ہم جنسیت اور اسلام۔۔۔۔۔سلیم جاوید/آٹھویں ،آخری قسط

زیرنظر موضوع کی آج آخری قسط ہے اور اس میں، “گے اور لزبئین” بچوں کے والدین کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں-

آپ کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پرانے زمانے کے لوگوں کیلئے کھانا کھانا، صرف زندگی برقرار رکھنے کا سامان ہوتا تھا- اس لیے صدیوں تک روٹی سالن تک ہی بات ٹھہری رہی- مگر آج کے دور میں کھانا، ضرورت سے زیادہ لطف کا سامان بن گیا ہے تو پیزا، برگر، بروسٹ وغیرہ سینکڑوں اقسام کے کھانے متعارف ہوچکے ہیں۔بعینہ پرانے زمانے میں جنسی مباشرت کرنا، صرف اپنی شہوت پوری کرنے اور بچے حاصل کرنے کا ذریعہ تھا جبکہ آج کل یہ لطف کا سامان بن چکا ہے – نئی نسل اسکے ہرزاویے سے لطف لینا چاہتی ہے- پس خود کو سنبھالیے، کبھی کبھار بچوں سے صرف نظر بھی کرلیا کیجیے۔

اس مضمون میں تفصیل سے عرض کیا ہے کہ ہم جنسی شرعی طور پربرائی  ضرور ہے مگریہ ایسا جرم نہیں کہ آپ کے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی ،ہمارے ہاں کسی کا بیٹا “گے” نکل آئے تو دراصل دین سے زیادہ کلچر کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے، براہ کرم، ایسے کیس کو”اسلامی طلاق” کی طرح لیجیے  نہ کہ “ہندوانہ طلاق” کی طرح کہ جس میں گویا بیٹی، باپ کے گھر واپس نہیں آتی بلکہ اسکاجنازہ آیا کرتا ہے-

دراصل، مذہبی لوگ اس بات کو اس قدرمبالغہ آمیز انداز میں اعصاب پرسوار کرلیتے ہیں کہ بچے کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں جیسا کہ ہمارے “اکابر” میں سے ایک نے اپنےاکلوتے بیٹے کے ساتھ کیا تھا- باپ کا حکم تھا کہ بیٹے کو ہروقت گنجا رکھا جائے( تاکہ خوبصورت نہ دکھے)-بیٹا اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے کہ مسجد میں جماعت کی نمازمیں اگر ایک آدمی دوسری نماز میں بھی میرے ساتھ کھڑا ہوجاتا تو میں ڈر کے مارے نماز توڑ کردوسری جگہ کھڑا ہوجاتا کیونکہ والد صاحب کی مجھ پر نظر رہتی تھی اور اس پرمجھ سے سخت بازپرس ہوتی کہ یہ آدمی تیرے پہلو میں دوسری بار کیوں کھڑا تھا؟(نام لینے کی ضرورت نہیں ہےمگردکھ یہ ہے کہ ایسے “ذہنی مریض” والد کے لاکھوں پرستار بھی ہمارے ہاں موجود ہیں جو خود کئی لوگوں کیلئے رول ماڈل بنے ہوئے ہیں)-

آمدم برسرمطلب!

کوئی  بچہ وقتی ہم جنسی میں مبتلا ہوتا ہے اور کوئی  پیدائشی” گے” ہوتا ہے-انتہائی  ڈفر نہ تو ہرماں کو اپنے بچے کے بارے فوراً  پتہ چل جایاکرتا ہے-(ٹپ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اگر بیٹا، لڑکیوں جیسے نازک نقش ونگار رکھتا ہے، جسم پربال بہت کم ہیں اوربلوغت کے قریب اپنے بننے سنورنے میں زیادہ وقت لگاتا ہے تو ذرا الرٹ ہوجائیے)-

بچے کا کیس “وقتی والا” ہے یا “دائمی والا”، دونوں صورتوں میں اگر بچے کا پارٹنراسکا ہم عمر ہے توزیادہ فکر کی بات نہیں مگراسکا پارٹنراس سے بڑی عمر کا ہے تو چوکنا ہوجائیے – یہ عموماً  ریپ کا کیس ہوتا ہے جس میں بچے کوورغلایا یا دھمکایا گیا ہوتا ہے-اگربچہ، اپنے سے بڑی عمروالے  کے ساتھ دیکھا جارہا ہے تو اب اچھی طرح تسلی کیجیے  کہ آپکا بچہ وقتی “گے” ہے یا دائمی؟- اس بچے کو بچانا آپکا ٹارگٹ ہے جو کہ بچے کو اپنا پورا اعتماد دے کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے-میں آگے معروضات پیش کروں گا مگر ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے ایک احمقانہ تجویز دی جارہی ہے کہ بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جائے- خاکسار نے سانحہ قصور بارے اپنے مضمون میں اس بیوقوفانہ تجویزکےخلاف اپنا موقف بیان کردیا تھا- وہاں ملاحظہ کرلیا جائے-

میں اس وقت ان”گے” لڑکوں کی بات کررہاہوں جو بلوغت کی ابتداء میں ہیں (یعنی ٹین ایجر گروپ میں ہیں)-رحجان کے حساب سے کوئی  بچہ فاعل(ٹاپ) ہوتا ہے اور کوئی  مفعول(باٹم ) بھی-عموماً  ایک ٹین ایجر بچہ ازخود فاعل نہیں بنتا- اسکو کسی مفعول نے ہی ایکٹیو کیا ہوتاہے- خیر، اس کیس کو مزید ڈسکس نہیں کرتے کیونکہ ہمارے سماج میں یہ برائی  کی بجائے بڑائی  کی علامت تصور ہوتی ہے( آپ نے وہ لطیفہ سنا ہوگا جس میں تھانیدارکو رشوت دی جاتی ہے کہ ایف آئی  آر میں ہمارے بابے کو اوپر بتانا ہے)۔۔لہذا، آپ بھی اس کیس کو زیادہ اعصاب پہ سوار نہ کریں-

جہاں تک ٹین ایجر”مفعول” کا تعلق ہے-اس میں دو قسم کے کیس لے لیتا ہوں – ایک وقتی ہم جنس اور ایک دائمی ہم جنس-

خدا نخواستہ کسی کا بچہ “گے” نکل آئے تو یاد رکھیے  کہ اگربچے کو بچانا ہے تو پہلے والدین کی”کوچنگ” کرنا ضروری ہے-جب تک کوئی  اچھا کوچ نہیں ملتا، تب تک والدین باہمی مشورے سے ایسی ترتیب بنائیں کہ بچہ گھر کے علاوہ کہیں اور جاکریہ فعل نہ کرے- اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسکو کھلی چھوٹ دے دیں- دوباتوں کا خیال رکھنا ہے- ایک یہ کہ بچہ یہ سمجھے کہ والدین کو کچھ خبرنہیں ہے- دوسرے یہ کہ بچے کو یہ خطرہ ضرور ہو کہ والدین کو پتہ چلے گا تو وہ ناراض ہونگے مگر یہ خطرہ نہ ہو کہ اسکی تکہ بوٹی کردی جائیگی- بچے کودوست بنا کررکھا جائے-(اس بارےمزید نصائع آپکو انٹرنیٹ پر بھی مل جائینگی)-

اب مسئلہ ان بچوں کا ہے جوپیدائشی” گے” ہوتے ہیں-

دیکھیے، ایک ماں سے بیٹا نہیں چھپ سکتا- ماں بیچاری، بیٹے میں یہ عادت محسوس کرتے ہی، باپ کو بتا دیتی ہے- باپ کو باقی کسی شریعت سے غرض نہیں ہوتی مگریہاں چونکہ ناک اور کلچر کی بات ہے تو جوتی اتار کرپھنٹی لگانا شروع کردیتا ہے- پھینٹی سے جبلت بدلتی نہیں مگر دب جاتی ہے اور مزید خوفناک ہوکرراستہ پاتی ہے-

ایک سے زیادہ کیسز خاکسار کے علم میں ہیں کہ کسی کا لڑکا، گے پیدا ہوا(مفعول) اور باپ نے مار مار کراسکو باغی کردیا-بچہ اپنی چاہت پوری کرنے گھرسے بھاگ گیا اور ہمیشہ کیلئے ضائع ہوگیا- اسکے بالمقابل ایسے کیس بھی دیکھے ہیں کہ بچپن میں ایک بچہ مستقل مفعول رہا،مگر کسی نے ماراپیٹا نہیں بلکہ اسکو سنبھالا گیا توایک دورسے گزرنے کے بعد، وہ معاشرے کا فعال رکن بن گیا-

خدا نہ کرے کسی کا بچہ بائی  ڈیفالٹ “باٹم” ہو- اب مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بچہ خود ہی اپنے سے بڑی عمروالوں کے پاس جایا کرتا ہے- دو وجہ سے۔۔۔ایک یہ کہ اسکے ہم عمرابھی خود بچے ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ شوق یا قوت نہیں ہوتی- دوسرے وہ اپنے ہم عمروں کے سامنے جھکنے میں ڈی گریڈ فیل کرتا ہے- والدین اسکی جبلت کو بدل تونہیں سکتے مگراسکی شدت کوکم کرسکتے ہیں- ایسے بچے کیلئے پہلا ٹارگٹ یہ  ہونا چاہیے کہ یہ کم ازکم ٹین ایجری دورتک، بڑی عمرکے گیز کے ماحول سے نکل آئے ،اسکے بعد یہ خود کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول کرلے گا-

اس سلسلے میں خاکسار کا پہلا مشورہ یہ ہے کہ اگر خدا نے استطاعت دی ہے تو بچے کو دور کسی اچھے بورڈنگ میں داخل کردیں- وہاں یہ اپنے ہم عمروں کے ساتھ رہے گا- بہت ممکن ہے کوئی  پروفیسر بھی “گے” نکل آئے مگرایک توگلی محلے کے لوفروں کی طرح اسکو بلیک میل نہیں کرے گا، دوسرے یہ کہ چندسال بعد، بچے نے اس بورڈنگ سے نکل ہی آنا ہے-

دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے بچے کو مذہب کی طاقت ہی کنٹرول کرسکتی ہے-جتنا زیادہ خدا رسول کی محبت اور آخرت کا خوف دل میں جگہ پکڑے گا، اتنا ہی یہ بُرا، فطری جذبہ کنٹرول میں آتا جائے گا-

میں ہرگز مشورہ نہیں دونگا کہ گے بچے کو اسلامی مدرسے میں داخل کیا جائے- وہاں نا  صرف یہ عادت مزید پھلے پھولے گی بلکہ یہ بچہ دین کے نام پردورنگی سیکھتا چلا جائے گا جو کہ ایک اور مصیبت ہے- مزید یہ کہ آئندہ بھی کرنے کو کوئی  کام نہیں ہوگا سوائے اسی ایک کام کے-

میری ادنی گزارش البتہ یہ ہے کہ ایسے بچوں کویا توکسی متعمدشیخ سے منسلک کروا دیں (گویا سائیکاٹرسٹ کے حوالے کردیا) یا پھرتبلیغی جماعت کے ساتھ بھیجا کریں-
تبلیغی جماعت کا مشورہ چار وجوہات کی بنا پردیتا ہوں- (1)-انکے ساتھ تھوڑے وقت کیلئے جانا ہوتا ہے-(2) وہاں تنہائی  نہیں ہوتی بلکہ مختلف عمر والوں کا ہمہ وقت ساتھ ہوتا ہے-(3) مسجد کا ماحول ہونے کے علاوہ بھی انکی ٹریننگ سخت ہوتی ہے-(4) مفعول( گے) لڑکے، کھانا پکانے، دسترخوان بچھانے(یعنی خدمت کرنے) کا فطری ذوق رکھتے ہیں تو وہاں اس میں مصروف رہتے ہیں-(بہتر یہ ہے کہ پہلے کم وقت کیلئے بھیجا جائے اوروالد ساتھ خودجائے)-

اب رہا لیزبئین کا کیس۔۔۔

عرض یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے لڑکیوں کا آپس میں سیکس کرنا بھی عام ہوتا جارہا ہے مگربالخصوص ماؤں سے گزارش کروں گا کہ اسکو اتنا زیادہ سیریس نہ لیں-

بات یہ ہے کہ ایک لڑکی لاکھ لیزبئین بن جائے، وہ مستقل ہم جنس نہیں بن سکتی(الا ماشاءاللہ)-

دیکھیے ، لڑکے کی شہوت کا “مقصود اصلی”، سیکس کا عمل کرنا اوراپنی گرمی نکالنا ہی ہوتا ہے-ایک مرد،جب تک یہ کام نہ کرلے ،اس کو چین نہیں آتا اور جب ” فارغ” ہوجائے تو اسکا دماغ کافی وقت کیلئے باقی کاموں کیلئے یکسو ہوجاتا ہے- (خدا نے مردکو ایسے ہی بنایا ہے تاکہ دنیاوی اموریکسوئی  سے انجام دے سکے)-

عورت کی شہوت میں “مقصودِ اصلی” اسکا جنسی طور پرفارغ ہونا نہیں ہوتا بلکہ اسکی فطرت میں خدا نے تین اور چیزیں رکھ چھوڑی ہیں-یہ تین چیزیں اسکی ضرورت اصلی ہیں جبکہ جنسی عمل اسکی ثانوی ضرورت ہے-

وہ تین چیزیں یہ ہیں-

ایک یہ کہ عورت کی زندگی کا حاصل، مرد کے سینے پرسررکھ کراسکی چاہت کی برسات میں بھیگنا ہوتا ہے- دوسرے، اسکی طبیعت میں ہے کہ اپنے حسن وعشوہ سے ایک پہاڑ جیسے مرد کوبچے کی طرح اپنی منت سماجت کرتا دیکھے- تیسرے خدا نے اس میں لذت تخلیق رکھی ہے اور اس نے بچہ پیدا کرنا ہے-

یہ تینوں چیزیں ایک عورت بھلا ایک عورت سے کیسے حاصل کرسکتی ہے؟۔۔مانا کہ ” این جی اوز” کی محنت اور پورن فلموں نے لڑکیوں میں ہم جنسی کوفروغ دے دیا ہے مگربے فکر رہیے، انکا کام اس سے چل ہی نہیں سکتا- بس آپ ذرا پردہ رکھا کیجیے- اگر ایسے کیس میں آپ والد ہیں یا شوہرہیں تو ذرا صبرکیجیے اور اپنی محبت کو بچی یا بیوی کیلئے ذرا افزود کردیجیے-

طوالت کی معذرت کے بعد، خلاصہ مضمون کے طورپرپانچ باتیں عرض کرکے اجازت چاہوں گا-

1- مختلف وجوہات کی بنا پر، ہمارے سماج میں ایسے جسمانی اور نفیساتی مریض زیادہ منظر عام پر آرہے ہیں جن کا عورت یا مرد ہونا واضح نہیں ہورہا- پرانے زمانے کے” سوشل پریشر” کی طرح یہ مخفی نہیں رہے اور” سوشل میڈیا” کی بدولت، سماج ان سے متاثر ہورہا ہے-مصلحت عامہ کے پیش نظر، اس کیس کو سیریس لینے کی ضرورت ہے-اس میں اصل رول علمائے کرام ادا کرسکتے ہیں-

2- مخنث لوگ بھی خدا کی تخلیق ہیں- انکی عزت نفس کا تحفظ اور بہترمعاش بارے سوچنا، اہل دانش کاانسانی فریضہ ہے- جسمانی یا نفسیاتی طور پر نا مکمل مرد یا عورت ایک مریض ہی سمجھا جائے اوراسلام، اسکو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے مرض کا علاج کرائے- جن کی جسمانی بحالی ممکن ہے، انکے بارے شرعی موانع پر باردگر سوچ و فکر کرنا، اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ہے-

3- سماج کوشعور دینا چاہیے کہ جسمانی اور نفیساتی مریض الگ چیز ہوتے ہیں- ہم جنس پرستی بھی ایک ابنارمل چیزہے – اہل مذہب کا کام ہے کہ اسکی روک تھام کریں مگراسکی بیخ کنی کرتے ہوئے ایسی حکمت اپنائی  جائے جسے کہتے ہیں ہیں کہ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی مگر رنگ چوکھا آئے”-جن لوگوں کی نفسیاتی بحالی ممکن ہے، انکے لئے اہل تصوف، خصوصی توجہ کریں-

اسی ضمن میں تبلیغی جماعت والوں سے گذارش ہے کہ مخنث حضرات تک آپ لوگ پہنچے اور ان میں اپنی اصلاح کا داعیہ پیدا کیا، بہت اچھا کیا مگراس کے فوراً بعد، انکو صوفیاء کے حوالے کردیا جائے –مزید انکو جماعتوں میں ہی چلاتے رہنا ، فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بن سکتا ہے-

4- اسلام ، عامتہ الناس کو نصیحت کرتا ہے کہ کسی مریض کا تمسخر نہ اڑایا جائے بلکہ اس سے ہمدردی کی جائے مگر مریض کواجازت نہیں دی جاسکتی کی کہ بجائے علاج کرانے کے وہ سوسائٹی میں اپنا مرض پھیلانے نکل کھڑا ہو- اسکے لئے حکومت ہرممکن اقدام کرے گی-

5- جن والدین کے بچے میں یہ ابنارملٹی پائی  جائے وہ خدارا”پینک” میں نہ پڑیں بلکہ پہلے اس موضوع پراپنی کوچنگ کا انتظام کریں کہ یہ بچے کی زندگی کا مسئلہ ہوتا ہے- دعا سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی  نہیں کیونکہ ہم سب کے دل ودماغ، اسی قادر مطلق میں ہاتھ میں ہیں-

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟-

Advertisements
julia rana solicitors london

والسلام

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply