• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ظالم حکومت اورایسا نا اہل وزیر داخلہ ؟۔۔۔سید عارف مصطفٰی

ظالم حکومت اورایسا نا اہل وزیر داخلہ ؟۔۔۔سید عارف مصطفٰی

نالائق اور نااہل وزیر داخلہ اعجاز شاہ کی بھی سنیے ۔۔۔ ایک انتہائی معمولی مگر غیر متعلق مقدمے میں ممتازکالم نگار و صحافی عرفان صدیقی کو گرفتار کرکے ہتھکڑیاں لگاکے پابند سلاسل کرنے کے بعد چلّا  چلّلا کر کہہ رہا ہے کہ ‘لگتا ہے کہ یہ کام بھی نون لیگ نے کروایا ہے’ کوئی اس نکمے انسان سے یہ پوچھے کہ کیا تمہارا قلمدان بھی اگر اب بھی نون لیگ کے ہاتھ میں یرغمال ہے تو تم وہاں اسلام آباد میں دھرے کیا کررہے ہو ، استعفیٰ دےکر گھر کیوں نہیں چلے جاتے ۔۔۔ اور اگر تمہاری ناک کے نیچے کوئی سنگین غلطی سرزد ہوئی ہے تو تمہارے سوا اس کا ذمہ دار اور کون ہے ۔ اور یہ بھی پوچھا جائے کہ اس غلطی کی تلافی کے لیے تم نے اب تک کیا کیا ۔۔۔ کیوں اس دانشور اہل قلم کو معذرت کرکے گھر واپس نہیں بھیجا گیا ۔۔۔ واضح رہے کہ یہ کوئی قتل ، ڈکیتی ، اغواء برائے تاوان جیسی کسی سنگین واردات کا شاخسانہ نہیں بلکہ کرایہ داری قانون کی ایک معمولی سی خلاف ورزی کا مقدمہ ہے اور جس مکان کے حوالے سے ہے وہ عرفان صدیقی کا نہیں انکے بیٹے کا ہے- لیکن چونکہ وہ نواز شریف کے قریبی دوستوں میں ہیں اور انکی تقاریر لکھتے رہے ہیں اور اب مریم نواز کے معاون ہیں اس لیے اس بدترین سلوک کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں‌ ۔ جہاں تک نواز شریف اور انکی جماعت کے ہاتھوں ملکی خزانے کی لوٹ مار کی بات ہے تو اس پہ جو بھی قانونی کارروائی بنتی ہو وہ ضرور کی جانی چاہیے جو کہ ہو بھی رہی ہے ۔۔یہ الگ بات کہ اس میں بھی کچھ حلقے توازن اور اعتدال کو گمشدہ و لاپتا محسوس کررہے ہیں ۔۔ درحقیقت عرفان صدیقی جیسے صاحب مطالعہ دانشور کے ساتھ جو بدسلوکی روا رکھی گئی ہے اس پہ تو وزیرداخلہ ہی نہیں متعلقہ آئی جی اور ایس پی کو بھی ہتھکڑیاں ڈالی جانی چاہیئں۔

سچ تو یہ ہے کہ انصاف کے نام لیواؤں کے دور حکمرانی میں انصاف کی جیسی درگت بنائی جارہی ہے اسکی مثال تو جابر و ڈکٹیٹر غیرجمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی نہیں ملتی ۔ پہلے ایک محنت کش غریب خاندان پہ دولت اور طاقت کے نشے میں بدمست ایک وفاقی وزیر اعظم سواتی چڑھ دوڑا تھا اور ساری حکومت اسکے دفاع میں سرگرم ہوگئی تھی حتیٰ کہ اس سلسلے میں اس ذلیل وزیر کی خواہش پہ اس غریب خاندان کو جھوٹے مقدمے میں ٹھونس دینے کی فرمائش پوری نہ کرنے پہ دو پولیس افسران کا تبادلہ کرکے انہیں نشان عبرت بناڈالنے کی کوششوں میں بھی حکومت اسی وحشی وزیر کے ساتھ ہی کھڑی نظر آئی تھی ۔۔ اگر اس درندگی کے خلاف عوامی سطح پہ شدید احتجاج نہ ہوا ہوتا اور سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کے اور جے آئی ٹی سے تحقیقات کراکے اس  وزیر کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا ہوتا تو اس غریب خاندان پہ آج بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوتے ۔ البتہ ستم ظریفی یہ رہی کہ ثاقب نثار کے جاتے ہی وہ ملعون ظالم سرمایہ دار شخص پھر کلیجے سے لگاکے کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین نہیں آتا کہ یہ سب اسی شخص کے دور حکمرانی میں ہورہا ہے کہ جو قانون کی بلا امتیاز پاسداری کی باتیں کرتے نہ تھکتا تھا اور اس سلسلے میں ایک بااثر خاتون کی چوری کرنے اور اسے کچھ لوگوں کی جانب سے اسے ہاتھ کاٹنے کی سزا سے بچانے کی کوششوں پہ سرکار دوعالم کی اس بات کا حوالہ دیکر لوگوں کے جذبات بھڑکاتا تھا کہ ” خدا کی قسم اسکی جگہ نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ بھی ہوتی تو انکے ساتھ بھی ایسا ہی انصاف کیا جاتا“ ثابت ہوا کہ انصاف کے اس دعویدار عمران خان کی یہ سب باتیں محض بھاشن بازی ہی نہیں بلکہ سوچی سمجھی جذباتی بلیک میلنگ تھی ۔۔۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس شخص نے آتے ہی حقیقت کو بےنقاب کرسکنے والے تمام صحافتی اداروں پہ پے درپے وار کرکے اس حد تک دیوار سے لگادیا ہے کہ اب ان میں اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی سکت ہی نہیں رہی ۔۔۔ اور رہیں صحافتی و علمی ادبی تنظیمیں ۔۔ تو وہ حکمرانوں‌ اور چینلز مالکان کی کاسہ لیس بن چکی ہیں ۔۔ اور اب اہل قلم کے لیے وہ تاریک دور آچکا ہے کہ ان سب کو اب باری باری کسی بکری چوری جیسے مقدمے میں اپنے ہاتھوں میں تھکڑی ڈلوانے کے لیے تیار رہنا چاہیے- اس طرح کے واقعات صرف حکومت ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں شمار ہورہے ہیں اور یوں اسٹیبلشمنٹ بتدریج عوامی غیض و غضب کے نشانے پہ لے آئی جارہی ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں‌کہ اس حکومت کی اصل پشتیبان کونسی قؤت ہے ۔۔۔ ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی اب اپنے وقار اور نیک نامی کے تحفظ کی فکر کرنی چاہیے وگرنہ یہ جان رکھیں کہ انقلاب کی کوئی آنکھ نہیں ہوتی اور جب یہ آجائے تو مضبوط سے مضبوط قلعے کو ڈھادیتا ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply