ہم جنسیت اور اسلام۔۔۔۔۔سلیم جاوید/قسط7

دنیا بھر میں “گے پرائیڈ” جلوسوں کوپذیرائی دی جارہی ہے- ان جلوسوں میں “گے کمیونٹی” کی طرف سےتین قسم کے مطالبات سامنے آتے ہیں-

1- پہلا مطالبہ خود اپنی کمیونٹی سے کیا جاتا ہے کہ “گے” ہونا ایک فطری چیز ہے لہذا اس پہ شرمندگی کی بجائے فخر کیا جائے-

2- دوسرا مطالبہ سماج سے کیا جاتا ہے کہ گے لوگوں کے ساتھ تعصب نہ برتا جائے-نہ ان پہ تشدد کیا جائے-

3-تیسرا مطالبہ حکومتوں سے کہ کیا جاتا ہے کہ انکو ہم جنس سے شادی کی ( گے میرج) کی قانونی اجازت دی جائے-

ان تینوں مطالبات پرہم اپنا مسلم سیکولرموقف پیش کرتے ہیں-

1- پہلا مطالبہ چونکہ خود ہم جنس حضرات کااپنی کمیونٹی سے ہے تو انکی مرضی ہے چاہے اس پہ فخر کریں یا اس پرمیڈل وغیرہ کا اہتمام کریں- انکو اپنے بارے رائے اور ہمارے بارے رائے رکھنے کی آزادی ہے (مگر نفرت پھیلانے کی نہیں)- اسی طرح ہمیں بھی انکے بارے اور اپنے بارے ایک رائے قائم کرنے کی آزادی ہے- ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بندے میں ہم جنسیت کا افزود جذبہ ہونا، قابل فخر نہیں بلکہ قابل تشویش بات ہے- البتہ پچھلی اقساط میں تقسیم بتاآئے ہیں کہ صرف ہم جنسی کا میلان ہونا کوئی  ابنارملٹی نہیں ہوتی مگر اس سے آگے بڑھنا ضرور ابنارملٹی ہے-

2- ہم جنس افرادکا دوسرا مطالبہ سوسائٹی سے ہے کہ انکے ساتھ تعصب نہ برتا جائے اور ان پہ تشدد نہ کیا جائے-

بطور مسلم سیکولرز، ہم اس مطالبہ کی تائید کرتے ہیں- ایک مریض سے کیوں تعصب برتا جائے جبکہ وہ آپکو کوئ ذاتی نقصان بھی نہیں پہنچاتا؟- دیکھیے، اگر کوئی  شخص کسی بچے کے ساتھ زبردستی کررہا تو یہ “ریپ” کا کیس ہے۔ یہ الگ معاملہ ہے اور سماج اس پہ کوئی قدم اٹھا سکتا ہے( قصور کی زینب کیس میں یہ ڈسکس ہوچکا ہے)- تاہم اگر دومیچیور بندے اپنے گھرمیں باہمی رضامندی سے اپنی اپنی شہوت پوری  کرنا چاہتے ہیں تو ہماشما کو اس پہ سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے؟- (کچھ دن پہلے ایک سعودی شیخ نے بڑی دل سوزی سے کہا کہ سعودی عرب میں نئی نسل کوہم جنسی کی طرف لے جایا جارہا ہے- عرض کیا حضور، آپکی عمر کو ساٹھ سال ہے اور گمان نہیں ہے کہ کوئی  آپکو چھیڑے گا- ناراض ہوگئے کہ میں اپنی بات نہیں کررہا بلکہ لڑکے بالوں کی بات کررہا – عرض کیا تجھ کو پرائی  کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو)-

ایک بار مٹھن کوٹ میں کسی کھیت میں سے ہم جنس جوڑا پکڑا گیا تو کم از کم دوسو آدمیوں کا جلوس انکو جوتے مارتا جارہا تھا- مقامی دوست ذرا باثر تھے تو میری مداخلت کام کرگئی اور انکی جان بچی-( حالانکہ خاکسار کا مشاہدہ یہ ہے کہ ضلع راجن پور کا ہر پانچواں آدمی اسی لت میں مبتلا ہے)- یہ بات قطعا” قابل قبول نہیں ہے- “ہم جنس” کوسزادینے کیلئے تو شرعی قانون بھی موجود نہیں چہ جائیکہ عام لوگ خود ایک سزا تجویز کرنا شروع کردیں ( البتہ ہرسماج اپنی پارلمنٹ کے ذریعہ کوئی قانون سازی کرنا چاہے تو اسکا حق ہے)-

اس معاملے میں بعض حساس مذہبی دوستوں کے رویے پرحیرت ہوتی ہے- بھائی ایک آدمی اپنی شہوت کے ہاتھوں بے قرار ہوگیا اور اس جذبے کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے- چاہے اسکے لئے اسے لڑکی میسر آگئی  یا لڑکا یا اپنے ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ اپنی کیفیت کا مداوا کررہا ہے تو اس پرآپکو کیوں غصہ آئے؟- اگر آپ کو ایسے آدمی پر صرف اس لئے غصہ آرہا ہے کہ وہ گناہ کا کام کررہا ہے تو بھائی، وہ خود بھی اپنے گناہ کو مان رہا ہے اور اسکے لئے وہ توبہ کرلے گا- یہ اسکے اور خدا کے مابین معاملہ ہے-

تاہم، اگر آپ کے غصہ میں دراصل اس کیلئے ہمدردی چھپی ہوئی  ہے تو آپ کو اس کے علاج معالجے کی فکر کرنا چاہیئے نہ کہ ہرجگہ اسکے کپڑے اتارتے پھرو- دوستوں کی خدمت میں عرض کروں گا کہ ہرگناہگار کا پردہ رکھا کریں- خدا ستار ہے اور ستاری کو پسند کرتا ہے-

جب ایک مسلمان مرجاتا ہے تو اسکو غسل دیاجاتا ہے- غسل دینے والا غسال، چادر کے نیچے اسکے پورے بدن پرصابن ملتا ہے- اب ذرا اس حدیث پہ سوچیئے گا جسکے مطابق اگر کسی بندے نے میت کوغسل دیا اور اسکے جسم میں کوئی “عیب” پایا مگر میت کے اس عیب کو خدا کی خاطر چھپا دیا تو خدا اس غسال کے ایسے چالیس کبیرہ گناہ معاف کرے گا جنکی وجہ سے اس پہ دوزخ طے ہوگئی تھی-

سوچنا چاہیے کہ ایک مردہ مسلمان کا عیب چھپانے پہ اجر ملتا ہے تو زندہ مسلمان کی پردہ پوشی پر کیا اجر ملے گا؟-

“گے” لوگوں کو بھی ایک نصیحت کرتا ہوں- دیکھیے، خدا ایسے آدمی کو بہت ناپسند کرتا ہے کہ جس نے رات کی تاریکی میں ایک گناہ کیا اور خدا نے اس کا پردہ رکھا مگردن کو وہ خود اپنے کارنامے کا اعلان کرتا پھرتا ہو-

مزید عرض کروں گا کہ کسی مفعول کی ویڈیو بنانے یا اسے بلیک میل کرنے سے گریز کیا کریں- اپنے ایک تونسوی نامعقول دوست کا قول زریں ازراہ تفنن شیئر کرتا ہوں- فرماتے ہیں مفعول کی ویڈیو بنانے والے کا ایمان کمزورہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح “شکار” کو اپنے قابو میں رکھے گا حالانکہ جس خدا نے اس وقت اسکے “رزق” کا انتظام کیا ،و ہ بعد میں بھی کرسکتا ہے- ( اس گستاخانہ قول کی توجہہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنی کمی یا برائی بڑھانے پہ مصر ہی ہوجاتے ہیں تو خدا انکے مرض میں مزید اضافہ کیا کرتا ہے)-

میرے اکثر دوست بہت فہیم ہیں اور بات کی روح تک پہنچ جایا کرتے ہیں – ایسا”آئی-کیو” لیول رکھنے والے دوستوں کی خدمت میں سیرت الاولیاء سے ایک واقعہ پیش کرنے کو دل کرتا ہے (مگر مجھ سے اسکی مزید توضیح نہ مانگی جائے)-

حضرت ابوسلیمان دارانی ، دمشق کے اولیاء میں سے تھے اور ایسےحسین آدمی تھے کہ انکو یوسف ثانی کہا جاتا تھا- بڑھاپے میں ایک باراپنے مریدین کی محفل میں رنجیدہ ہوکرفرمانے لگے کہ اپنی جوانی میں ایک بار جنگل میں جارہا تھا – اس جنگل کی تنہائ میں ایک عورت میرے پاس آئ اور مجھے منت سماجت کرنے لگی کہ اسکی خواہش پورا کروں- مگر مجھ پرخشیت الہی کا غلبہ تھا پس اس سے بھاگ نکلا- اب یہ سوچتا ہوں کہ اس بیچاری کی خواہش پوری کردیتا اور بعد میں خدا سے توبہ کرلیتا تو کیا خوب ہوتا-

3- اب ” گے میرج” کے بارے اپنا موقف عرض کرکے مضمون کو سمیٹتتا ہوں-

جہاں تک “گے میرج” کا تعلق ہے (یعنی مرد کی مرد کے ساتھ شادی اور عورت کی عورت کی ساتھ شادی) ، تو بحیثیت مسلمان ایک طرف ، بحیثیت انسان بھی اسکو قبول نہیں کیا جاسکتا- اگر کوئی  اپنے ہم جنس کے ساتھ اسکی رضامندی سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو کسی درجہ اسکو قبول کیا جاسکتا ہے مگر بھائی، اسکو قانونی بندھن بنانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟- (ویسے اگر کوئی آدمی ملحدہےتو شادی جیسی رسم کی اسےضرورت کیا ہے؟)-

بعض یورپی دانشور فرماتے ہیں کہ قانونی شادی ہونے کے بعد، انکو کوئ تنگ نہیں کرے گا تو وہ اپنے پروفیشن پریکسوئی سے دھیان دے سکیں گے- (معلوم ہوا کہ وہاں کا سماج بھی اسے ابنارملٹی ہی سمجھتا ہے)-

بہرحال، اگر آپ مسلمان ہیں تو واضح ہوکہ قرآن میں اس قسم کی شادی کی کوئی گنجائش نہیں بنتی-

قرآن پاک نے شادی کو شرعی بندھن قرار دیا ہے اوریہ معاملہ صرف مرد اور عورت کے مابین مذکور کیا فرمایا ہے- بہت زیادہ استنباط بھی کرلیں تو ادھورے مرد یا ادھوری عورت کو پوری صنف شمار کرکے ان کی آپس میں یا ان کی کامل جنس سے شادی کی اجازت دی جاسکتی ہے(مسلمان مخنث کے کفن کے ضمن میں فقہاء نے فرمایا اسکی جنس کا جھکاؤ دیکھ کراس مرد یا عورت والا کفن دیا جائیگا)- مگر مرد کی مرد کے ساتھ شادی، بھلا کس منطق سے اور کیوں جائز قراردی جائے؟-

جو لوگ یہ منطق پیش کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن اس بارے خاموش ہے تو معاملہ بین بین حل کیا جاسکتا ہے، وہ غلطی پرہیں-

عرض کرتا ہوں کہ “عبادت” ایک شرعی اصطلاح ہے- دنیا میں بہت اچھے کام بھی لوگ کرتے ہیں مگراسکو “عبادت” کا سٹیٹس دینے کیلئے ضروری ہے کہ قران وسنت سے اس بارے ثبوت لایا جائے-

ہم مسلمان شادی کو”عبادت” سمجھتے ہیں-“سیم سیکس میرج” اچھائی ہے یا برائی، یہ ایشو تو رہا ایک طرف، مگراپنے پیغمبرکی ولادت کی خوشی منانا تو بہرحال ایک اچھی رسم ہے- اب دیکھیے کہ جب تک قرآن وسنت سے اسکا تذکرہ ثابت نہیں ہوتا، ہم میلادالنبی کے جشن کو بھی عبادت ماننے پہ تیار نہیں تو”سیم سیکس میرج” کو کیسے ایک”عبادت” کا سٹیٹس دے دیا جائے؟-

چنانچہ، اگر آپ مسلمان ہیں اور سیم سیکس میرج کو شرعی حیثیت دینا چاہتے ہیں تو قرآن وسنت سے اسکی مثال لانا آپکے ذمہ ہے- اس لئے کہ شادی، ہمارے دین میں ایک عبادت ہے اور اسکا پروف قرآن وسنت سے لانا ضروری ہے-

گذارش یہ ہے کہ مضمون کی طوالت سے خاکسار خود بھی بیزار ہوگیا ہے مگرآخری قسط باقی ہے جسکی خاطر یہ طویل مضمون لکھا گیا ہے- کوشش یہی ہے کہ آخری قسط بھی جلد ہی پوسٹ کردوں جسکے بعد احباب کی آراء سے متسفید ہوا جاسکے-

ایک اعتذار:

اس مضمون میں ایک قسط خواہ مخواہ کی بحث کی وجہ سے بڑھادی گئی جس کو فائنل ڈارفٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا تاکہ مضمون غیرضروری طور پرطویل نہ ہو-

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply