کیا تصوف متوازی دین ہے؟۔۔۔حافظ صفوان محمد

میری رائے میں تصوف ضرورتِ حادثہ کی ایک پیداوار ہے جسے ہر دور میں اصلاحِ باطن کے شائقین نے استعمال کیا ہے. حضرت محمد علیہ السلام نے بھی غارِ حرا میں قبل از نبوت جو ذکر و عبادت اور تفکر فرمایا ہے اسے بھی کسی درجے میں تصوف کے عنوان سے معنون کیا جا سکتا ہے. آپ علیہ السلام کے بعد بھی اصلاحِ باطن کے یہ طریقے جاری ہیں. ان کی حیثیت میرے نزدیک یوں ہے جیسے نورانی قاعدہ یا بغدادی قاعدہ یا بخاری و مسلم شریف، کہ ان سب کی ہرگز ہرگز کوئی قائم بالذات دینی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ سب بعد والوں کی اچھی ایجادات (بدعات) ہیں اور ان کا امت کے بڑے طبقے کے لیے فائدہ مند ہونا ہی ان کے جواز کی واحد دلیل ہے. ان سب اچھی چیزوں کی حیثیت ذرائع کی ہے نہ کہ یہ سب خود مقصود بالذات ہیں. مثلًا آپ قرآنِ مجید کی جگہ بخاری شریف کی تلاوت نہیں کر سکتے یا چلہ کشی کو حج کا قائم مقام نہیں کہہ سکتے. مزید مثال یوں لیجیے کہ فرض نماز مقصود بالذات ہے چنانچہ آدمی تنہا ہو تب بھی اس کا ادا کرنا ضروری ہے جب کہ جمعہ و عیدین میں نماز مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا اجتماع اصلًا مقصود ہے، چنانچہ اگر مجمع چھوٹا ہے یا مسلمان تنہا ہے تو اس پر جمعہ و عیدین واجب نہیں ہے. اکیلا آدمی جمعہ و عید نہیں پڑھ سکتا.

میری رائے میں تصوف کو متوازی دین تب کہا جائے گا (یا کہا جانا چاہیے) جب لوگ فرائضِ دین اور امہات العقائد سے غفلت کرتے ہوئے تصوف کے مخصوص مجاہدات یا افعال کو مقصود بالذات سمجھنے لگیں اور اس میں غلو کرنے لگیں، جیسے مثلًا پاسِ انفاس یا حق ہُو کی ضربوں اور چلہ کشی وغیرہ میں لگنے کو فرائضِ دین اور اہلِ خدمت کے حقوق کی ادائیگی پر فوقیت دینے لگیں. بعض مزارات پر اور بعض دینی جماعتوں میں اس کی صورتیں یوں نظر آتی ہیں کہ فرض نماز تک کا اہتمام نہیں ہوتا جب کہ نفلی اور من گھڑنت اوراد و وظائف پر بہت مجاہدات کیے جاتے ہیں. یہی تصوف کے متوازی دین بن جانے کے مظاہر ہیں. اس گرداب سے خدا بچائے.

الحاصل تصوف دین میں اضافہ تب کہلائے گا جب کوئی شخص غلو سے کام لے. درست تصوف صرف وہ ہے جو فرائضِ دینی کی ادائیگی میں شوق اور کمال پیدا کرنے کا یعنی catalyst کا کام کرے، جیسے نورانی قاعدہ قرآنِ مجید کو تجوید سے پڑھنے کا ملکہ پیدا کرتا ہے اور جونہی یہ ملکہ پیدا ہو جاتا ہے اس کے بعد نورانی قاعدہ نہیں پڑھا جاتا. جیسے نورانی قاعدہ پڑھنے کا کوئی اجر منقول نہیں ہے ویسے تصوف کی کسی مشق کا کوئی اجر نہیں ہے. ساری رات ذکر و عبادات کرنے والا اگر فجر نہیں پڑھتا اور بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو سب اکارت ہے اور یہ شخص جاہل صوفی ہے جو اپنی ہوائے نفس کی یا اپنے سے کسی بڑے جاہل کی پیروی کر رہا ہے. خدائے محمد نے اس دین کا مطالبہ نہیں کیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہٰذا ما عندی واللہ تعالی اعلم.

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply