو دیکھی تو برف پگھلنے کی وجہ سے ٹریک صاف ہو چکا تھا جبکہ ہماری دفعہ برف کے گلیشئر کی بالکل ڈھلوان تھی اور اسے کراس کرنا بہت مشکل تھا ، لاہور والے اور گائیڈ اس گلیشئر پر یا تو آگے تھے یا ابھی پیچھے تھے ، میں اکیلا تھا اور نیچے دیکھنے پر برف کی سلائیڈ کھائی میں جاتی نظر آتی تھی۔
بہر حال بہت مشکل سے یہ بھی کراس کر لیا ،اس کے پانچ منٹ کے بعد میں جھیل کے سامنے تھا !
یہ جھیل قدرت کا ایک بہترین شاہکار ہے ، اس کا نام کٹورہ اس کی بناوٹ کی وجہ سے ہے ، چاروں طرف برف پوش پہاڑ اور جہاں سے جھیل کا پانی نکلتا ہے وہ اس کا گیٹ وے ہے ، جھیل کا پانی پر سکون اور شفاف تھا ، اتنا شفاف کہ تہہ میں موجود پتھر بھی نظر آ رہے تھے ، اب بادل بہت زیادہ ہو چکے تھے کسی بھی وقت بارش کا امکان تھا اور ان بادلوں کی وجہ سے بھی نظارہ بہت شاندار ہو چکا تھا ، جھیل پر صرف ایک ہی چھوٹا سا ڈھابہ موجود تھا جہاں آٹھ دس لوگ چائے پی رہے تھے ، ایک چھوٹی عمر کا لڑکا اس ڈھابے کو چلا رہا تھا ، یہ گائے کے دودھ کی چائے بیچ رہا تھا اور ایک کپ چالیس روپے کا تھاجو کہ مناسب قیمت تھی،مجھے چائے کی طلب نہیں تھی اس لئے وہاں صرف تصویر لینے اور نظارے کو انجوائے کرتا رہا ، جھیل ایک پہاڑ کی چوٹی کے بالکل ساتھ ہے اور یہاں پاکستان کا ایک بڑا جھنڈا بھی کسی نے نصب کیا ہوا تھا اور یہ اس مقام پر بہت خوبصورت لگ رہا تھا
تقریباً آدھا گھنٹہ وہاں ٹھہرنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا ، پہلے اسلام آباد کے لڑکوں کو کہا کہ واپس اکھٹے چلیں گے لیکن ان کو ابھی دیر تھی ،وہ ڈی ایس ایل آر کیمرہ لائے تھے اور فوٹو گرافی میں مشغول تھے ،اتنی دیر میں لاہور کے لڑکے اور گائیڈ واپسی کے لئے جانے لگے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو گیا۔
موسم کے تیور خطرناک ہو چکے تھے ، ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی ، بارش میں ٹریک پر چلنا بہت مشکل اور خطرناک ہوتا ہے ،برف پر بھی پھسلن زیادہ ہو جاتی ہے اور ابھی اترتے ہوئے سب سے پہلے برف کے گلیشئر سے ہی گزرنا تھا۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply