میرے چند پسندیدہ لکھاری ( بلاگرز)۔۔۔۔۔۔سجاد حیدر/قسط1

اکثر دوست پوچھتے ہیں کہ اپنے تین یا چار پسندیدہ لکھاریوں یا بلاگرز کے نام لکھیں۔ اب تعداد کی پابندی کے ساتھ چونکہ جواب دینا مشکل ہوتا ہے۔ لہذا ہم نظرانداز کر کے آگے بڑھنے کے عادی ہیں۔ آج سوچا کہ ایک سیریز میں اپنے پسندیدہ مصنفین کا تذکرہ انکے فنی محاسن کے ساتھ کیا جائے۔ تو پہلی قسط حاضر ہے۔ اگرچہ ان میں کچھ کا درجہ سی فرسٹ سے گر کر ڈیفالٹ تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کی وجوہات ذاتی ہیں۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش.
کسی نے سوشل میڈیا پر دانش مندی، نکتہ رسی، میانہ روی اور متانت سے معمور تحریر اگر پڑھنی ہے تو ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کو پڑھیں۔ وہ مضمون جو کوئی دوسرا لکھاری کئی صفحات میں لکھتا ہے، ڈاکٹر صاحب اسی مضمون کو دو پیراگراف میں ایسے سمیٹتے ہیں کہ کہیں بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ ایشو سیاسی ہو یا سماجی، مذہبی ہو یا معاشی، ڈاکٹر صاحب اس کو اس طرح پانی کر دیتے ہیں کہ قاری دیکھتا رہ جاتا ہے۔ خوبصورت نثر، سادہ الفاظ، پورا مفہوم اور ہر معاملے کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کرنا ڈاکٹر صاحب کا خاصہ ہے۔ تعلیم کے لحاظ سے ڈاکٹر، پیشہ کے لحاظ سے کاروباری اور خاص شعبہ تدبر قران۔ کچھ عرصہ 92 نیوز میں باقاعدہ کالم لکھتے رہے پھر پتہ نہیں کیوں ہاتھ کھینچ لیا۔ مجھ سے اکثر نوجوان پوچھتے ہیں کہ کن لکھاریوں کو پڑھیں تو میرا پہلا انتخاب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور خوبی انکے ون لائنر ہیں، اپنے اس ہنر کا اظہار وہ دوسروں کی تحاریر پر کمنٹس کی شکل میں کرتے ہیں۔ اتنے لائکس اصل تحریر کو نہیں ملتے جتنے ڈاکٹر صاحب کا کمنٹ بٹور لیتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر نہ کبھی جذباتیت کا شکار ہوتی ہے اور نہ پاپولرازم انکو متوجہ کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ معاملے کا وہ پہلو سامنے لائیں گے جس کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا ہو گا، پیش منظر سے زیادہ پس منظر میں بظاہر کوئی غیر اہم چیز، کوئی معمولی بات ہمیشہ انکی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے قاری کی ہمیشہ تربیت کرتے نظر اتے ہیں کہ جلدی مت کریں تھوڑا سا کونوں میں جھانک لیں، شاید معاملے کی اصل ماہیت سمجھ   آجائے۔ انکا وسیع مطالعہ انکی ہر تحریر میں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ بلا کسی مبالغہ یا تعصب کے انہیں سوشل میڈیا کا روشن مینار کہا جا سکتا ہے۔

عامر ہاشم خاکوانی !

کسی نے محمد علی جوہر ایڈیٹر کامریڈ سے پوچھا کہ آپ اتنے طویل اداریے کیوں لکھتے ہیں جوہر صاحب نے کہا، بھائی میرے پاس مختصر لکھنے کا وقت نہیں ہوتا تو خاکوانی صاحب کے پاس بھی مختصر لکھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اخباری کالم بلاگ سے زیادہ طویل ہوتے ہیں لیکن خاکوانی صاحب کے سوشل میڈیا پر بلاگ بعض اوقات دو کالم  جتنی جگہ گھیرتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ کہ آپ تحریر شروع کر کے ختم کیے بغیر چھوڑ نہیں سکتے۔ سادہ نثر میں بغیر کوئی پھول بوٹے سجائے، طنز و تشیع سے پاک صرف اصل موضوع کو فوکس کرتے ہیں۔ انکی تحریر کبھی بوجھل پن کا شکار نہیں ہوتی۔ جس ایشو کو زیر بحث لائیں گے اس معاملے کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کریں گے، کسی پہلو کو تشنہ کو نہیں رہنے دیں گے۔ اپنے موقف کے حق میں ایسی قاطع برہان دلیل لائیں گے کہ مانے بغیر چارہ نہیں۔ ببانگ دہل اپنا ناطہ دائیں بازو سے جوڑتے ہیں کبھی اپنے مذہبی پس منظر پر معزرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ سرائیکی لہجے کی مٹھاس اور لوچ انکی تحریروں کی اثر پذیری میں اضافہ کرتا ہے۔ خود بھی صاحب مطالعہ شخص ہیں اور بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ قارئین میں بھی یہ شوق پیدا ہو۔ نئی کتابوں سے تعارف اور انکا ریویو انکے اکثر بلاگز کا موضوع ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاپ سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریروں میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی کا مقدمہ جذبات کی بجائے منطقی بنیادوں پر پیش کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر بھی انکا ممنون ہوں کہ مجھے سوشل میڈیا پر اردو داں طبقے سے متعارف کروایا جس سے ایک نئے سفر کا  آغاز ہوا۔ دلیل نامی ویب سائٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر اردو کا فروغ بھی انکا ایک بڑا کام ہے۔ ۔

رعایت اللہ فاروقی!

سوشل میڈیا کی وہ شخصیت جن سے ناراض لوگوں کی تعداد انکے چاہنے والوں کی تعداد سے کسی طور کم نہیں۔ اکثر لوگوں کو یہی گلہ رہتا ہے کہ فاروقی صاحب ذرا سی بات پر بلاک یا انفرینڈ کر دیتے ہیں ( یہ عاجز بھی انفرینڈ کی سعادت حاصل کر چکا ہے)لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ فاروقی صاحب جیسی تحریر کوئی لکھ ہی نہیں سکتا، وہ قلم کو خنجر کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ فاروقی صاحب کی اکثر تحریروں کے مخاطب نوجوان اور بالخصوص مدارس کے طلبا ہوتے ہیں چونکہ وہ خود بھی مدارس سے فارغ تحصیل ہیں تو گھر کا بھیدی ہونے کے ناطے خوب جانتے ہیں کہ پانی کہاں مرتا ہے۔ مدارس کے نظام تعلیم میں موجود خامیوں کے چونکہ وہ چشم دید گواہ ہیں اور اس نظام میں بہتری انکی خواہش ہے لہذا دردمندی اور خلوص کے ساتھ اصلاح کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کوشش میں اکثر اوقات ارتھوڈاکس طبقہ کے دشنام کو بھی جھیلتے ہیں اور خوب جھیلتے ہیں۔ افغان جہاد اور اسکے نتیجے میں چلنے والی سائیڈ لائن تحریکوں میں شامل رہے، لہذا انکے قارئین کو انتظار رہتا ہے کہ کب ان موضوعات پر خامہ فرسائی کریں۔ الفاظ کے استعمال میں کنجوس لیکن ہر لفظ لگتا ہے موتی کی طرح اپنی جگہ پر پیوست۔ بعض اوقات سخت الفاظ کا استعمال کر جاتے ہیں لیکن انکی دلیل کی کاٹ کرنا بہت مشکل۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن نظرانداز نہیں۔ اپنی پسند ناپسند کے بارے بہت شدید۔ آپ انکے کسی بھی پسندیدہ شخص کے خلاف اگر کچھ کہیں گے تو ڈٹ کر اپنے موقف کا دفاع کریں گے اور خوب کریں گے۔ اگر آپ نے کج بحثی کی تو دوستی قربان کر دیں گے لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اگر اپ تحریر کا فن سیکھنا چاہتے ہیں تو فاروقی صاحب کی تحریروں سے بڑھ کر استاد کوئی نہیں۔ میں ایسے کئی بہت اچھا لکھنے والوں کو جانتا ہوں جنہیں فاروقی صاحب نے ناصرف لکھنے کی طرف مائل کیا قلم پکڑنا سکھایا بلکہ انکی طرف لوگوں کو متوجہ بھی کیا، باقاعدہ پروموٹ کیا اگرچہ وہ احباب اسے اپنی خداداد صلاحیت گردانتے ہیں۔ اور فاروقی صاحب کا بڑا پن ہے کہ کبھی اسکا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ وہ قارئین کو کھٹی میٹھی گولیوں کا عادی بنانے کی بجائے سیدھی سرجری پر یقین رکھتے ہیں۔ مریض کو تکلیف تو ہوتی ہے لیکن ایک بار سوچ میں سے سارا فاسد مواد ضرور خارج ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

سجاد حیدر
شعبہ تعلیم، یقین کامل کہ میرے لوگوں کے دکھوں کا مداوا صرف تعلیم اور تربیت سے ممکن ہے۔ استحصال سے بچنا ہے تو علم کواپنا ہتھیار بناٗو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرے چند پسندیدہ لکھاری ( بلاگرز)۔۔۔۔۔۔سجاد حیدر/قسط1

  1. ڈاکٹر عاصم بخش ۔۔آپ سے متفق ہوں ۔ میں فیس بک پر نہیں ہوں لیکن جب تھی تو ڈاکٹر اللہ بخش کی تحریروں کے توازن اور اعتدال نے مجھے بھی متاثر کیا تھا ۔۔اور اب مکالمہ کے دم سے ان سب کے کالم پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔۔۔۔ تو جذباتیت اور تعصب سے ہٹ کر پاکستانی سیاست اور حالات کی جانکاری رہتی ہے ۔۔۔

Leave a Reply